افضل چن، گل واقعی ودھ گئی اے؟


دھونس، دھمکی، دھماکوں، دھاندلی، ٹھمکوں اور ناچ گانے سے لائی جانے والی تبدیلی آج کل خود ایک بڑے سونامی کی زد میں ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد تبدیلی والی حکومت نہایت حیران و پریشان اور اپنے سرپرستوں سے نالاں و شکوہ کناں دکھائی دیتی ہے۔ پریس کانفرنس کے بعد کچھ معاملات اور مسائل پے در پے تبدیلی سرکار کے گلے کا ہار بن رہے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کے خلاف ریلوے انجن کی خریداری کے حوالے سے نیب نے انکوائری بند کر دی ہے۔

براڈ شیٹ کا کٹا الگ سے کھل گیا ہے۔ حکومت، نیب اور احتساب کی ٹیم نے براڈ شیٹ کے سربراہ کے متنازعہ انٹرویو اور برطانوی عدالت کے فیصلے کے ذریعے نواز شریف کو پھنسانے کی کوشش کی تھی مگر الٹا بدنامی اپنی ہو رہی ہے۔ اس میں جو نام سامنے آ رہے ہیں، وہ اتنے بے پردہ ہو گئے ہیں کہ اب ان پر پردہ نشین ہونے کی پھبتی بھی نہیں کسی جا سکتی۔

ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم کے دوست اور محسن جناب نعیم بخاری کو چئیرمین پی ٹی وی میں کام سے روک دیا گیا ہے۔ فیصل واوٴڈا کے نا اہلی کیس میں میں بھی ججز نے سخت ریمارکس دیے ہیں اور اتنے ماہ سے جواب جمع نہ کروانے پر واوٴڈا کی کی سرزنش کی ہے۔ جونہی فیصل واوٴڈا جواب جمع کروائیں گے، ان کی نا اہلی پکی ہے کیونکہ دوہری شہریت کے حوالے سے انہوں نے جھوٹ بول کر الیکشن لڑے ہیں۔ اس کے علاوہ فارن فنڈنگ کیس کی تلوار ہمہ وقت حکمران جماعت اور وزیراعظم کے سر پر لٹک رہی ہے۔

عمران خان جو خود کبھی شہباز شریف کی پنجاب کی حکومت کو سٹے آرڈر پر چلنے والی حکومت کے طعنے دیا کرتے تھے خود چھ سال سے اس کیس میں سٹے پر چل رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کی تحریک کے شدید دباوٴ اور اسٹیبلشمنٹ کے حکومت سے ہاتھ اٹھانے کے بعد امید ہے کہ یہ کیس بھی جلد ہی کھل جائے گا۔

خواجہ آصف کی درخواست ضمانت پر بھی عدالت نے فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے۔ امکان ہے کہ یہ فیصلہ بھی خواجہ صاحب کے حق میں آ جائے گا کیونکہ اتنے بودے اور بے جان کیس میں انہیں ”کسی“ کی خواہش پر زیادہ دیر اندر نہیں رکھا جا سکتا۔ کل تک جو لوگ، نواز فیملی اور دوسرے نون لیگ کے ارکان کے خلاف آنے والے دھڑا دھڑ فیصلوں پر جشن طرب منایا کرتے تھے آج ان خود ان کی صفوں میں سوگ کی کیفیت ہے۔

سیاسی میدان میں حالات اور بھی دگر گوں ہیں۔ دو روز قبل کابینہ کے اجلاس میں ریاست مدینہ جدید کے ”امیر الموٴمنین“ نے بہت ناک بھوں چڑھائی۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں دھمکی دی کہ جو وزرا حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں کو درست نہیں سمجھتے اور ان کا دفاع نہیں کرتے وہ فوراً مستعفی ہو جائیں۔ اس دھمکی کے جواب میں استعفے کا پہلا پتھر جناب افضل چن کی طرف سے آیا۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں یہ کہتے ہوئے وزیراعظم کی ترجمانی اور معاونت سے استعفی دیا کہ عمران خان آمر مطلق بن چکے ہیں اور معمولی اختلاف رائے بھی برداشت نہیں کرتے۔

تمام وزرا کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ وزیراعظم کے ہر سیاہ و سفید کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ اس کے علاوہ کوئٹہ سانحے پر وزیراعظم کے وہاں تاخیر سے جانے پر بھی چن صاحب کو تحفظات تھے۔ چن صاحب کی آخری ٹویٹ بھی بہت دلچسپ، دو ٹوک اور سانحۂ کربلا کے حوالے سے بھرپور علامتی انداز لیے ہوئے ہے۔ یہ ٹویٹ اس مشہور شعر سے مستعار ہے:

میرا حسین ابھی کربلا نہیں پہنچا
میں حُر ہوں اور ابھی لشکر یزید میں ہوں

چن صاحب کو تو معلوم نہیں کہ قافلۂ حسینی کب ملتا ہے اور محض تین ہی سال میں ان کے ”بت گروں“ کے تراشیدہ ”صنم“ سے دلبرداشتہ ہونے کی کیا وجہ ہے، مگر لگتا یوں ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد ایک پیج کی دعویدار حکومت کے ہاتھ سے بہت سے معاملات نکلتے جا رہے ہیں۔ سنا ہے کچھ ہزارہ وال پی ٹی آئی ارکان جناب امیر مقام سے بھی رابطے میں ہیں۔ وہ بھی حر بن کر اپنے حسین کی تلاش میں سر گرداں ہیں۔

اگر اسٹیبلشمنٹ نے واقعی سیاسی میدان سیاست دانوں کی معرکہ آرائی کے لیے چھوڑ دیا ہے اور خود کو آئینی کردار تک محدود رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اڑھائی سال قبل آنے والی تبدیلی کی مدت بہت کم رہ گئی ہے۔ بقول افضل چن مختاریا! گل واقعی ودھ گئی اے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).