میں الو ہوں


تم الو ہو۔ جسے دیکھو ہمارے بارے یہی رائے رکھتا ہے۔ جتنے تسلسل اور تیقن کے ساتھ ہمیں الو پکارا جاتا ہے اس سے ہمیں بھی اپنے بارے یقین ہو گیا ہے کہ ہو نہ ہو ہم سچ میں الو ہی ہیں۔ اب خلق خدا جھوٹ تھوڑی بولے گی۔ ویسے بھی زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے۔ اور اس نقارے کی آواز سے یوں لگتا ہے جیسے خدا اپنی خلق کے ذریعے ہمارے الو ہونے کا اعلان کروانا چاہتا ہے۔ لہذا ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم بھی اپنا الو سیدھا کر لیں۔

ہمارا مطلب ہے کہ اخبار میں اشتہار دے کر حکام کو مطلع کر دیں کہ عوام الناس نے ہمارا نام حکمت بی بی سے بدل کر الو رکھ دیا ہے۔ لہٰذا آئندہ دستاویزات میں ہمیں الو لکھا جائے کہ پکارا تو پہلے سے جاتا ہے۔اشتہار کا مقصد واضح کر دیں کہ ہم چاہتے ییں کہ ہمارے الو پنے کی بازگشت اقتدار کے ایوانوں میں سنائی دے تو خوش بختی کا ہما جو ہمارے ارد گرد منڈلا رہا ہے وہ جلد از جلد اپنی منزل پر پہنچے، یعنی ہمارے سر پہ بیٹھ جائے۔

اگر ہم اپنے الو ہونے کا اشتہاری اعلان کر ہی رہے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ اس سے پہلے جلد سے جلد اعلیٰ برینڈ کے کپڑے خرید لیں اور دس بیس الگ الگ شعبوں سے متعلق تقریریں لکھوا کر اپنے پرس میں رکھ لیں تاکہ بوقت ایمرجنسی کام آسکیں۔ اس کے لیے ہم نے پڑھے لکھے لوگوں سے رابطے بھی شروع کر لیے ہیں۔ جن غیر الوؤں کو ہم نے سوچے ہوئے شعبے بتا کر تقریریں لکھنے کو کہا، پہلے تو انہوں نے ہمیں حیرانی سے دیکھا، پھر ہماری دماغی حالت پہ شبہ کرتے ہوئے ہمیں الو کہا اور چل دیے۔

اس سے ہمارا یقین پانچ سو فیصد بڑھ گیا کہ اگر اسی شد و مد کے ساتھ ہمیں الو پکارا جاتا رہا تو یقیناً جلد ہی ہمیں سرکاری سطح پر الو تسلیم کر لیا جائے گا اور ممکن ہے وزارت داخلہ و خارجہ کے ساتھ دس بارہ مزید وزارتوں کے قلم دان ہمارے سپرد کر دیے جائیں۔ اس لیے تقریریں لکھنے کا اہم کام بھی ہم نے فوری طور پر خود ہی شروع کر دیا ہے اور اب اس پر غور و خوض کر رہے ہیں کہ کس شعبے کو ہماری رہنمائی زیادہ درکار ہو گی اور یہ کہ سب سے پہلے ہمیں کون سی تقریر کرنے کا موقع ملے گا۔

ہم دیسی لوگوں کی تو ہر بات ہی نرالی ہے۔ ہر بات میں ولایتی لوگوں سے ضد لگا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہی دیکھیے مغرب والوں نے الو کو عقل مندی اور دانائی کی علامت کہا تو دیسی لوگوں نے محض ان کی ضد میں الو کو بے وقوف سمجھنا شروع کر دیا۔ اپنے لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ وہ ہمیں الو کہہ کر دراصل مغرب میں ہماری دانش کا چرچا کر رہے ہیں۔ جس سے ہمیں خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ کہیں ہمارے الو ہونے کی وجہ سے ہمیں مغرب میں سمگل ہی نہ کر دیا جائے۔

ہمیں نہیں پتہ کہ اپنے لوگ ہمیں مغرب والا الو سمجھتے ہیں یا ایشیا والا، لیکن وہ جو بھی سمجھیں دونوں صورتوں میں فائدہ ہمارا ہے کہ اگر تو یہ ہمیں مغرب والا الو سمجھتے ہیں تو جلد ہی ہم دیار غیر سدھار جائیں گے اور اہل مغرب کو اپنی دانش سے مستفید کریں گے۔ کیا پتہ وائٹ ہاؤس کے مقدر میں ٹرمپ کے بعد ایک اور الو کی میزبانی لکھی ہو۔ لیکن اگر یہ لوگ ہمیں ایشیا کا الو سمجھنے پہ مصر ہیں تو پھر سرکار کو چاہیے کہ وہ ہمیں اپنا وزیر مشیر رکھنے کے لیے جلد ہم سے رابطہ کرے۔

ایک الو ہونے کے ناتے ہمارا مشورہ ہے کہ اطلاعات و نشریات کا قلم دان تو ہونا ہی کسی الو کے پاس چاہیے۔ لہٰذا سرکار سے دست بستہ گزارش ہے کہ ہماری غیر الوؤں سے جان چھڑا کر ہمیں سرکاری تحویل میں لیا جائے کہ ہمارا ٹھکانہ وہیں ہونا چاہیے جہاں ہر شاخ پہ الو بیٹھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).