غریب کا دکھ اور شکم سیروں کی باتیں


چند دن پہلے کسی اچانک ذہنی کیفیت کے تحت میں موجودہ حکومت سے متاثر ہو گیا جس پر میں ابھی بھی شرمندہ ہوں۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک بس اسٹاپ پر سر راہ ایک نہایت معقول اور کچھ پڑھی لکھی نظر آنے والی اماں جی سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے کسی بات پر انہیں موجودہ حکومت کی بہتری کی طرف جاتی ہوئی معاشی پالیسی پر لیکچر دینا شروع کر دیا۔

میں نے انہیں ایک امریکی معاشی انسٹیٹیوٹ موڈیز کا حوالہ بھی دیا کہ اس ادارے کے مطابق پاکستان کا بینکاری نظام بہت اچھا جا رہا ہے اور اس میں مزید بہتری بھی آ رہی ہے ، ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ کس طرح ہماری معیشت بہتر ہو رہی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کا کریڈٹ موجودہ حکومت اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کو جاتا ہے۔ میں نے یہیں پر بریک نہ لگائی بلکہ اقبال کی خودی اور عمران خان کے وژن کی بھی بات کی کہ وہ ہمیں اقبال کا شاہین دیکھنا چاہتے ہیں اور دنیا میں ہمارا وقار بلند کرنا چاہتے ہیں۔

اماں جی چہرے پر متاثر کن تاثرات لیے خاموشی سے سنتی رہیں اور میرے خاموش ہونے پر بولیں ”پت! اے ساریاں رجے ٹڈھ دیاں گلاں نے“ ۔ پھر (پنجابی میں) مزید بولیں کہ مجھے پتا ہے کہ نواز شریف چور ہے، زرداری ڈاکو ہے اور عمران خان حاجی ہے۔ ملک کی معیشت اچھی ہو رہی ہے اور خودی بلند ہو رہی ہے لیکن بیٹا! یہ بتاؤ کہ اس سے میرا کیا لینا دینا؟ ایک غریب آدمی کو اس سے کیا غرض کہ اوپر کون بیٹھا ہے اور کیا کر رہا ہے۔ ایک مزدور کا معیشت سے کیا کام؟ اس کو تو اس بات کی فکر ہے کہ صبح تو میں نے اور میرے بچوں نے کچھ نہ کچھ کھا لیا تھا لیکن رات کو پتا نہیں کھانا نصیب ہوتا بھی ہے کہ نہیں؟ بیٹا! بھوک بڑی ظالم چیز ہے، یہ انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے۔

میں لاجواب تھا، میرے ذہن کے نئے دریچے کھل گئے تھے، واقعی اس میں کوئی شک نہیں کہ بھوک بڑی ظالم چیز ہے، بھوک صرف خالی پیٹ کا نام نہیں۔ بھوک بھی دو طرح کی ہوتی ہے، ایک نفس کی بھوک اور دوسری پیٹ کی بھوک۔ یہ جو پہلے والی بھوک ہوتی ہے نا ، یہ زیادہ خطرناک ہے ۔ اتنی خطرناک کہ دوسری بھوک کا موجب بھی یہی پہلے والی بھوک ہی بنتی ہے، اس بھوک کو اگر درست نام دیا جائے تو اسے بھرے پیٹ والوں کی بھوک کہنا مناسب ہو گا۔

مگر ہمارے زکوٰۃ و عشر اور بیت المال تک کا مال کھا جانے والے حکمران کیا جانیں کہ پیٹ کی بھوک کیا چیز ہے۔ وہ شخص، جس نے متمول گھرانے میں آنکھ کھولی ہو، ہر طرف دولت کی ریل پیل دیکھی ہو، بڑے بڑے کاروبار چلتے دیکھے ہوں، انواع و اقسام کے پر لطف کھانوں سے بھرے ٹیبلز دیکھے ہوں ، وہ کیا جانے کہ بھوک کیا ہوتی ہے اور مہینہ تو دور کی بات، ایک ایک دن گزارنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔

ماضی میں بھی ہمارے حکمران عوام کو آٹے کی قلت کے دوران بریڈ اور دال کی قیمتیں بڑھنے پر چکن کھانے کے مشورے دے چکے ہیں۔ کاش کہ کبھی ہمارے حکمران روزہ رکھ کر ہی محسوس کر لیں کہ بھوک کیا چیز ہے۔ کل بھی گھریلو استعمال کی روزمرہ چیزوں کے مہنگے ہونے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا تاکہ تھوڑی بہت آتی سانسیں بھی رک جائیں۔ یقین جانیے کہ ہمیں حکمرانوں اور معیشت سے کچھ لینا دینا نہیں، ہمیں روٹی چاہیے جو کہ آپ دن بہ دن مہنگی کرتے جا رہے ہیں اور عوام کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ سچ ہے کہ ”اے ساریاں رجے ٹڈھ دیاں گلاں نے“۔

محمد حسان، اسلام آباد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد حسان، اسلام آباد

محمد حسان گزشتہ 12 سالوں سے میڈیا اور پبلک ریلیشنز کنسلٹنٹ کے طور پر ملکی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک ہیں۔ انسانی حقوق، سیاسی، معاشی اور معاشرتی موضوعات پر لکھنے کا شغف رکھتے ہیں۔ آپ انہیں ٹویٹر اور فیس بک پر سرچ کر سکتے ہیں BlackZeroPK

muhammad-hassaan-islamabad has 12 posts and counting.See all posts by muhammad-hassaan-islamabad