ٹرمپ کا دوسرا مواخذہ: جمہوریت پر حملے کا جواب ہے


امریکی ایوان نمائیندگان نے گزشتہ شب دوسری مرتبہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی قرار داد واضح اکثریت سے منظور کرلی۔ اس طرح وہ امریکی تاریخ کے پہلے ایسے صدر بن گئے ہیں جنہیں دوسری مرتبہ مواخذہ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب اس معاملہ پر سینیٹ میں مقدمہ چلے گا جہاں انہیں عہدے سے برطرف کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ صدر کےمواخذے پر غور کے دوران ملک کے چیف جسٹس سینیٹ اجلاس کی صدارت کرتے ہیں اور اسے جیوری کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔

امریکی ری پبلیکن پارٹی کی طرف سے یہ مؤقف اختیار کیا جارہا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ ٹرمپ کا عہدہ صدارت ختم ہونے میں ایک ہفتہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، اس مواخذہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ امریکی کانگرس کے ایوان نمائیندگان میں اقلیتی لیڈر کیون میکارتھی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے تسلیم کیا کہ ٹرمپ سے غلطیاں ہوئی ہیں اور وہ بروقت ایکشن لینے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے اس دعوے نے بھی مشکلات میں اضافہ کیا کہ جو بائیڈن صدارتی انتخاب نہیں جیتے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ مواخذہ سے قوم میں تقسیم بڑھے گی حالانکہ اس وقت زخم بھرنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف کانگرس کی اکثریت کا کہنا ہے کہ اس مواخذہ سے یہ اصول واضح کیا جائے گا کہ امریکہ ایک جمہوری نظام کے تحت کام کررہا ہے اور اسے چیلنج کرنے اور خطرے میں ڈالنے والا کوئی بھی شخص ناقابل معافی ہے خواہ وہ ملکی صدارت کے عہدے پر ہی کیوں فائز نہ ہو۔

ہاؤس اسپیکر نینسی پلوسی نے مواخذہ کی قرار داد پر دستخظ کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدر نے مسلح باغیوں کو ملک کے خلاف اکسایا۔ اسے عہدے سے برطرف کرنا اہم ہے۔ وہ ملک و قوم کے لئے مسلسل خطرہ ہیں۔ انہوں نے نومبر کا انتخاب ہارنے کے بعد سے نتائج کے بارے میں تسلسل سے جھوٹ بولا ہے۔ اپنےفائدے کے لئے جمہوریت کے بارے میں شبہات پیدا کئے اور غیرآئینی طور پر اہلکاروں کو نتائج تبدیل کرنے پر اکسایا۔اور چھ جنوری کو ہم سب نے اس آگ کا مشاہدہ کیا جو ٹرمپ نے بھڑکائی تھی۔ صدر کا مواخذہ ہونا چاہئے اور سینیٹ کو انہیں قصور وار قرار دینا چاہئے۔ اس صدر کا مواخذہ کرکے اور اسے ان جرائم کا ذمہ دار ٹھہرا کر عوام کو آئینی تحفظ کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ اس طرح کسی بھی خطرناک شخص کوہمارے اتحاد اور عزیز ترین روایات پر حملہ آور ہونے سے روکا جاسکے گا۔

صدر ٹرمپ کے خلاف منظور کی گئی مواخذے کی قرار داد اب سینیٹ کو بھیجی جائے گی جہاں ان کا ٹرائل ہوگا۔ گو کہ سینیٹ میں اب ڈیموکریٹک پارٹی کو اکثریت حاصل ہوگئی ہے لیکن کسی صدر کو قصور وار ٹھہرانے کے لئے دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔ ایک تو ابھی تک اس بارے میں شبہات موجود ہیں کہ سینیٹ میں کارروائی کے دوران ٹرمپ کے مواخذے کو یہ اکثریت حاصل ہوسکے گی۔ کیوں کہ ڈیموکریٹک پارٹی کو 20 جنوری سے ایوان میں معمولی اکثریت تو حاصل ہوجائے گی لیکن دو تہائی اکثریت کے لئے اسے پھر بھی ری پبلیکن پارٹی کے 16 سینیٹرز کی حمایت ضروری ہوگی جو موجودہ حالات میں ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ البتہ ٹرمپ کی زوال پذیر سیاسی حیثیت اور ان کے سبکدوش ہونے کے بعد صورت حال تبدیل بھی ہوسکتی ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سینیٹ میں مواخذے کی کارروائی کے دوران اب ری پبلیکن پارٹی ویسی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی جو گزشتہ سال صدر ٹرمپ کے مواخذے پر غور کرتے ہوئے حائل کی گئی تھیں۔ ری پبلیکن اکثریت کی وجہ سے سینیٹ نے متعدد گواہ اور شواہد پیش کرنے کی اجازت نہیں دی تھی جس کی وجہ سے مواخذے کا مقدمہ کمزور ہو گیا تھا۔ اس وقت ٹرمپ پر الزام تھا کہ انہوں نے یوکرائین کے صدر پرجوبائیڈن کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کے لئے دباؤ ڈالا تھا۔ اس گفتگو میں انہوں نے مبینہ طور پر یوکرائینی صدر کو بات نہ ماننے کی صورت میں امریکی امداد بند کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔

صدر کے مواخذے کے خلاف ایک دلیل یہ بھی دی جارہی ہے کہ جب ان کا دور صدارت اختتام کو پہنچ رہا ہے تو ایسے وقت میں مواخذے کی قرار داد ایون نمائیندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کے غصہ کے اظہار سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اب ملک کو آگے بڑھنے اور نو منتخب صدر جو بائیڈن کو کام کرنے کا موقع دینے کی ضرورت ہے۔ تاہم اگر امریکہ کی سیاسی صورت حال اور ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کا وسیع تر حالات اور 6 جنوری کو رونما ہونے والے واقعات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اگر امریکی جمہوری نمائیندے ایسے غیر ذمہ دار اور جمہوریت دشمن شخص کے خلاف کسی قسم کے اقدام سے قاصر رہتے ہیں تو یہ امریکہ میں جمہوری روایت اور پر امن انتقال اقتدار کے لئے بری روایت ہوگی۔

امریکہ کو دنیا بھر میں سپر پاور اور آزادی کی علامت کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ امریکہ میں رونما ہونے والے واقعات کا براہ راست یا بالواسطہ طور سے دنیا بھر میں اثر مرتب ہوتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے جمہوریت دشمن اور اشتعال انگیز اقدامات کے خلاف مواخذے کی دوسری قرار داد نہ صرف امریکی جمہوری روایت کے تحفظ کی کوشش سمجھی جائے گی بلکہ یہ دنیا کے ان تمام آمروں کو بھی پیغام ہوگا کہ جمہوری روایت اور بنیادی آزادیوں کے خلاف امریکہ بدستور ایک اہم رکاوٹ بنے گا۔ اس طرح ٹرمپ کے چار سالہ دور حکومت میں عالمی جمہوری روایت کے خلاف مقبولیت پسند لیڈروں کی قیادت میں متعدد ممالک میں آمرانہ طرز حکومت نافذ کرنے اور آزادیوں کو محدود کرنے کی کارروائیوں کو چیلنج کرنے کا اعلان سامنے آئے گا۔ مواخذے کی یہ قرار داد نو منتخب صدر جو بائیڈن پر بھی یہ واضح کرے گی کہ وہ اقوام عالم میں جمہوریت کے نمائیندہ لیڈر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور انہیں مختلف ممالک میں آزادی رائے اور اقلیتوں کی حفاظت کے لئے دو ٹوک مؤقف اختیار کرنا چاہئے تاکہ امریکہ کو محض آمریتوں اور فاشسٹ لیڈروں کے پشت پناہ کے طور پر یاد نہ رکھا جائے۔

امریکہ میں ٹرمپ کے مواخذہ کے حوالے سے ہونے والی بحث دنیا بھر میں جمہوری نظام کے نقائص یا ناکامی کے حوالے سے ہونے والے مباحث میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔ کورونا وائرس میں چین یا دیگر آمرانہ نظام والی حکومتوں کی بظاہر کامیابی اور یورپ اور امریکہ میں اس کی تباہ کاری کے بعد یہ بحث سامنے آتی رہی ہے کہ کسی قدرتی آفت کا سامنا کرنے کے لئے جس سخت گیر انتظام کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ مغربی طرز کی جمہوریت پیش کرنےمیں ناکام رہی ہے کیوں کہ اس میں قبول عام حاصل کرنے والے فیصلے ہی کئے جاسکتے ہیں۔ امریکہ میں صدر ٹرمپ نے اپنے احمقانہ اور عاقبت نا اندیشانہ فیصلوں کی وجہ سے کورونا کی روک تھام کے لئے بروقت اقدامات نہیں کئے تھے۔ اسی طرح یورپ میں کورونا وائرس ایشیائی ملکوں کے مقابلے میں زیادہ شدت سے پھیلا اور اس سے ہونے والا جانی و معاشی نقصان بھی زیادہ تھا۔ بعض عناصر کی طرف سے اس صورت حال کو جمہوریت کی ناکامی قرار دے کر آمرانہ اور انسان دشمن حکومتوں کی ’ضرورت‘ پر گفتگو دیکھنے میں آئی ہے۔

ان مباحث میں اس بنیادی نکتہ کو فراموش کردیاجاتا ہے کہ جمہوریت شخصی آزادی کی ضمانت دیتی ہے اور عام لوگوں کو فیصلوں میں شریک کرتی ہے۔ اس کے برعکس کسی سخت گیر آمرانہ نظام میں کسی بھی غلط یا درست فیصلہ پر رائے دینا جرم تصور کیاجاتا ہے۔ بظاہر چین نے کورونا وائرس پر کامیابی سے قابو پایا ہے لیکن وہاں سے اس وبا سے متاثرین کی تعداد اور ان کی دیکھ بھال کے حوالے سے مسلسل شبہات سامنے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے طبی ماہرین یا صحافیوں کو قید کرکے ہر اختلافی آواز کو دبانے اور معلومات عام کرنے کا راستہ بھی روکا گیا۔ کورونا وبا پر قابو پانے کے بعد مستقبل قریب میں اس بات کا جائزہ لیاجائے گا کہ اگر چین میں مواصلت اور آزادی اظہار کے جمہوری حقوق فراہم ہوتے تو شاید کورونا وبا کے بارے میں درست معلومات وقت سے بہت پہلے ہی سامنے آجاتیں اور اسے ایک شہر یا علاقے تک ہی محدود کرنے میں کامیابی حاصل کرلی جاتی۔ چین کے گھٹن زدہ ماحول میں یہ ممکن نہیں ہوسکا۔

کسی ایسے نظام کو انسانوں کی بہبود کے لئے جمہوریت کا متبادل قرار نہیں دیا جاسکتا جہاں اختلاف رائے یا زمینی حقائق پر بات کرنے والوں کی زبان بندی کو ہی تمام مسائل کا حل سمجھا جائے۔ اور پھر ان ظالمانہ ہتھکنڈوں کو کسی نظام کی کامیابی کے طور پر پیش کیا جائے۔ جمہوریت میں مرضی کے مطابق رائے، عقیدہ اور طرز زندگی اختیار کرنے اور عوام کی پسند سے حکومت کے انتخاب کی آزادی فراہم ہوتی ہے۔ ان آزادیوں کو ختم کرنے والا کوئی نظام انسان دوست نہیں ہوسکتا اور نہ ہی مستقل سماجی اطمینان کی بنیاد بن سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے خود کو عقلمند اور محب وطن ثابت کرتے ہوئے ، امریکی عوام کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ درحقیقت وہی امریکہ کو عظیم بنا سکتے ہیں اور صرف انہی کا ساتھ دینے والے ’حقیقی محب وطن‘ ہیں۔ یہ رویہ اس جمہوری روایت ، تعصبات کو مسترد کرنے کے اصول اور شخصی آزادی کے تصور سے متصادم تھا جس پر امریکی جمہوری آئین کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ مواخذہ کی کارروائی کے ذریعے انہی اصولوں کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

صدر ٹرمپ کے رویہ اور طرز عمل سے نسل پرست انتہا پسند گروہوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور یہ تصور عام کرنے کی کوشش کی گئی کہ ’حب الوطنی‘ کا نعرہ لگا کر کسی بھی قانون کو توڑا جاسکتا ہے۔ 6 جنوری کو واشنگٹن میں حامیوں کو جمع کرکے انہیں طاقت کے زور پر اپنی بات منوانے پر قائل کرنے کا پیغام ،جمہوریت اور قومی استحکام کی روح سے متصادم تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر ایک ایسے وقت دھاوا بولا جب وہاں جو بائیڈن کی کامیابی کی توثیق کے لئے اجلاس منعقد ہورہا تھا۔ اسے جمہوریت کے خلاف اعلان جنگ کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ کانگرس میں صدر ٹرمپ کے مواخذے کی قرار داد اس اعلان جنگ کو مسترد کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali