انسداد وبا کے لیے سائنسی تعاون


عالمی ادارہ صحت کے ماہرین چینی سائنس دانوں کے ساتھ مل کر ناول کورونا وائرس کی شروعات اور وائرس کے ماخذ سے متعلق تحقیق اور سائنسی تعاون کے لئے ووہان میں موجود ہیں۔ کووڈ۔ 19 کے ماخذ کے بارے میں لازمی حقائق سے آگاہی درحقیقت ایک سائنسی مسئلہ ہے، اس پیچیدہ مسئلے کی گتھیاں سلجھانے سے قبل محتاط اور جامع مطالعہ کی ضرورت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے سائنس دان مل کر کوشش کر رہے کہ وائرس کی جینیاتی ساخت، ماخذ اور تغیر سے متعلق مشترکہ تحقیق کو فروغ دیا جائے۔ ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کا دورہ ووہان بھی ”سائنسی مطالعہ اور تبادلہ“ کو آگے بڑھانے کی ایک کڑی ہے۔ ان اقدامات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ چین ڈبلیو ایچ او کے ساتھ تعاون بڑھانے کے لئے تیار ہے اور کھلے، شفاف اور ذمہ دارانہ انداز سے ناول کورونا وائرس کا سراغ لگانا چاہتا ہے۔

چند مغربی سیاستدانوں کی سیاسی بیان بازی کے برعکس اسے کسی بھی طور پر ایسی ”تحقیقات“ نہیں قرار دیا جا سکتا جس میں وبا کے پھیلاو کی ذمہ داری کسی ایک ملک، تنظیم یا فرد پر عائد کی جا سکے۔ محض بے بنیاد قیاس آرائیوں یا پھر اس مسئلے کو سیاسی رنگ دینے میں فائدہ تو کسی کا نہیں کیونکہ بہت جلد سائنس سچائی کو سامنے لے آئے گی، ہاں مگر ایسے منفی رویوں سے کووڈ۔ 19 کے حوالے سے جاری عالمی تعاون کی کوششیں ضرور متاثر ہو سکتی ہیں۔

متعدد مغربی سیاست دانوں نے کووڈ۔ 19 کی شروعات سے متعلق کافی وقت سے افواہوں کا ایک بازار گرم کر رکھا ہے جس کا ایک ہی مقصد ہے کہ چین پر الزام تراشی کرتے ہوئے وبا سے نمٹنے میں اپنی کوتاہیوں اور نا اہلی کو چھپایا جا سکے۔ ایسے رویوں سے نہ صرف انہیں اپنے ممالک میں وائرس کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے میں ناکامی ہوئی ہے بلکہ انسداد وبا کی جنگ میں عالمی ممالک کی یکجہتی بھی سنگین طور پر متاثر ہوئی ہے۔

موجودہ وبائی صورتحال کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اب وقت آ چکا ہے کہ پوری دنیا کے سائنس دان ”سیاسی مداخلت“ کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوں اور ایسے عناصر کی بھرپور حوصلہ شکنی کی جائے جو اپنی انفرادی سوچ کو سائنس پر فوقیت دیتے ہوئے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ چین نے ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کے ساتھ جہاں بھرپور تعاون کو فروغ دیا ہے وہاں یہ توقعات بھی ظاہر کی ہیں کہ ماہرین اس مسئلے کے حل کے لئے سائنسی، پیشہ ورانہ، معروضی اور ہوش مند انداز اپناتے ہوئے مشن کی تکمیل کریں گے۔

انسداد وبا کے لیے چین ڈبلیو ایچ او کے ساتھ فعال تعاون کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے، وبا کی شروعات ہی سے وائرس تحقیق سے متعلق چین نے ڈبلیو ایچ او کے ساتھ مل کر کام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ گزشتہ سال فروری اور جولائی میں وبا کی روک تھام اور کنٹرول کے مشکل ترین مرحلے کے باوجود ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کو دو مرتبہ چین آنے کی دعوت دی گئی۔

چینی ماہرین اور عالمی ادارہ صحت اور بین الاقوامی ماہرین نے بھی ویڈیو کانفرنسوں اور سیمینارز کے ذریعہ متعدد مرتبہ بات چیت کی جس میں چین نے انسداد وبا میں حاصل شدہ ٹھوس نتائج سمیت ایک حقیقی اور سائنسی انداز میں تمام حقائق کا دنیا کے ساتھ تبادلہ کیا ہے۔

وائرس کے حوالے سے ”اوریجن ٹریسنگ“ ایک ارتقائی عمل ہے جس میں بہت سارے ممالک اور مقامات شامل ہوسکتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او ماہرین کے دورہ ووہان اور چین کے ساتھ فعال رابطے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ چین وہ ملک ہے جہاں سے کووڈ۔ 19 کی شروعات ہوئیں بلکہ چین کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے نئے وائرس سے متعلق دنیا کو سب سے پہلے آگاہ کیا، وگرنہ مختلف رپورٹس کی روشنی میں دیکھا جائے تو دنیا کے اکثر ممالک میں ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جو چین میں رپورٹ شدہ اولین کیس سے کافی پہلے موجود تھے۔ کئی تحقیقات اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ ووہان وہ پہلا شہر نہیں تھا جہاں سے ناول کورونا وائرس کی شروعات ہوئی ہیں۔

متعددمعلومات اور سائنسی دستاویزات سے یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ 2019 کے اواخر میں ہی یہ وائرس متعدد ممالک میں موجود تھا حتیٰ کہ درآمد شدہ منجمد فوڈ پیکیجنگ کے نمونوں پر بھی یہ وائرس پایا گیا تھا۔ لہذا ناول کورونا وائرس کی اصلیت کا پتہ لگانا ایک انتہائی پیچیدہ کام جسے سائنسی نقطہ نظر میں بہت سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔

چین ایک ذمہ دار بڑے ملک کی حیثیت سے اس وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لئے پوری کوشش کر رہا ہے اور اپنے تجربات اور سائنسی جانکاری کے تبادلے سے وبا کے خلاف انسانیت کی جنگ میں بھرپور مدد فراہم کر رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کے ساتھ سائنسی تعاون سے وائرس کے بارے میں آگاہی اور افہام و تفہیم کو فروغ ملے گا جس سے مستقبل میں نئے متعدی امراض کے ممکنہ پھیلاو اور روک تھام میں بھی خاطر خواہ مدد ملے گی۔

حقائق کے تناظر میں اگر تمام فریق سائنسی اصولوں پر عمل پیرا ہوں گے تو دنیا اس وائرس کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہوئے بہتر انسدادی اقدامات اپنا سکے گی جس سے مستقبل میں صحت سے متعلق ایسے بحرانوں سے نمٹنے کے لئے بہتر تیاری کی جا سکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).