کیا دہشتگردی ایک سیاسی مسئلہ ہے یا سماجی؟


\"\"

پاکستان میں دہشتگردی کا موضوع بدقسمتی سے علمی مکالمہ میں ویسے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جیسا کہ اس کی ضرورت تھی۔ اس دہشتگردی کے اسباب کیا ہیں؟ آخر یہ ہمیں کیوں بار بار ڈس رہی ہے؟ اس کا جنم ریاست سے ہوا ہے یا سوسائٹی سے؟ کیا دہشتگردی سیاسی مسئلہ ہے یا سماجی؟ میں لفظ سماج کے بجائے ثقافت اختیار کرنا زیادہ پسند کروں گا کیوںکہ سیاست بذات خود سماج کا حصہ ہے۔

راقم کی رائے میں دہشتگردی کا بنیادی سبب سیاسی اور انتظامی ہے۔ اس کا جنم ہماری ثقافت سے یا سوسائٹی کی بنیادی اقدار سے نہیں ہوا بلکہ ریاست نے اپنے منصوبہ بند عزائم سے اس کے بیج اس ملک میں بکھیرے، اس کی افزائش کے تمام اسباب مہیاکیے، ریاستی طاقتیں ان کا تحفظ کرتی رہیں، ریاست کی ہی طاقت سے یہ شدت پسند عناصر سوسائٹی پر اپنی مراعات یافتہ طاقت سے مسلط رہے اور ہنوز اسی مراعات یافتہ طاقت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

ذرا آئیے ایک نظر تاریخ کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان میں دہشتگردی کی تاریخ بآسانی تین ادوار میں تقسیم کی جا سکتی ہے۔

زمانہ ماقبل ضیاء الحق

عہد ضیاء الحق

زمانہ مابعد ضیاء الحق

ضیاء الحق سے پہلے پاکستان میں دہشتگردی کے اکا دکا واقعات پائے جاتے تھے۔ ان اکا دکا واقعات سے دنیا کے کسی ملک کی تاریخ کبھی خالی نہیں رہی۔ آج بھی کوئی ملک اس کا دعوی نہیں کر سکتا کہ وہ شدت پسند عناصر اور شدت پسند کارروائیوں سے مکمل طور پر محفوظ ہے۔ ( راقم ان اکا دکا واقعات کی بھی مذمت کرتا ہے)

ضیاء الحق دور میں دہشتگردی کے عناصر ملک کے ایک طاقتور ترین ادارے کی سرپرستی میں اس ملک میں پیدا کیے گئے۔ اس سے پہلے بھی اسی طاقتور ادارے نے آپریشن جبرالٹر کے نام سے نجی عسکری کارروائیوں کی سرپرستی کی تھی۔ اسی ضیاء دور میں ہی ریاست کی بے مہار طاقت نے سوسائٹی کے امن پسند ماحول پر دھاوا بولا، دو مخصوص فرقوں کی سرپرستی یوں شروع کی کہ تمام قانون نافذ کرنے والے سول ادارے بھی ان کے آگے دو زانو ہو گئے اور یہی کیفیت کم و بیش آج بھی موجود ہے۔

ضیاء الحق کے بعد ہماری اسٹبلشمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کی خاطر ہماری سیاسی اشرافیہ نجی عسکری سرگرمیوں اور ریاست کی مہم جوئی کے حق میں ایک ہی پیج (Page) پر رہیں۔ اس دوران خاص طور پر ریاستی مراعات یافتہ ان شدت پسند گروہوں کا ہماری سوسائٹی کے مختلف شعبوں میں نفوز ہوا۔ یہ سوشل سائنسز کا اصول ہے کہ جب طاقت کا ارتکاز سوسائٹی میں جبر کی قوت سے پیدا کیا جاتا ہے تو سوسائٹی میں خود تنظیمی کی قوتیں اپنے اصلی discourse پر قائم نہیں رہ سکتیں جب تک کہ اس جبر کو ہٹا نہ دیا جائے۔

مشرف دور میں جا کر ریاست نے اپنے منصوبہ بند عسکری عزائم پر یوں محتاط نظر ثانی کی کہ اسی طرز کی سوچ آج بھی ہییئت مقتدرہ میں راسخ ہے کہ اچھے برے جہادیوں کی تقسیم قائم رکھتے ہوئے مہم جو منصوبہ بندیوں پر قائم رہا جائے۔ بدقسمتی سے اس سوچ کے خلاف سیاسی قیادت اس درجہ کا اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف اور احتجاج نہیں رکھتی جتنی اس سے جمہوریت پسند پاکستانی حلقے توقع رکھتے ہیں۔ حالیہ کوئٹہ ان کوائری کمیشن رپورٹ اس بات کا باقاعدہ ثبوت ہے کہ ہماری ملٹری اسٹبلشمنٹ، سیاسی ادارے اور غیر ذمہ دار بیوروکریسی دہشتگردی کے ان مسائل کا دہشتگردوں سے بھی بڑا سبب ہیں۔

ثقافت سے دہشتگردی یا نفرت کا جنم میری رائے میں ناممکن ہے۔ سوسائٹی کا جوہر تعاون و تبادلہ اور رضاکارانہ تعلقات باہمی پر قائم ہوتا ہے۔ دہشتگردی کے خیرخواہ اس ملک میں دس فیصد بھی نہیں۔ دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ دہشتگردی یا عسکریت پسندی کے عفریت کا جنم طاقت کے اس ارتکاز کے سبب ہے جو صرف ریاست کے پاس ہے۔ سوسائٹی کے پاس اتنی مرتکز (Concentrated) طاقت ہے ہی نہیں کہ وہ اس عفریت کو پیدا ہی کر سکے۔

سوسائٹی کی فطرت میں امن پسندی ہے۔ سوسائٹی بغیر رضاکارانہ اشتراک، تعاون اور اعتماد کے قائم ہی نہیں ہو سکتی۔ ریاست اگر آج اپنے ”مہم جو اور توسیع پسندانہ عزائم ”سے توبہ کر لے اور داخلی پالیسیوں میں طاقت کا جبر ترک کر دے تو سوسائٹی بذات خود ان اجزاء کو اپنے اندر سے نکال پھینکے گی جو اس کی اپنی امن پسند فطرت کے دشمن ہیں اور اس کی فطرت سے ہم آہنگ نہیں۔ دہشتگردی سیاسی و انتظامی معاملہ ہے یہ معروف معانی میں سماجی ہرگز نہیں کیونکہ اسے سماج نے جنم نہیں دیا بلکہ اسے ریاست کی غیر جوابدہ طاقت نے جنم دیا ہے۔ اس کا حل بھی سماج کے دائرۂ اختیار میں نہیں کیونکہ اس کے پاس اتنی طاقت ہی نہیں کہ آگے بڑھ کر ایک بے قابو طاقت کا ہاتھ روک سکے۔ دہشتگردی کا حل طاقت کے ان ایوانوں میں ہے جو اب بھی اپنی پالیسیوں سے دہشتگردی کو خوراک و ایندھن اور آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments