پنجاب پبلک سروس کمیشن اسکینڈل اور چودہ مطالبات


پنجاب پبلک سروس کمیشن اعلیٰ ترین ملازمتوں کی فراہمی کے لئے کبھی ایک انتہائی معتبر، باوقار اور اہم ترین ادارہ سمجھا جاتا تھا لیکن کچھ عرصہ سے اس کی ساکھ کے حوالے سے مختلف طرح کی چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں، بوجوہ کوئی اس کا نوٹس نہیں لے رہا تھا، ہمارا مین اسٹریم میڈیا بھی چونکہ ہمیشہ سیاسی معاملات کو ترجیح دیتا ہے اس لئے اس نے بھی غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نسل سے جڑے اس سنگین پہلو سے غفلت برتی۔

پھر اللہ کا انصاف حرکت میں آیا اور اس ادارے کی کوکھ سے ایسا اسکینڈل برآمد ہوا کہ سب کے ہوش اڑ گئے اور چہ مگوئیوں کو غلط اور بے پر کی کہنے والے بھی مان گئے کہ دال میں کالا ہی نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی ہے۔

اب اخلاقی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد اس کے چیئرمین لیفٹینینٹ جنرل (ر) مقصود احمد اپنی سنگین کوتاہی، غیر ذمہ داری اور لاپروائی کا اعتراف کرتے ہوئے فی الفور ازخود مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے خود کو انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش کر دیتے لیکن چونکہ یہاں ایسی روایت کی بجائے لوگ عام طور پر ڈھیٹ بن جاتے ہیں اور سارا ملبہ یوں چند چھوٹے ملازمین پر ڈال دیتے ہیں، اس کیس میں بھی یہی ہو رہا ہے جنرل مقصود صاحب تمتماتے ہوئے چہرے کے ساتھ نہ صرف مدت پوری کرتے دکھائی دے رہے ہیں بلکہ کسی بھی طرح کی جواب دہی کا اشارہ تک ان کی طرف سے نہیں ہو رہا ہے۔

حیرت ہے کہ متاثرہ نوجوان نوحہ کناں ہیں اور اس کے باوجود بھی کسی بڑی کارروائی کا کوئی اشارہ تک نہیں دیا جا رہا ہے، کیا اس اسکینڈل پر گجرات کی مشہور زمانہ گجراتی مٹی ڈالی جا رہی ہے؟ دکھائی یہی دے رہا ہے کہ چند چھوٹے ملازمین کو قربانی کا بکرا بنا کر بات ختم کرنے کی پالیسی اختیار کی جا رہی ہے؟ کیونکہ پیپر لیک ہونے کے بعد اس سے جڑے عناصر نہ صرف دندناتے پھر رہے ہیں بلکہ ان کا اثر و رسوخ بتا رہا ہے کہ ان کا بال تک بیکا نہ ہو گا اور ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس ادارے کا ایک قانون بھی ہے کہ جو لوگ غلط اور ناجائز ذرائع اختیار کرتے ہیں انہیں بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے

ایک انتباہ کی صورت اس ادارے کی ویب سائٹ پر واضح الفاظ میں درج ہے کہ:

’’امیدواران کو سختی سے ہدایت کی جاتی ہے کہ کسی ایسے شخص سے رابطہ نہ کریں جو آپ کو پیشکش کرے کہ میں آپ کو پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ملازمت دلوا سکتا ہوں، آپ اپنی قابلیت، اللہ سبحان و تعالیٰ پر بھروسا رکھیں، اگر کوئی مشکوک شخص آپ سے اس سلسلے میں رابطہ کرے تو فوری طور پر کمیشن کے ممبران سے رابطہ کریں کیونکہ کمیشن کا سلیکشن کا طریقہ انتہائی شفاف ہے اور کوئی بھی شخص کسی امیدوار کی کسی قسم کی کوئی بھی مدد نہیں کر سکتا۔‘‘

نیچے درج ہے کہ ’’اطلاع دینے والا کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا‘‘

