ہاشم شیر خان:سرائیکی وسیب کا نامور محقق،مؤرخ اور اقبال شناس


ڈیرہ غازی خان کو یہ شرف حاصل ہے کہ اپنی دورافتادگی اورپس ماندگی کے باوجود علم و ادب کے ایسے بڑے نام پیدا کیے ہیں جن کی نگارشات کو پورے ملک میں سراہا گیا۔

شعاع حکمت و عرفاں ہے ڈیرہ غازی خان
متاع دیدۂ حیراں ہے ڈیرہ غازی خان

اردو شاعری میں محسن نقوی، کیف انصاری ، شفقت کاظمی، کیفی جامپوری، وحید تابش، عامل متھراوی: سرائیکی شاعری میں، خواجہ غلام فرید کی شاعری تو لازوال اور بے مثال ہے لیکن جدید سرائیکی شاعری میں عزیز شاہد اور احمد خان طارق کی حیثیت ایک دبستان کی ہے۔ افسانے اور کہانی میں سعیدہ افضل بڑا نام ہے۔ تنقید میں ڈاکٹر راشدہ قاضی اور ڈاکٹر صابرہ شاہین معتبر حوالہ ہیں۔

اقبالیات میں تو ڈیرہ غازی خان کو اہم مقام حاصل ہے۔ اقبالیات میں دومعروف نام ہیں جن کی شہرت عالمگیر ہے۔ان میں ایک ڈاکٹر غلام قاسم مجاہد بلوچ اوردوسرا نام محقق، نقاد، مؤرخ شاعر، قانون دان اوراقبال شناس شخصیت ہاشم شیر خان کا ہے۔ ایک ہاتھ میں قانون کی کتابیں، دوسرے ہاتھ میں تحقیق کا تیشہ لیے سنگریزوں میں چھپے موتیوں کی تلاش کرتا ہے اوران کو گوہر نایاب بنا کر ادبی دنیا میں کچھ اس انداز سے پیش کرتاہے کہ لوگ اش اش کر اٹھتے ہیں۔ شعر و ادب سے دلچسپی انہیں وراثت میں ملی ہے۔ ان کے دادا غلام حسین چنڑ اعلیٰ ادبی ذوق رکھتے تھے۔

وہ سرائیکی کے شاعر، علامہ اقبال کے عقیدت مند اور خواجہ نظام الدین تونسوی کے حلقۂ احباب میں تھے۔ خواجہ نظام الدین تونسوی کے ان کے نام خطوط زیرطبع ہیں۔ اگر چہ ہاشم شیر کثیرالجہت مصنف ہیں مگر اس کا تحقیق کا انداز اسے دوسرے ہم عصر مصنفین سے منفرد بناتا ہے۔ مخطوطات سے اسے گہری دلچسپی ہے۔ اس کی لائبریری میں کئی نادر کتب اور قلمی نسخے موجود ہیں۔ ان کے پاس دولت رائے کا قدیم اردو ناول ”سچا یاتری“ بھی موجود ہے۔جس کا شمار اردوکے اولین ناولوں میں ہو گا۔

انہوں نے لکھنے کی ابتدا اخبارات و رسائل سے کی۔ ان کے مضامین قومی اخبارات اورمعروف ادبی رسائل معیار، دریافت اور تخلیقی زاویے میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کے ہندی ادب سے انہیں خاص دلچسپی ہے۔ ”ڈیرہ غازیخان کا ہندی ادب“ کے نام سے ان کا مضمون تحقیقی و تنقیدی مجلہ معیار میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں دیوناگری رسم الخط میں لکھی ہوئی ڈیرہ غازی خان میں ہندی زبان کی واحد معلوم کتاب ”سکھی پروار“ کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب مصنف کی دریافت ہے اور وہ اس پر نازاں ہیں۔ اس کتاب کے بارے میں وہ یوں رقم طراز ہیں:

”کتاب“ سکھی پروار ”ہندی کے ٹائپ رائٹر سے ٹائپ کی گئی ہے۔ یہ کتاب ڈیرہ غازی خان میں ہندی ادب کے لیے مصباح ثابت ہوگی۔ اس کتاب کی دریافت کے بعد یہاں کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کثیر ہندی ادب کا کھوج لگا انتہائی ناگزیر ہو گیا ہے ۔“

ایڈیٹر ”معیار“ نے اس مضمون کو پسند کرتے ہوئے اسے کتابی شکل میں چھاپ کر مصنف کو پیش کیا۔ ہاشم شیر کے نام پاک وہند کے مشاہیر کے خطوط کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ ان معروف ہستیوں میں ڈاکٹر جاوید اقبال، جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، سید محمود خاور (مولانا حسرت موہانی کے بھانجے ) ، نگار سجاد ظہیر، پروفیسر فتح محمد ملک، رشید امجد، افتخار عارف، راجہ اسد اللہ خان (مولانا ظفرعلی خان کے پوتے ) ، واصف ناگی، ڈاکٹر طاہر تونسوی، ڈاکٹر وحید عشرت کے نام شامل ہیں۔ ان کے نام مکاتیب کی کثیرتعداد تحقیق و تدوین کی متقاضی ہے۔ ڈاکٹر امتیازحسین بلوچ کی زیرنگرانی ان پر ایم فل کا مقالہ زیر تحقیق ہے۔

ان کی پہلی کتابی کاوش خواجہ غلام فرید کے شاگرد صوفی شاعر عاقل جوگی کے کلام کی تدوین ہے۔ خواجہ عاقل جوگی کی کافیوں سے خواجہ غلام فرید کے کلام کی جھلک نظرآتی ہے۔

