فیس بک کی رنگا رنگ کائنات


یہ فیس بک ہے صاحب یعنی چہرہ کتاب، یہاں سب کچھ پڑھا جا سکتا ہے سوائے چہرے کے۔ قریبی مراسم والے شخص کا چہرہ پڑھنا مشکل ہے یہاں تو فاصلے اور دوری سے چہرے کی قرأت کرنی ہے۔ یہاں ایک انوکھی، چمکیلی اور نرالی دنیا آباد ہے۔ اس دنیا میں شامل ہونے کے لیے اکاؤنٹ کھولنا پڑتا ہے۔ آپ یہاں اکاؤنٹ بناتے وقت جو نام لکھیں گے وہ یہاں آپ کی پہچان بن جائے گی۔ اس بابت ہمیں فیس بک کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس نے کم سے کم یہ سہولیت اور موقع فراہم کیا کہ ہم بڑے ہو کر اپنے لیے کوئی اچھا سا نام چن سکتے ہیں۔

جو اشخاص اپنے پرانے نام سے تنگ ہیں وہ یہاں نیا نام رکھ کر اس تنگی کو دور کر سکتے ہیں۔ یہاں مرد ہو کر عورت کا نام اپنایا جا سکتا ہے اور عورت ہو کر مردانہ نام رکھا جا سکتا ہے۔ یہاں وسیم اور سرفراز نام کے پیچھے تبسم اور روبینہ بھی ہو سکتی ہے۔ حنا اور گل پری کے پیچھے رمضان چچا اور جان خان بھی ہو سکتے ہیں۔ یہاں سب کو عزت دینی پڑتی ہے۔ کسی کو مخاطب کرنا ہو تو سر، محترم، جناب، عزیز من، جانی لکھنا پڑتا ہے۔

یہاں ایک دوسرے کا شکریہ بڑے معتبر انداز اور مبالغے کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ یہاں یار یاری نبھاتے ہیں اور دوست دوستی۔ یہاں بھانت بھانت کے لوگ اور قسم قسم کی مخلوق ہیں۔ یہاں سب سے زیادہ تعداد شاعروں اور بگڑے دل جلے عاشقوں کی ہیں۔ یہاں غالب بھی ہے فراز بھی، یہاں کیٹس بھی ہے شکسپیئر بھی، اردو زبان ہو یا انگریزی یہاں دونوں زبانوں میں شاعر و ادیب کی تخلیقات کم و بیش موجود ہیں۔ یہاں مختلف گروپس ہیں۔ انجمنیں ہیں اور ان انجمنوں کے صدور اور ممبران موجود ہیں۔

یہاں لکھاری، قلم کار، اداکار سب موجود ہیں۔ یہاں دوست بھی ہیں اور دشمن بھی، یہاں لائیک کرنے والے عزیز دوست بھی ہیں اور خاموش رہ کر حسد اور بغض سے جلنے والے دشمن بھی۔ یہاں آپ اپنی تخلیقات، تصاویر، آرا، ادبی کارنامے اور ذاتی زندگی غرض کسی بھی موضوع پر پوسٹ شیئر کر سکتے ہیں۔ اس پوسٹ پہ یہاں کمنٹ ہوتا ہے ، لائیک کرنا ہوتا ہے اور کبھی کوئی قریبی دوست یا عزیز آپ کی پوسٹ شیئر بھی کر دیتا ہے۔ یہاں آپ دوستوں کو ٹیگ کر سکتے ہیں اور ان کو مینشن کر کے ٹینشن دے سکتے ہیں۔

یہاں آپ اپنی خوشی کا اظہار کر سکتے ہیں اور غمی پر دوستوں کے ساتھ سوگ منا سکتے ہیں۔ یہاں تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں کمنٹ ہوتے ہیں اور کبھی کبھار بدتمیزی اور گالی گلوچ کی نوبت بھی آن پڑتی ہے۔ یہاں کسی کو آپ کمنٹ کے دروازے سے کچھ سنانے کی جسارت کریں گے وہ مسیجنر کی کھڑکی سے گالیاں دینے پہچ جائے گا۔ یہاں احتیاط برتنی پڑتی ہے اور بے احتیاطی کرنے والے کو اس کی بے احتیاطی پر خوب لعن طعن کی جاتی ہے۔ یہاں دنیا بھر کے لوگوں سے آپ رابطے میں رہ سکتے ہیں۔

مختلف خیال اور مختلف آرا رکھنے والے افراد سے آسانی کے ساتھ تبادلۂ خیال کر سکتے ہیں۔ جس کو ہم خوابوں خیالوں میں بھی دیکھ نہیں سکتے، یہاں ہم اس کی ہر بات سے واقف رہ سکتے ہیں۔ یہاں ہر پیشے کے افراد ہیں۔ اسکالر سے لے کر ان پڑھ تک، پروفیسر سے لے کر چپراسی تک، ہر ایک اپنی اپنی سوچ اور فکر کا پرچار کر سکتا ہے۔

یہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے گاؤں سے کبھی باہر نہیں گئے لیکن ان کے باتوں، پوسٹس اور سٹیس سے لگتا ہے کہ وہ ہاروڈ سے پڑھ کر آئے ہیں۔ یہاں بزرگ، بچے جوان، مرد، عورت، بوڑھے، ضعیف، طاقت ور، کمزور ہر ایک کا اکاؤنٹ موجود ہے۔ یہاں رشتہ داروں کی پوری کھیپ ہے۔ آپی سے پاپا تک، ماما سے مامی تک، چچا چاچی، بہن بھائی، بیٹا بیٹی، غرض سارے رشتہ دار ایک چھوٹے سے موبائل کی ادنی سی اپلکیشن میں موجود ہیں۔

اگر کسی کا کوئی عزیز یا رشتہ دار رحلت فرماتا ہے تو آہ زاری اور نوحہ خوانی کی نشست جناب فیس بک پر آراستہ ہوتی ہے۔ یہاں ہی تعزیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دعا مغفرت کے علاوہ دوست احباب مرنے والے کے لیے جنت میں ایک محل تعمیر کر دیتے ہیں۔ صرف رحلت کی خبر پوسٹ کرنے کی دیر ہوتی ہے۔ کوئی ناکام ہو جائے رونے دھونے کی نشست کا اہتمام فیس بک پر کیا جاتا ہے۔ ناکامی کی ایک ایک وجہ کو کھنگالا جاتا ہے۔ مشوروں کا انبار لگ جاتا ہے۔

کامیابی کے طریقے اور محنت کی باتیں دہرائی جاتی ہیں۔ گویا سارے گیان اور کامیابی کی سیڑھیوں کو ایک ایک کر کے یہاں گنا جاتا ہے۔ ان سیڑھیوں پہ کیسے چڑھتے ہیں اور کس انداز سے ان پہ قدم جما کر رہا جا سکتا ہے ان ساری باتوں کو واشگاف الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ ناکامی کے وجوہات بیان کرنے کے بعد دلاسہ اور حوصلہ دیا جاتا ہے۔ غرض یہاں ہر ایک اپنی بساط کے عین مطابق مفت مشورے دیتا ہے۔

اب اگر کوئی کامیاب ہو جائے تو جشن کا انتظام بھی فیس بک پر ہی کیا جاتا ہے، یہیں ہی مبارک باد دی جاتی ہے اور اسی فیس بک شریف پر کامیاب ہونے والے کے چرچے کیے جاتے ہیں۔ تعریفوں کے ساتھ ساتھ اس فرد کامیاب سے رشتے بنائے جاتے ہیں۔ نسبت جوڑی جاتی ہے اور یہاں تک لکھ دیا جاتا ہے کہ اس نے کامیاب ہو کر ہمارے علاقے کا نام روشن کیا۔ بعض دفعہ ملک کا نام روشن کرنے والا جتا کر اس کی تعریفیں کی جاتی ہیں۔

فیس بک پر یاری دوستی کے علاوہ رشتے بھی بنائے جاتے ہیں۔ ہائے ہیلو سے بات چل نکلتی ہے اور اس کا اختتام ازدواجی بندھن پر ہوتا ہے۔ یہاں شادیاں بھی ہوتی ہیں اور بعض دفعہ دل بھی توڑے جاتے ہیں۔ ٹائم پاس کرنا، وقت ضائع کرنا ہو، مشہور ہونا ہو یا بدنام، ، چھیڑچھاڑ کرنی ہو، تفریح ہو یا اور کوئی مشغلہ اختیار کرنا ہو یہاں سب کچھ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ہر مرض کی دوا موجود ہے۔ یہی فیس بک ہے کہ اگر اس کا چسکا لگ جائے تو راتوں کی نیند حرام کر دیتا ہے اور اسی کی بدولت وقت کٹنے کا پتا نہیں چلتا۔ میاں فیس بک ہی ہے جو اپنے اندر علم کا سمندر رکھتا ہے اور فیس بک ہی ہے جو جہالت اور جھوٹ پھیلاتا ہے۔

میاں فیس بک پہ ہر لڑکا یہی رونا روتا ہے کہ ’میں اکیلا ہوں‘ اور کبھی کبھار لڑکی والی آئی ڈی سے بھی یہی اشتہار مشتہر کیا جاتا ہے۔ لڑکی ہمدردیاں سمیٹتی ہیں اور ہر لڑکا اس کا ہاتھ تھامنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے حالانکہ لڑکی والی آئی ڈی سے پوسٹ کرنے والا خود تین کا ہاتھ تھام کر چوتھی کے چکر میں ہوتا ہے۔ لڑکے کو گالیوں کی صورت میں دعائیں دی جاتی ہیں۔ اس کے سارے رشتہ داروں کو بھی لپیٹ لیا جاتا ہے۔ اس کی تربیت اور خاندان پر انگلی اٹھائی جاتی ہے۔ جتنا رسوا اس کو کیا جاتا ہے شاید ہی کسی بڑے مجرم کو کیا جاتا ہو گا۔ گویا حقیقی زندگی میں جس طرح ایک صنف کے طرف دار اور دوسری کے مخالفین ہیں فیس بک پہ بھی ایسے ہی طرف داروں اور مخالفین کی جماعتیں ہیں۔

فیس بک چلا کر کچھ لوگ وقت کو ضائع کرتے ہیں کچھ اس سے فائدہ لینے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ یہاں دوستیاں گانٹھتے ہیں کچھ بدنام ہوتے ہیں اور کچھ نیک نام بن کر ابھر آتے ہیں۔ فیس بک کی دنیا ہے ہی انوکھی، یہاں ہر طرح کی تفریح میسر ہیں۔ یہاں آپ ویڈیو دیکھ بھی سکتے ہیں اور اپنا ویڈیو بنا کر دوستوں سے اشتراک بھی کر سکتے ہیں۔

فیس بک ہی ہمارا اوڑھنا بچھونا بن گیا ہے۔ اس نے ہمیں خاندان اور اپنے عزیزوں سے دور کر دیا لیکن ہمارے لیے ناواقف دوستوں کی بہتات میسر رکھی جن کو ہم نہ جانتے ہوئے بھی جان لینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اکثر ناکام ہی رہتے ہیں۔ یہ ہمارا محبوب، بھائی اور دوست بن چکی ہے۔ جتنا وقت ہم اس کو دے رہے ہیں اگر اتنا وقت قریبی رشتوں کو دیتے تو یقیناً وہ رشتے مضبوط تر ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).