سقراط کی معذرت


خطہ ارضی پر انسان اور اس کا شعور ہزاروں سالوں سے ارتقائی سفر کی منازل طے کر رہا ہے۔ دو ہزار سال قبل بھی کچھ انسانی آبادیاں سماجی شعور کی انتہا کو پہنچ کر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے رہی تھیں جہاں پر بنی نوع انسان ترقی کر سکے۔ جہاں پر قانون کی عمل داری ہو، سماجی مرتبے سے قطع نظر انصاف ہو اور بہتر زندگی ہر انسان کا مقدر ہو۔ ابن مریم سیدنا عیسیٰ کی پیدائش سے بھی کم وبیش چار صدیاں قبل یعنی 399 قبل مسیح میں ایتھنز کی خوشحالی اور امن وسکون دیکھنے لائق تھا۔

کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ایتھنز کچھ سال قبل تک جنگ و جدل کا مرکز رہا ہے اور اسپارٹا کی ایک خوف ناک جنگ سے گزر چکا ہے۔ آخری دو سالوں میں تیس کے مضبوط قلعہ کی حفاظت کرنے والوں نے بھی ہتھیار ڈال دیے۔ ایتھنز میں جمہوریت قائم ہو چکی ہے۔ جیوری کے اراکین مقرر ہو چکے ہیں اور ایوان اعلیٰ بھی قائم کر دیا گیا ہے۔ پر امن فضا میں نوجوان افلاطون سوچ رہا ہے کہ اب عملی طور پر سیاست میں حصہ لینا شروع کردے۔

امن کے انہی ایام میں ایک ستر سالہ بوڑھے فلسفی نے ایتھنز کی گلیوں میں سچ کی جستجو جاری رکھی۔ یہ بوڑھا فلسفی کوئی اور نہیں بلکہ افلاطون کا استاد اور ماضی کا سنگ تراش سقراط تھا۔ وہی سقراط جس نے سنگ تراشی یہ کہہ کر چھوڑ دی کہ دیوتا اس سے عظیم کام لینا چاہتے ہیں۔ سچ کی تلاش میں سرگرداں سقراط کی مروجہ سیاست اور سیاست دانوں پر نقطہ چینی ایتھنز کی حکمران اشرافیہ کو پسند نہیں آ رہی تھی۔ اس بوڑھے فلسفی کو کس طرح خاموش کرایا جائے اور بہت سوچ بچار کے بعد مذہب کا سہارا  لے کر دیوتاؤں کی توہین کا الزام لگا دیا گیا۔

اس الزام کے تحت سقراط کو عدالت میں طلب کیا گیا تاکہ اس پر لگنے والے الزام کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔ سقراط پر الزام یہ لگایا گیا کہ وہ ان دیوتاؤں کو نہیں مانتا جن کا پورا شہر معتقد ہے۔ سقراط پر الزام تھا کہ وہ نئے دیوتاؤں پر ایمان لے آیا ہے اور وہ شہر کے نوجوانوں کو اپنے باطل عقائد کے سبب گمراہ کر رہا ہے۔

ایک غیر معروف شہری مائیلی توس نے سقراط کے خلاف درخواست دی جس پر عدالت نے اس کی مدد کے لیے مشہور مقرر لائی کون اور ایک مشہور سیاست دان انیطوس کو اس کا معاون مقرر کر دیا۔ ایتھنز کی 501 اراکین کی جیوری نے مقدمے کی سماعت کرنی تھی اور ایک ماہ کے اندر فیصلہ کرنا تھا۔

بالآخر مقدمے کا دن آن پہنچا۔ صبح سویرے سقراط کا دوست کرائٹو اور اس کا بیٹا بولس، افلاطون اور دیگر لوگ سقراط سے ملے اور اس کے ساتھ عدالت گئے۔ جیوری اراکین آ گئے اور مقدمے کی باقاعدہ کارروائی کا آغاز ہوا۔ سب سے پہلے درخواست گزار نے کھڑے ہو کر سقراط پر لگائے گئے الزامات دھرائے۔ اس دوران سقراط خاموش بیٹھ کر کچھ سوچتا رہا۔ اب جیوری نے سقراط کو اپنے دفاع میں تقریر کرنے کی اجازت دی۔ یونانی عدالتوں میں ملزم جب اپنے دفاع میں تقریر کرتا تو اس تقریر کو معذرت کہا جاتا تھا۔ اور سقراط کی اس معذرت کو حرف بہ حرف اس کے شاگرد افلاطون نے تحریر کیا۔

