ٹریفک جام ہے اور ہجوم پریشاں



میں رکشے میں بیٹھا جانب منزل رواں دواں تھا، فانی دنیا کی بے مقصد منزلیں تو سب کی الگ الگ اپنی بنائی ہوئی ہیں لیکن ہماری اصل منزل تو ایک ہی ہے جس کا راستہ سیدھا ہے وہ کسی چوک سے ہو کر نہیں جاتا کیونکہ چوک تو خود گمراہی کا نشان ہے، چار مختلف راستے، اب انسان بھلا کیا کرے، بعض اوقات وہ ٹھیک راستہ بھی پکڑ لیتا ہے لیکن اکثر اوقات وہ معاشرے کے بہاؤ میں بہہ کر غلط راستہ اختیار کر بیٹھتا ہے۔ کالج اور سکولوں کی چھٹی کا وقت تھا، رکشہ چوک میں رکی ہوئی ٹریفک میں پھنس گیا، میں رکشہ میں بیٹھا نہ جانے کن سوچوں میں گم تھا کہ اچانک لوگوں کی بے ترتیب آوازیں سن کر چونک اٹھا، خود کو ایک چوک کے بیچ و بیچ بے بس دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وقت کس قدر تیز رفتاری سے چل رہا ہے، لیکن ہم رکے ہوئے ہیں۔

رکشے، موٹر سائیکل، کاریں، بڑی گاڑیاں سب کی سب ایک دوسرے کے اندر ہی اندر گھسی چلی جا رہی تھی، ڈرائیور ایک دوسرے کو گالم گلوچ کرتے راستہ دینے کی بھیک مانگ رہے تھے۔ میں اس سوچ میں پڑا ہوا تھا کہ ہم رکے ہوئے نہیں ہیں ہم تو بھولے ہوئے ہیں کہ آخر جانا کدھر ہے۔ ہم نے راستے تو زیادہ بنا لیے ہیں لیکن کون سا راستہ اختیار کریں کہ آگے ٹریفک جام نہ ہو، اس کا ہمیں علم نہیں۔

کنفیوژن کا شکار یہ ہجوم ٹریفک میں جام بس سوچے جا رہا ہے کہ پیسہ کس طرح کمانا ہے، یہ راستوں کی بھول بھلیوں میں مجھے محسوس ہوا کہ یہ وقت تو ہمیں فلاح کی طرف بلا رہا ہے، یہ وقت اسی سیدھے راستے کا الارم ہے جس پر چلنے کے لیے ہمیں پیدا کیا گیا ہے اور وہ الارم بج رہا ہے لیکن ہم کان دوسری آوازوں کی جانب لگائے بیٹھے ہیں، اسی لئے تو ہم نے اپنی منزل تبدیل کر لی ہے۔

وقت اپنی تیز رفتاری کے ساتھ چل رہا تھا، روزگار کی تلاش میں نکلے لوگ مایوس ہو کر واپسی کا راستہ لے رہے تھے کہ روزی روٹی کمانے والے افراد اللہ پر توکل سے کنارہ کشی اختیار کیے زیادہ سے زیادہ کی ہوس میں وہ سب کچھ کر رہے تھے جس سے اسلام نے ہمیں منع کیا ہے۔ میری نظروں کے سامنے مستقبل کی نسل ہاتھوں میں قلم اور کاندھوں پر کتابوں کا بوجھ اٹھائے الٹا مجھ سے سوال کر رہی تھی کہ کیا تعلیم بھی ہمیں تہذیب نہیں سکھا پائی کہ ہم چار راستوں پر انسانوں کی طرح سفر کر سکیں؟ یوں گتھم گتھا ہونے کی آخر کیا وجہ ہے؟ کیا یہی وہ تعلیم ہے جو ہمیں حاصل کرنے کے لیے کہا گیا ہے؟، جس میں تحقیق ہے نہ فکر ہے، سوچ ہے اور نا ہی تدبیر، کیا یہ صرف ہمیں نوکری کے لئے دلوائی جاتی ہے؟  جواب میرے پاس بھی نہیں تھا۔

ٹریفک جام میں ہمارا لب و لہجہ دیکھنے والا ہوتا ہے، جلدی کی ریس میں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑے ہم لوگ اخلاقیات کا درس بھول جاتے ہیں جو ہمیں اسلام نے دیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد میری نظر پولیس کی گاڑی پر پڑی وہ بھی اس ٹریفک جام کی دلدل میں پھنس چکی ہے۔ اندازہ لگائیں راستہ دکھانے والے خود راستے میں پھنسے ہوئے ہیں

ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ سائنس کی ایجاد ٹریفک کو کنٹرول کرنے والے اشاروں پر نظر پڑی وہ خود توجہ کے طلب گار دکھائی دے رہے تھے۔ یہ فانی دنیا کی جام ٹریفک ہمیں لاحاصل کی چنگل میں لے کر جا رہی ہے، ہم نفس کے غلام بنتے جا رہے ہیں، ہم نے خواہشات کو خدا بنا لیا ہے، خود کو شہ رگ سے قریب خالق سے دور کر لیا ہے۔ د

”روح“ کے پیچھے جانے کی بجائے ہم نفس کی طرف بھاگتے ہیں، جسے ہمارا سب سے بڑا دشمن کہا گیا ہے۔ یہ نفس کی خواہشات ہی تو ہیں جن کی وجہ سے ٹریفک جام ہو گیا تھا۔ ہر ایک کی خواہش ہے کہ وہ جلدی اسے سے نکل جائے اور جلدی ہی بلندی سے روکنے کی پہلی رکاوٹ ہے۔ یہ سب کو ایک دوسرے میں جکڑ دیتی ہے۔ نفس کہتا ہے کہ اگر تم آگے نہیں بڑھ سکتے تو دوسرا کیوں، یہی انا ہے جس نے ہمیں مغرور بنا دیا ہے۔ ہم انسان ایک بنانے والے کے مقروض ہیں، ہمارے پاس اپنا ہے ہی کی کیا جس پر ہم فخر کریں، ہمارے پاس اپنا کچھ نہیں ہے، یہ الفاظ جو میں لکھ رہا ہوں یہ بھی میرے نہیں ہیں، سب فنا ہو جائے گا۔

انسان اس روزی کے پیچھے بھاگتا ہے، جو وقت آنے پر خود بخود اس کی طرف چل کر آئے گی لیکن ہماری جلدی ہمیں صبر جیسی عبادت سے دور رکھتی ہے۔ اب یہ جام ٹریفک اس وقت تک نہیں کھلے گی جب تک ہم اپنی اپنی انا اور جلد بازی کو ماریں گے نہیں، ”پہلے میں، پہلے میں“، جب تک چلتی رہی یہ ٹریفک جام ہی رہے گی۔

جس رکشے میں، مَیں سوار تھا، اس کا ڈرائیور کمال کا حوصلہ اور صبر رکھتا تھا، بنا کوئی جملہ کہے ایک ایک سینٹی میٹر کر کے آگے بڑھتا رہا اور بالآخر راستہ ملنے پر منزل کی جانب گامزن ہو گیا، صبر پھل دیتا ہے، وہ میٹھا بھی ہوتا ہے۔ راستے میں لوگوں کی گہماگہمی دیکھ کر میں یہ بخوبی اندازہ کر سکتا تھا کہ لوگ بہتر مستقبل کے لئے خوب محنت کر رہے ہیں، جس مستقبل کا نہیں کھکھ پتا نہیں، لیکن ہمیں جس مستقبل کا پتا ہے، ہم اس مستقبل کے لیے کچھ نہیں کر رہے، نماز تو امتحانی پرچے کے ”ایم سی کیوز“ کی طرح ہوتی ہے، ابتدا ہی غلطی سے ہو گی تو تقویٰ اور پرہیزگاری کے لانگ سوالات میں ہم کیا کریں گے۔

یہ تو ”روحانیت“ کا لمبا سفر ہے، سکون کی تلاش میں نکلنا اور اسے تلاش کرنے کی راہ میں کبھی ٹریفک جام نہیں ہوتا بلکہ ٹریفک اپنے اپنے الگ راستے پر گامزن ہوتی ہے۔ پرچہ پاس کرنے کے لئے یہ پتا ہونا ضروری ہے کہ پرچہ ہے کس چیز کا، جب تک خدا کی پہچان نہیں ہو گی، اس وقت تک پرچے کی پہچان نہیں ہو گی اور اس کی پہچان کا راستہ ایک ہی ہے، نفس کو مار کر مادیت سے نکل کر، خواہشات کے سمندر سے نکل کر، انا، تکبر سے جان چھڑا کر روح کے تابع ہونا، جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا وہ مقصد پورا کرنا، اسے ہی روحانیت اور اسے ہی آسان الفاظ میں تصوف کہتے ہیں۔

میری دنیاوی فنا ہو جانے والی منزل آ گئی تھی، رکشے والے کا شکریہ ادا کیا، اور گھر کو چل پڑا اور یہ سفر تو ختم ہونے والا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).