جب گھڑے چکنے ہو جائیں


کسی نہ کسی خاندان میں بد قسمتی سے ایسے افراد بھی ضرور پیدا ہو جاتے ہیں جو اپنی نا اہلیوں، کم عقلیوں اور نادانیوں کی وجہ سے اپنے لئے تو بدنامی و رسوائی کا سبب بنتے ہی ہیں، خاندان اور پوری برادری کو بھی کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہنے دیتے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت سے قبل جتنی بھی حکومتیں آئیں وہ سب کی سب کون سی موتیوں جڑی تھیں لیکن موجودہ حکومت کی مثال تو کسی قبرستان کے اس گورکن کی سی ہے جس کا باپ ہر نئے دفن ہونے والے مردے کی قبر میں سوراخ کر کے ایک ہک نما سریے کی مدد سے اس کا کفن کھینچ لیا کرتا تھا جس پر لواحقین کو شدید دکھ اور صدمہ پہنچتا تھا۔

مرنے سے قبل گورکن نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں اپنی اس خبیث حرکت کی وجہ سے بہت بدنام ہوں۔ میں ڈر رہا ہوں کہ کہیں مرنے کے بعد دنیا مجھے بد دعائیں نہ دے تو بیٹے نے اطمینان دلایا کہ ابا جان آپ فکر نہ کریں، میں ایسے کام کروں گا کہ لوگ آپ کی کفن چوری کو بھول کر آپ کے حق میں دعائیں کیا کریں گے۔ بیٹے کی بات سن کر باپ کی مشکل آسان ہوئی اور اس نے سکون کے ساتھ موت قبول کر لی۔

پھر ہوا یوں کہ باپ تو قبر میں سوراخ کر کے صرف کفن ہی چوری کیا کرتا تھا، بیٹا نہ صرف کفن چوری کرتا تھا بلکہ قبر توڑ کر میت کی بے حرمتی بھی کرنے لگا۔ یہ صورت حال دیکھ کر لوگ اس کے باپ کی کفن چوری کو بھول کر باپ کو دعائیں دینے لگے کہ وہ کم از کم قبر اور میت کی بے حرمتی تو نہیں کرتا تھا۔

موجودہ حکومت سے پہلے والے تو اپنی کرپشن کی وجہ سے پوری دنیا میں اپنے نام کی لٹیا ہی ڈبوتے نظر آئے لیکن موجودہ حکومت نے تو اپنی نا اہلیوں اور بد انتظامیوں کی وجہ سے ملک کی عزت و آبرو کو ہی خطرے میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ ایک کے بعد ایک نا اہلی کا ایسا سلسلہ چل نکلا ہے کہ کسی مقام پر بھی رکنے کا نام لیتا نظر نہیں آ رہا۔

حکومت کو اپوزیشن سے یہ شکایت ہے کہ وہ اس کے لئے وجہ آزار بنی ہوئی ہے اور امن و سکون کے ساتھ امور حکومت چلانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے اس کی راہیں مسدود سے مسدود تر کرتی چلی جا رہی ہے لیکن سنجیدگی سے غور کیا جائے تو موجودہ حکومت کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اگر اس حکومت کے لئے کوئی خطرہ ہے تو وہ خود پی ٹی آئی ہے جو اپنی نا اہلیوں اور نہایت خراب کارکردگی کی وجہ سے خود اپنی ہی حکومت کو تباہ و برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

اقتدار میں آنے سے قبل تحریک انصاف نے عوام سے جو جو وعدے کیے تھے، اقتدار سنبھالتے ہی نہ صرف ان وعدوں کا کوئی پاس نہ رکھا بلکہ ہر سطح پر عوام کی مشکلات اور پریشانیوں میں اضافے در اضافے کا سبب بنتی گئی۔ بات صرف عوام کی مشکلات میں اضافے تک ہی محدود رہتی تو پھر بھی عوام کے لئے قابل برداشت ہو سکتی تھی لیکن بات اب اس سے آگے بڑھ کر پاکستان کی عزت و آبرو تک جا پہنچی ہے لیکن موجودہ حکومت کسی ایک مقام پر بھی اپنی نا اہلیوں پر شرمندہ و نادم دکھائی نہیں دیتی بلکہ مسلسل اس بات پر مصر ہے کہ وہ پاکستان کو ترقی کی شاہراہوں پر ڈالنے میں کامیاب ہوتی جا رہی ہے۔

پاکستان کا بچہ بچہ اس بات سے باخبر ہے کہ وزیر ہوا بازی کے ایک بیان نے پی آئی اے کو تباہی و بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ یورپ کی پروازیں بند ہو گئیں لیکن وہ اب بھی نہ صرف اپنے عہدے پر موجود ہیں بلکہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اپنا دفاع کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس بے حسی کے بعد براڈ شیٹ کی سبکی سامنے آئی لیکن کسی کے ماتھے پر ایک شکن تک نہیں ابھری۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم دورے پر گئی تو ایک دو نہیں آٹھ نو کھلاڑی کورونا میں مبتلا پائے گئے۔

چین جیسے ملک نے پی آئی اے کی پروازوں پر 3 ہفتوں کے لئے پابندی محض اس لئے لگا دی کہ دس مسافروں میں کورونا مثبت آیا۔ ابھی پاکستان ان مشکلات میں گھرا ہوا ہی تھا کہ ملائشیا نے پی آئی اے کا بوئنگ 777 محض اس لئے روک لیا کہ پی آئی اے پر اسی جہاز کی 1 کروڑ 14 لاکھ ڈالرز کی ادائیگی واجب تھی جس کو پی آئی اے ادا کرنے میں ناکام رہا تھا۔

یہ تو وہ پریشان کن معاملات ہیں جو چند ہفتوں میں ایک تواتر کے ساتھ سامنے آئے۔ اس کے علاوہ خلیجی ممالک اور سعودیہ کی جانب سے 3 برسوں کے لئے دیے گئے قرضے اور مراعات کو تین برس مکمل ہونے سے پہلے ہی مانگ لینا اور سعودی عرب جیسے ملک سے تعلقات کا خراب ہو جانا بھی کوئی معمولی رسوائی تو نہ تھی لیکن کیا موجودہ حکومت اپنی اس نا اہلی اور پاکستان کو پوری دنیا میں تنہا کردینے کے سلسلے میں کسی مقام پر بھی پشیمان نظر آتی ہے؟ یہ ہے وہ سوال جس پر نہ صرف پورا پاکستان حیران و پریشان ہے بلکہ دنیا میں پاکستان کی ساکھ جس تیز رفتاری کے ساتھ متاثر ہوتی جا رہی ہے، ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔

بات فقط اتنی ہے کہ جس طرح پانی کا ایک نقطہ انجماد ہوتا ہے اسی طرح ”حس“ بھی ایک مقام پر ”ذکی الحس“ ہو جایا کرتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب سارے کے سارے گھڑے چکنے ہو جائیں۔ موجودہ حکومت کے اسی ”بے حس“ طرز عمل پر پروین شاکر سے معذرت کے ساتھ میں اتنا ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ

کیا غم، ہے اگر ذلت و رسوائی کی بارش
ہم میں سے ہراک فرد یہاں چکنا گھڑا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).