اب بندہ حیرانی سے سوچتا ہے کہ باہر سے تو یہ مکروہ اور گھناؤنا کھیل کھیلا ہی نہیں جا رہا تھا بلکہ یہ تو ادارے کے اپنے مقدس لوگ کرتوت گھول رہے تھے اور انہیں مختلف شکایات کے بعد اینٹی کرپشن کی ایک جرأت مند ٹیم کے ایک اسٹنگ آپریشن کے بعد پکڑا گیا ہے، ادارے نے تو اب تک کوئی کارروائی کی ہی نہیں ہے۔ خیر ہم پہلے اس اسکینڈل کے بعد سامنے آنے والے چودہ مطالبات کا ذکر کر دیں، باقی باتیں آگے جا کر کرتے ہیں:

1۔ سنگین غفلت، غیر ذمہ داری اور کوتاہی سامنے آنے کے بعد چیئرمین جنرل مقصود احمد فی الفور مستعفی ہوں اور اپنے آپ کو دیگر ذمہ داران کے ساتھ انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش کریں۔

2۔ پیپر لیک اسکینڈل کی انکوائری آئی ایس آئی، آئی بی، اسپیشل برانچ وغیرہ پر مشتمل ایک جے آئی ٹی کرے اور اس کی رپورٹ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیجی جائے جو کہ ذمہ داروں اور مجرمان کا فوری ٹرائل کر کے انہیں عبرت کا نشان بنا دیں تاکہ آئندہ کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نسل کے جذبات سے یوں سفاکی، بے شرمی اور بے حسی سے کھیلنے کی جرأت تک نہ کر سکے۔

3۔ پیپر لیک اسکینڈل سامنے آنے کے بعد موجودہ انتطامیہ کے تحت ہونے والے تمام تحریری امتحانات اور انٹرویوز منسوخ کیے جائیں کیونکہ ان پر ملوث ملزمان کے سنسی خیز انکشافات کے بعد ان پر ایک بہت بڑا سوال اٹھ چکا ہے اور ان تمام امتحانات اور انٹرویوز کی ساکھ بری طرح سے مجروح ہو چکی ہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ ان پر کسی بھی صورت اعتبار و اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہ امتحانات و انٹرویوز اس انکوائری کا رزلٹ سامنے آنے کے بعد دوبارہ سے لئے جائیں۔

4۔ امتحانی مراکز میں سیکیورٹی کیمرے ضرور ہوں، پیپرز کی پرنٹنگ اور ترسیل کے کام کے لئے سخت قسم کا ایک نظام وضع کیا جائے۔

5۔ تمام پیپرز دوبارہ سے بنوائے جائیں کیونکہ اسکینڈل سے جڑے ملزمان کی بات پر یقین کرنا کہ ہم نے بس چند ہی لیک کیے ہیں، کسی طور بھی قابل اعتبار بات نہیں ہے، جس کی رسائی سمندر تک ہو جائے کیا وہ چند قطروں پر، قناعت، کرے گا؟ لالچی لوگ زیادہ سخت ردعمل اور زیادہ سزا سے بچنے کے لئے کیا جھوٹ نہیں بولیں گے؟ عقل مان ہی نہیں سکتی کہ ان لوگوں نے صرف پانچ دس اسامیوں والے پیپرز تو بیچے ہوں اور سو ڈیڑھ سو والے نہیں۔

6۔ کمیشن کے ممبرز کی دوبارہ تعیناتی بھی بہت ضروری ہے کیونکہ تحریری امتحان تو پیپرز خریدنے والے پاس کر لیتے تھے لیکن ان دو نمبر طریقوں سے پاس ہونے والوں کو پھر انٹرویو میں پاس کون کرتا تھا؟ یقینی طور پر پیپر لیک کرنے والا مافیا ہی اس کا کسی طور بندوبست کرتا ہو گا اور یہ انٹرویوز لینے والے بعض کرپٹ لوگوں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہ ہو سکتا ، یہاں سب کی ساکھ کو متنازع و مشکوک بنانا مقصد نہیں ہے لیکن سلگتا ہوا سوال تو ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ پیپر خریدنے والے انٹرویو کا دشوارترین مرحلہ کیسے آسانی سے عبور کر لیا کرتے تھے؟

اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے تو انکوائری کر کے اس مرحلے کو، آسان، بنانے والے مہاتماؤں کا سراغ لگایا جائے اور پھر ان کی جگہ نیک نام، با اصول، تجربہ کار اور ذہین لوگوں کو ممبرز تعینات کیا جائے۔ یہ اس لئے بھی بہت ضروری ہے کہ بعض ممبران کی شہرت دیکھ کر حیرت ہوتی رہی کہ ان لوگوں کو اس طرح کے ادارے آخر کیسے پینل میں شامل کر لیتے ہیں؟ کیا انٹیلی جنس رپورٹس کے بغیر ہی ایسے ’تحفوں‘ کو پینلز میں شامل کیا جاتا رہا ہے؟

7۔ ایک سوال کمیشن ممبر کی ویٹو پاور کے حوالے سے بھی اٹھایا جاتا رہا ہے کہ اس اکیلے کو پچاس مارکس دینا کیا ظلم نہیں ہے؟ جب کہ ساتھ بیٹھے باقی دو یا تین لوگ یعنی متعلقہ محکمے کا ماہر اوردیگر ماہرین مل کر اپنے پچاس مارکس دینے کا حق رکھتے ہیں، ایک خیال یہ ہے کہ اس ویٹو پاور کا خاتمہ کیا جانا بہت ضروری ہے، مارکس پینل اراکین میں مساوی طور پر تقسیم ہونا ضروری ہیں۔

8۔ ایم کیٹ امتحانات کی طرز پر پی پی ایس سی کے پیپرز میں بھی ایک تو کاربن کاپی کا استعمال لازمی قرار دے دیا جائے اور ساتھ ہی عین اسی طرز پر شام تک اس پیپر کی key بھی جاری کر دی جائے تو بہت سی قباحتوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

9۔ عرصہ سے ایک مطالبہ ہو رہا ہے کہ کم ازکم اعلیٰ سطحی ملازمتوں میں تحریری امتحان کی مانند انٹرویو کے ریکارڈ کا کوئی بندوبست کیوں نہیں کیا جاتا ہے؟ ڈراپ ہونے والے امیدواران جان تو سکیں کہ آخر وہ کس کمی یا کوتاہی کی وجہ سے مسترد کیے گئے ہیں اور جو سلیکٹ ہوئے ان میں آخر ایسے کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے تھے؟

اول تو یہ مطالبہ غیرمنطقی نہیں ہے اور پھر اس سے یہ بھی ہو گا کہ اگلی بار مسترد کیا گیا امیدوار اس کوتاہی یا کمی کو دور کرنے کا جتن کر کے آنے کی سعی کرے گا، دنیا بھر میں ڈراپ کردہ امیدوار کو اس کی وجہ بتانے کا رواج ہے لیکن ہمارے ہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے اور پھر یہ معصومانہ مطالبہ ہے، اسے پورے کرنے میں کیا امر مانع ہے؟

10۔ امیدواران اس اسکینڈل کے بعد ادارے کی ساکھ پر سنگین سوالات اٹھا رہے ہیں اس لیے اب یہ بہت ضروری ہو چکا کہ جن لوگوں نے اس ادارے کی ساکھ تباہ و برباد کی ہے ان کے اعترافات سامنے آنے کے بعد انہیں سخت سزائیں دلوا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے پھینکا جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسی گھٹیا حرکت کا سوچے بھی نہیں۔

11۔ پیپر لیک اسکینڈل کے ملزمان کے موبائل فونز وغیرہ سے ان کی ہر بات سامنے آ سکتی ہے اس لیے ان سے منسلک رابطوں کو فی الفور ٹریس کر کے ادارے کے بنائے گئے قوانین کے مطابق پیپر خریدنے کر اس سے استفادہ کرنے والے مکروہ عناصرکو نہ صرف آئندہ کے لئے اس ادارے کے تحت کسی بھی امتحان کے لئے نہ صرف مکمل طور پر، بلیک لسٹ، کیا جائے بلکہ انہیں مزید سخت سزائیں بھی دی جائیں تاکہ آئندہ کوئی اپنے بے پناہ اثر و رسوخ، پیسے اور طاقت کا ایسا استعمال کرنے سے پہلے سو بار سوچے۔

12۔ یہ خبر خاصی افسوس ناک، شرمناک اور لرزا دینے والی کہی جا سکتی ہے کہ جب ایک ملزم گوہر علی شیر ولد فتح شیر کا نام لیکچرار تاریخ کے پیپر لیک اسکینڈل میں نام آ چکا تھا اور وہ گرفتار بھی ہے تو ادارے نے کیسے اس گرفتار شدہ ملزم گوہر کا نام انٹرویو کے لئے جاری اپنے شیڈول میں ڈال دیا؟ کہا جاتا ہے کہ اس نے پیپر آگے اپنے دوستوں کو بھی دیا تھا اور وہ بھی تحریری امتحان میں کامیاب ہو چکے ہیں، یہ کیسا مذاق ہے؟ کیا نوجوان نسل سے اس دیدہ دلیری سے زیادتی کی جائے گی؟

ویسے المیہ ہے کہ پڑھی لکھی جماعت جو تبدیلی، نیا پاکستان اور پھر ریاست مدینہ کی باتیں دن رات کرتی نہیں تھکتی ہے، اس کی طرف سے ابھی تک کوئی سنجیدہ نوٹس تک نہیں لیا گیا ہے؟ بلکہ افسوس کی بات ہے کہ اس کے وزرا کہہ رہے کہ، یہ ادارہ شہباز شریف نے بنایا تھا، اول تو یہ انگریز دور کا بنا ہوا ادارہ ہے اور بالفرض اگر شہباز شریف نے بنایا بھی تو کیا آپ کے دور میں اس ادارے میں ہونے والے سنگین جرائم بھی اب جیل میں بیٹھے شہباز شریف ہی کے کھاتے میں جائیں گے؟ اب یہ آپ کی ذمے داری نہیں بنتی ہے؟ کب تک آپ اپنی ذمہ داریوں سے بھاگتے رہیں گے؟

13۔ اب اس ادارے کی ساکھ کی بحالی اولین ترجیح ہونی چاہیے اور اس کے لئے کسی نیک نام اور سخت گیر بندے کو لانا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ ایک سویلین بندے کو بٹھا کر بھی حالات بدلے جا سکتے ہیں۔

14۔ آخری بات یہ کہ اس ادارے کے بارے اگر فی الفور کوئی سخت اور بڑا فیصلہ نہ لیا گیا تو پھر گند مزید پھیلے گا، تباہی ہو گی کہ اسی سے ملک چلانے والے اہم اور قابل افسر نکلتے ہیں۔ اگر حکومت اسی طرح لاتعلق رہی تو پھر کرپٹ، پیسے والے اور طاقتور لوگ اپنی نالائق، نااہل اور کند ذہن اولادوں کو ملک کی بیورو کریسی اور دیگر اداروں میں لا کر ملک کی مزید تباہی، بربادی، بدنامی اور رسوائی کا باعث بنیں گے اور غریب اور متوسط گھرانوں کے ذہین اور قابل فخر بچے بچیاں مایوس ہو کر یقیناً کسی غلط راہ پر گامزن ہو جائیں گے اور اس سے بڑا المیہ اور کوئی نہ ہو گا۔

جناب وزیراعظم! کیا آپ پڑھی لکھی نوجوان نسل کے لیڈر ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے ان، چودہ نکات، پر تھوڑا سا غور فرمانا پسند فرمائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).