ترک روسی بھائی بھائی: ایردوان اور پوتن کا بیان
ترک صدر جناب رجب طیب ایردوان نے روسی سفیر کے قتل پر دلگرفتہ ہو کر کہا ہے کہ ’مجھے یقین ہے کہ یہ ترکی، ترک ریاست اور ترک عوام پر حملہ ہے، اور ترک روسی تعلقات کے متعلق ایک واضح اشتعال انگیزی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے روسی دوست بھی اس حقیقت کو جان لیں گے۔ جیسا کہ صدر پوتن سے اتفاق ہوا ہے، روسی سفارت خانے اور قونصل خانے کے گرد سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ روس سے ہمارے تعلقات اہم ہیں۔ میں ان لوگوں سے مخاطب ہوں جو کہ ہمارے تعلقات برباد کرنا چاہتے ہیں: تم بے ثمر انتظار کر رہے ہو، تم اپنے اہداف حاصل نہیں کر پاؤ گے“۔
روسی صدر پوتن نے صدر ایردوان کے تجزیے سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا کہ ’یہ قتل واضح طور پر ترک اور روسی تعلقات میں بہتری اور انہیں معمول پر لانے کے عمل پر کیا گیا حملہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ روس، ترکی، ایران اور شامی مسئلے کے حل میں دلچسپی رکھنے والے دوسرے ممالک شام کی جانب سے شام میں قیام امن کے عمل کی کوششوں پر بھی حملہ ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ اس کا واحد جواب جو ماسکو کو دینا چاہیے وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شدت لانا ہے، قاتلوں کو یہ ردعمل محسوس ہونا چاہیے۔
دونوں ممالک اس قتل کی مل کر تحقیقات کریں گے۔
ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ یہ قتل ہرگز بھی کوئی اتفاق نہیں ہے اور دونوں حکومتیں تعلقات میں بہتری کے عمل کو جاری رکھنے کے بارے میں پرعزم ہیں۔ ’ہم اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ اس واقعے سے ہمارے باہمی تعلقات تباہ و برباد نہیں ہوں گے‘، انہوں نے کہا۔
ترک پارلیمان کے سپیکر اسماعیل قہرمان نے کہا کہ ’میری خواہش ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو اس حملے سے نقصان مت پہنچے، جو کہ میری رائے میں تاریک قوتوں نے کیا ہے‘۔
اس عمل سے دو تین چیزیں واضح ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ روسی ہم پاکستانیوں کی طرح گرم ترین خط استوا کے پاس آباد نہیں ہیں بلکہ وہ سائبیریا کے سرد خطے کے نواح میں رہتے ہیں۔ وہ سوچ سمجھ کر اقدامات کرتے ہیں۔ فرض کریں کہ کابل یا بھارت میں پاکستانی سفیر کا اس طرح قتل ہو جاتا، تو اس وقت ہماری گرم مزاج جذباتی قوم یہ یاد دلاتے ہوئے کہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں، مطالبہ کر رہی ہوتی کہ ان ممالک پر ایٹم بم مار دیا جائے، یا کم از کم روایتی فوجی حملہ ہی کر دیا جائے۔ روس ایک سپر پاور ہونے کے باوجود ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں رہا ہے بلکہ وہاں سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ یہ مغرب کی سازش ہے۔ روسی سفیر کے قتل سے کہیں بڑا واقعہ ترک فضائیہ کی جانب سے روسی طیارہ گرائے جانے کا تھا، جس پر صدر پوتن نے ایسی ہی سی سرد پالیسیوں کے ذریعے صدر ایردوان کو ناکوں چنے چبوا کر ہزیمت اٹھانے پر مجبور کر دیا تھا۔
دوسری بات یہ کہ رجب طیب ایردوان اور پوتن کی جانب سے اس اظہار دوستی اور شام میں روس، ایران اور ترکی کی مشترکہ کوششوں کا ذکر معنی خیز ہے۔ یعنی حلب وغیرہ کے معاملات پر صرف روس کو ذمہ دار سمجھنا مناسب نہیں ہے، اس کے یہ دونوں دوست بھی اس معاملے میں شامل ہیں۔
تیسری بات یہ کہ ہماری جذباتی قوم کو اگر روس کے طرز عمل کو سمجھنے میں دشواری پیش آ رہی ہے تو وہ فلم سپائیڈ مین دیکھ لے، جس میں عظیم دانش بیان کی گئی ہے: بے پناہ طاقت اپنے ساتھ بے پناہ ذمہ داری بھی لاتی ہے۔
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).