سقراط نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ایتھنز کے لوگو! بحیثیت سپاہی کے میں اسی مقام پر کھڑا رہا جہاں میرے افسروں نے مجھے کھڑا رہنے کا حکم دیا تھا۔ ان افسروں کو تم نے مجھ پر حاکم بنایا تھا۔ پوٹیڈیا، ایمفیپولیس اور ڈیلی ام کی لڑائیوں میں، میں بھی دوسروں کی طرح اپنی جگہ پر ڈٹا رہا اور موت سے کھیلتا رہا۔ لیکن جو کام میں اس وقت انجام دے رہا ہوں اس پر دیوتا نے مجھے مامور کیا ہے۔ یہ میرا خیال اور میرا عقیدہ ہے۔ دیوتا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنا اور دوسروں کا جائزہ لوں اور یوں فلسفہ کے لیے اپنی زندگی وقف کر دوں۔ ایتھنز کے لوگو! اگر میں موت یا کسی دوسری چیز کے ڈر سے اپنے مقام پر ڈٹا نہ رہوں تو میرا یہ فعل نہایت برا ہو گا۔ اگر میں ایسی حرکت کروں تو یہ بات غلط ہو گی اور تم کو حق ہو گا کہ تم مجھ پر دیوتاؤں پر ایمان نہ لانے کا الزام لگاؤ۔

سقراط نے جیوری اور اہل ایتھنز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم مجھے اس شرط پر معاف کر دو کہ میں اب خاموش رہوں گا تو میں اس شرط پر بھی رہا ہونے سے انکار کر دوں گا۔ اپنی تقریر کے اختتام پر سقراط نے متانت سے کہا کہ میری دعا ہے کہ دیوتا اور عدالت ایسا فیصلہ صادر کریں جس میں میری بھی بھلائی ہو اور تم لوگوں کی بھی۔ اور اس کے بعد سقراط خاموش ہو کر بیٹھ گیا۔ عدالتی کارروائی چلتی رہی۔ نقیب نے اعلان کیا کہ جیوری فیصلے کے لیے رائے شماری کرے گی۔ رائے شماری ہوئی اور تیس ووٹوں کے فرق سے سقراط کو سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا گیا۔

سقراط نے کھڑے ہو کر جیوری کے فیصلے پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ امید نہیں تھی کہ اتنے کم ووٹ میرے خلاف جائیں گے۔ جیوری توقع کر رہی تھی کہ سقراط زندگی کی بھیک مانگے گا اور جلا وطنی کی درخواست کرے گا اور اگر سقراط یہ تجویز پیش کرتا تو شاید یہ تجویز مان بھی لی جاتی۔ مگر اس پر سقراط نے کہا کہ اگر میں اپنے شہر ایتھنز میں سچ نہیں بول سکتا تو پھر دوسری جگہ لوگ مجھے سچ کیسے بولنے دیں گے۔ اس نے کہا کہ میں خاموش نہیں رہ سکتا کیونکہ دیوتا نے مجھے بولنے کا حکم دیا ہے۔

سقراط کو جیل بھیج دیا گیا ، اس کے دوستوں نے سقراط کو جیل سے فرار کرانے کا منصوبہ بنایا مگر سقراط نے اس کو رد کر دیا۔ مقررہ دن آن پہنچا اور جیل میں سقراط کی بیڑیاں کاٹ دی گئیں۔ اس موقع پر سقراط کی بیوی زم ٹیپی اور بچے بھی موجود تھے۔ جیلر نے زہر کا پیالہ سقراط کو دیا جو سقراط نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ لیا اور خاموشی سے زہر کو پی لیا۔ اس پر کرائٹو رونے لگا تو سقراط نے کہا کہ زندہ رہنا اتنا اہم نہیں ہے جتنا صحیح انداز سے زندہ رہنا اہم ہے۔ سقراط زہر پی کر امر ہو گیا۔ اسی کیفیت کو کسی شاعر نے یوں بیان کیا ہے کہ

اس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).