چین کی دیہی ترقی اور زرعی جدت کاری


حالیہ عرصے میں اگر چین کی تیز رفتار ترقی کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ایک نمایاں پہلو دیہی علاقوں کی تعمیر و ترقی بھی ہے۔ چینی قیادت نے جہاں صنعت کاری، شہری آباد کاری کو جدید خطوط پر استوار کیا ہے وہاں دیہی علاقوں میں بھی جدت کو فروغ دیتے ہوئے نئے ترقیاتی نمونے اپنائے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین اگرچہ بدستور ایک ترقی پذیر ملک ہے مگر اس نے ملک سے غربت کا مکمل خاتمہ کر دیا ہے اور ایک اعتدال پسند جامع خوشحال معاشرے کی تعمیر کا سفر جاری ہے۔

چین نے اپنی دوراندیش قیادت اور مضبوط پالیسی سازی کی وجہ سے دیہی علاقوں کی ترقی کو ہمیشہ نمایاں اہمیت دی ہے اور وبائی صورتحال میں بھی پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس وبا نے چینی قوم کو ”بحران“ کو ایک ”موقع“ میں بدلنے کا راستہ دکھلایا ہے۔ چین نے اپنے مقرر اہداف کی روشنی میں نئے تقاضوں اور نئی صورتحال کے عین مطابق غربت کے خاتمے کی منزل کو پا لیا ہے۔ اس وقت ملک کی تمام 832 غریب کاؤنٹیاں غربت سے مکمل طور پر نجات پا چکی ہیں۔

چینی صدر شی جن پنگ کی قیادت میں گزشتہ 8 سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد ، چین نے اقوام متحدہ کے 2030 کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں شامل انسداد غربت کے ہدف کو دس برس قبل ہی مکمل کرتے ہوئے ایک غیر معمولی کارنامہ سر انجام دیا ہے اور تخفیف غربت میں پائیدار ترقی کی ہے۔ مجموعی اعتبار سے چین نے اب تک 80 کروڑ سے زائد لوگوں کو غربت سے نجات دلائی ہے۔ غربت زدہ علاقوں میں کرشماتی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور غربت سے نمٹنے میں تاریخی کارنامے سر انجام پائے ہیں، یہ مسئلہ جس نے چینی قوم کو دہائیوں سے پریشان کیا ہوا تھا بالآخر اب حل ہو چکا ہے۔

اس فتح نے چین کو ایک سوشلسٹ جدید ملک کی تعمیر کے نئے سفر پر گامزن کرنے کے لئے ٹھوس بنیاد فراہم کی ہے۔ چین کا عالمی انسداد غربت کی کوششوں میں تناسب 70 فیصد سے زائد ہے جو اسے دیگر دنیا سے ممتاز کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے نزدیک چین کے سماجی اور معاشی اقدامات بہت سارے ممالک کے لئے قابل تقلید ہیں، بالخصوص ترقی پذیر اور غربت سے دوچار ممالک چین کے انسداد غربت کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

چین کی کوشش ہے کہ سال 2021 کے دوران بھی دیہی علاقوں میں ترقیاتی اصلاحات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے انسداد غربت کی کوششوں کو مستحکم کیا جائے تاکہ غربت سے باہر نکلنے والے افراد مستقل بنیادوں پر خوشحالی کی راہ پر گامزن رہ سکیں۔ اس ضمن میں دیہی املاکی حقوق کے نظام میں اصلاحات کو گہرا کرنے، دیہی آبادکاری کے نظام میں اصلاحات کو آگے بڑھانے، زرعی جدت کاری، شیئر ہولڈنگ کوآپریٹو سسٹم کی اصلاح کو فروغ دینے کے لئے دیہی اصلاحات کا نیا دور نافذ کیا جا رہا ہے۔

چین ایک طویل عرصے سے زرعی تہذیب و تمدن کا حامل ملک چلا آ رہا ہے جس میں کاشتکاروں کی فلاح و بہبود اور زراعت کے تحفظ کو ہمیشہ اہمیت دی گئی ہے۔ کسانوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے گزرتے وقت کے ساتھ مربوط اور جدید پالیسیاں ترتیب دی گئی ہیں۔

زرعی ترقی کے لیے قابل کاشت رقبے میں اضافہ، روایتی زرعی اصولوں کو ترک کرتے ہوئے جدید مشینری کا استعمال، زرعی اجناس کی پیداوار میں مسلسل اضافہ، زرعی مصنوعات کی فروخت کے لیے ای کامرس سمیت نقل و حمل کی سہولیات کی فراہمی، زرعی تعلیم کا فروغ اور کاشتکاروں کی تربیت جیسے امور کی بدولت چین میں گزشتہ سترہ برسوں سے شاندار فصلیں جسے ہم ”بمپر کراپس“ کہہ سکتے ہیں، حاصل ہو رہی ہیں۔

چین کی اناج کی پیداوار میں خود کفالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برس چین میں اناج کی مجموعی پیداوار 670 ارب کلو گرام رہی ہے جبکہ گزشتہ مسلسل چھ برسوں سے اناج کی مجموعی سالانہ پیداوار 650 ارب کلو گرام سے زائد رہی ہے۔

چین میں دیہی اصلاحات اور ترقی کی اہمیت اس باعث بھی زیادہ ہے کہ چین اپنی اقتصادی سماجی ترقی کے 14 ویں پانچ سالہ منصوبے کی جانب گامزن ہے۔ ایک ہمہ جہت طریقے سے سوشلسٹ جدید ملک کی تعمیر کا نیا سفر، نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی پی سی) کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ زراعت، دیہی علاقوں اور کسانوں سے متعلق مسائل کو حل کرنا سی پی سی کی اولین ترجیح ہے۔ اسی باعث ملک میں کسانوں کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، دیہی معاشیات میں نمایاں بہتری آئی ہے اور دیہی علاقوں نے ترقی کی بدولت بالکل نئی شکل اختیار کرلی ہے۔

زراعت، دیہی علاقوں اور کسانوں سے متعلق امور میں قابل ذکر کامیابیوں کے بعد چین کی کوشش ہے کہ شہری اور دیہی علاقوں کی یکساں ترقی کو آگے بڑھایا جائے۔ اس ضمن میں چین کی کوشش ہے کہ فصلوں کی معیاری پیداوار حاصل کی جائے، زرعی ٹیکنالوجیز میں خود انحصاری کی کوشش کی جائے، کاشتکاروں کو زیادہ اناج اگانے کی ترغیب دینے سمیت کاشتکاروں کے لیے سبسڈی میں اضافہ کیا جائے۔

چین کے اقدامات یقیناً پاکستان سمیت دیگر تمام ایسے ممالک کے لیے قابل تقلید ہیں جن کی معیشت کا بڑی حد تک دار و مدار زراعت پر ہے۔ جدید زراعت پائیدار معاشی ترقی کی ایک ایسی ٹھوس بنیاد ہے جس کی مدد سے ایک مستحکم سماج کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).