ہر صورت وچ دلدار ڈٹھم
ہر لحظہ شان ہزار ڈٹھم
کتھ عالم وحدت ذات ڈٹھم
کتھ رسم شیون صفات ڈتھم
(عاقل جوگی)

ہاشم شیر نے تقریباً ایک صدی بعد اس کو دریافت کر کے فرید سرائیکی سنگت ڈیرہ غازیخان سے شائع کرایا۔ فرید سرائیکی سنگت نے ان کے اس کام کو ان الفاظ میں سراہا:

سرائیکی فریدسنگت تے اے اب کیتا احسان
ہاشم شیر نے کیتا اینکوں سچا موتی دان

تاریخ نگاری ہاشم شیر کا مشغلہ ہے۔ نت نئی چیزوں کی دریافت کا جنون اسے بیٹھنے نہیں دیتا۔ ”ڈیرہ غازی خان کے تہذیبی خدوخال“ کے عنوان سے اس کی تاریخ وثقافت پر کتاب جنوری 1998ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں ڈیرہ غازی خان کی تاریخ، سیاست، ثقافت، ادب، صحافت سے لے کر آب و ہوا، تجارتی مراکز، تاریخی عمارات، مساجد، عبادت گاہیں، قبرستان، مزارات اورڈیرہ غازی خان کے گلی کوچے تک کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔ لیکن تاریخ نگاری سے ان کی دلچسپی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

”تواریخ ڈیرہ غازی خان“ کے نام سے ان کی کتاب زیور طباعت سے آراستہ ہونے والی ہے۔ تواریخ ڈیرہ غازی خان میں اس کو اہم مقام حاصل ہو گا۔ ڈیرہ غازی خان کا تحریک پاکستان میں کردار، قائداعظم سے ڈیرہ کے لوگوں کے روابط اوراس جیسے کئی اور موضوعات یقیناً قابل مطالعہ ہوں گے۔

بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ہاشم شیر نے شاعری بھی شروع کر لی ہے۔ اگرچہ انہوں نے خود کو بطور شاعر متعارف نہیں کرایا مگر ان کے اشعار میں پائی جانے والی سادگی، تڑپ اور پختگی ظاہر کرتی ہے کہ وہ طویل عرصے سے مشق سخن کر رہے ہیں۔

تم بھی ہاشم عجیب مزاج رکھتے ہو
پریشان سوتے ہو پریشان اٹھتے ہو

ان کے اشعار ان کی داخلی کیفیت کے آئینہ دار ہیں۔ آزاد نظم ہو یا غزل سب میں ان کے حالات کی عکاسی عیاں ہے۔

ترستا رہتا ہوں خوشی کے لیے
غم اٹھائے بہت ہنسی کے لیے
ختم ہو گا کبھی اندھیر بھی
زخم جلتے ہیں روشنی کے لیے
ایک پل بھی خوشی نہیں ملتی
غم ہی غم ہیں آدمی کے لیے

جس تصنیف نے انہیں شہرت دوام بخشی ہے وہ ان کی بہت ہی معروف کتاب ”علامہ اقبال اور ڈیرہ غازی خان“ ہے۔ اس کتاب میں ہاشم شیر کا فن اپنے عروج پر ہے۔ اس کا تحقیقی معیار بہت اعلیٰ ہے۔ اسلوب بھی کمال ہے۔ اس میں تیز رو دریا کی سی روانی ہے۔ ایسا شاید علامہ اقبال سے عقیدت کی وجہ سے ہے کیونکہ ہاشم شیر ماہر اقبال ہونے کے ساتھ عاشق اقبال بھی ہے۔ یہ کتاب 2001ء میں بیکن بکس ملتان سے شائع ہوئی، اس میں علامہ اقبال کے ان تمام خطوط کو حواشی کے ساتھ یکجا کر دیا گیا ہے جو ڈیرہ غازی خان کے اہل علم کے نام موجود ہیں۔

اس میں علامہ اقبال کا ایک نو دریافت شدہ خط، جو خواجہ نظام الدین تونسوی کے نام ہے، بھی موجود ہے۔ اس کو دریافت کرنے کا سہرا ہاشم خان کے سر ہے۔ اس کتاب کا خاص حصہ محمد رمضان عطائی کی وہ ڈائری ہے جس میں عطائی کی علامہ اقبال سے تین ملاقاتوں کا احوال موجود ہے۔ محمد رمضان عطائی وہ شخص ہیں جن کو علامہ اقبال نے اپنی یہ رباعی تملیک کر دی تھی۔

تو غنی ازہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہ مصطفی پنہاں بگیر

ہاشم شیر خان کی کتاب ”علامہ اقبال اورڈیرہ غازی خان“ کے متعلق ماہر اقبال ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی اپنے ایک مضمون ”اقبالیات 2001ء“ میں لکھتے ہیں :

”علامہ اقبال اور ڈیرہ غازیخان“ کے مصنف ہاشم شیر نے اپنی پہلی کتاب میں اقبال شناسی کا ایک قابل قدرمعیار پیش کیا ہے۔ موضوع بڑا دلچسپ ہے اور مصنف نے بھی محنت و کاوش سے ڈیرہ غازی خان سے متعلق علامہ اقبال سے ان کے بعض عقیدت مندوں اور مداحوں کی ملاقاتوں اورمحبت کے تعلق پر روشنی ڈالی ہے۔ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).