ڈینئل پرل اور علی کنعانی: دو قتل دو کہانیاں


2001 دنیا بھربالخصوص پاکستان کے لیے مشکل سال تھا۔ 11 ستمبر کے واقعہ کے بعد ملک میں بے یقینی کی فضا تھی۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ملبے سے اٹھنے والا سیاسی دھواں ابھی چھٹا نہیں تھا۔ دہشت گری سے متعلق خبریں اس وقت یقیناً توجہ کا مرکز تھیں اور چھوٹا سا واقعہ یا معمولی کارروائی بھی شہ سرخی بن جاتی تھی۔ انہی دنوں عالمی جریدے وال اسٹریٹ جرنل کے پاکستان میں نمائندے ڈینئل پرل کو ای میل موصول ہوا جس میں ان کو ایک مطلوب دہشت گرد کا انٹرویو کرنے کا موقع دینے کی پیشکش کی گئی، ڈینئل پہلے ہی اس خبر پر کام کر رہے تھے اور اس موقع کی تلاش میں تھے اس لیے فوراً حامی بھر لی۔ انٹرویو کا وقت اور جگہ طے ہو گئے۔ ڈینئل اس شام کراچی میں اپنی حاملہ اہلیہ اور دوستوں کو الوداع کہہ کر روانہ ہوئے اور وہ ان کا آخری الوداع ثابت ہوا۔

ڈینئل پرل سے رابطہ کرنے والے ان کو اپنے دام میں پھنسانے میں کامیاب ہو گئے، انہوں نے انٹرویو کا جھانسہ دے کر ڈینئل کو اغوا کر لیا اور نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ ادھر کراچی میں ڈینئل کی اہلیہ نے حکام کو ان کی گمشدگی کی اطلاع دی جس پر تفتیش کا عمل فوراً شروع کر دیا گیا مگر ڈینئل کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ کچھ دنوں بعد اغوا کاروں کی جانب سے ڈینئل کی ویڈیو جاری کی گئی جس میں ان کو ایک پیغام پڑھتے ہوئے دکھایا گیا، اس کے بعد کے مناظر انتہائی پریشان کن تھے جس میں ڈینئل کی آنکھوں میں پٹی باندھ کر ان کو بہیمانہ طریقے سے قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

ویڈیو جاری ہونے کے بعد ملکی اور عالمی سطح پر جو ہنگامہ برپا ہونا چاہیے تھا وہ ہوا، تفتیشی اداروں کو کئی دن بعد مقتول صحافی کی لاش کے ٹکڑے کراچی میں ایک زمین سے ملے لیکن قاتل ہاتھ نہ آ سکے، حکام نے اس وقت کے حالات کے پیش نظر پھرتی دکھاتے ہوئے خود کو وفادار خادم ثابت کرنے کی کوشش میں جس زمین سے لاش ملی تھی اس زمین کے مالکان کو اور ان کے اقرباء کو حراست میں لے لیا اور مبینہ طور پر بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا مگر قتل کا عقدہ نہیں کھل سکا۔

حقیقت کافی عرصے بعد سامنے آئی ، جب 11 ستمبر کے حملوں کے الزام میں امریکہ میں زیر حراست خالد شیخ نے دوران تفتیش ڈینئل پرل کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے کا اعتراف کیا، اس نے واقعہ میں ملوث اپنے دیگر ساتھیوں کی تفصیلات بھی بتائیں۔ حیران کن طور پر امریکی پراسیکیوٹر نے خالد شیخ کے خلاف مقدمہ میں ڈینئل پرل کے قتل کا الزام اور شواہد شامل نہیں کیے، ان کا دعویٰ تھا کہ اس سے خالد شیخ کے خلاف دیگر اہم کیسز اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان میں امریکی صحافی کے اغوا کے الزام میں احمد عمر شیخ کو فروری 2002 میں گرفتار کیا گیا اور خصوصی عدالت کی جانب سے اسی سال ان کو سزائے موت سنا دی گئی، 18 سال جیل میں گزارنے کے بعد 2020 میں یعنی چند ماہ قبل سندھ ہائیکورٹ نے ان کو مقدمہ سے بری کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا۔ اس فیصلے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے ڈینئل کے ضعیف العمر والدین کی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں وہ اپنی زندگی پر بیٹے کے قتل کے تباہ کن اثرات کا ذکر کرتے ہوئے لجاجت سے انصاف کی فراہمی اور ذمہ داروں کو سزا دینے کی التجا کر رہے ہیں۔

فیصلے کے بعد اہم رد عمل امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے سامنے آیا جس نے ٹویٹر پر سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ ملزمان کو فیصلہ آنے کے باوجود رہا نہیں کیا گیا ہے۔ اس ٹویٹ نے جہاں ایک طرف ہمارے عدالتی نظام کی آزادی اور ریاستی خود مختاری پر سوالات کھڑے کر دیے وہیں امریکہ کے دہرے انصاف کے معیار کو بھی عیاں کر دیا، کیونکہ جس وقت سندھ ہائیکورٹ نے قانونی دلائل اور بحث کے بعد احمد عمر شیخ کو بری کیا ، اسی وقت امریکی صدر نے بیک جنبش قلم چار ایسے ملزمان کو معافی دینے کا اعلان کیا جن پر قتل اور قتل میں معاونت کے الزام امریکی عدالت میں ثابت ہو چکے تھے، لیکن اس واقعہ میں متاثرہ فریق امریکی نہیں تھا اس لیے یہ معافی قابل تشویش نہیں تھی۔

چار ملزمان جن کو امریکی صدر نے اپنی مدت حکومت ختم ہونے سے پہلے صوابدیدی اختیار کے ذریعے معافی دی ، ان کا تعلق بدنام زمانہ بلیک واٹر سے تھا۔ 2007 میں بغداد کے النسور چوک پر معمول کے مطابق ٹریفک رواں تھی جب اچانک بلیک واٹر کی بکتر بند گاڑیاں نمودار ہوئیں اور انہوں نے ٹریفک روک کر ایک مشتبہ گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، یہ واقعہ اتنا اچانک اور غیر معمولی تھا کہ تمام عینی شاہدین نے اس کو قیامت صغریٰ سے تعبیر کیا۔

بلیک واٹر کے اہلکاروں نے اس گاڑی کو فائرنگ سے چھلنی کر دیا، اس کارروائی میں ہیلی کاپٹر کا بھی استعمال کیا گیا۔ مگر قصہ یہاں ختم نہیں ہوا، اہلکاروں نے اس گاڑی کو تباہ کرنے اور اس میں موجود تمام ”مشتبہ“ افراد کو قتل کرنے کے بعد دیگر گاڑیوں کا رخ کیا اور جو کچھ بھی ان کے سامنے آیا اس کو بھسم کر دیا۔ واقعہ میں 17 عراقی شہید ہوئے، ان میں ایک 9 سالہ علی کنعانی بھی تھا جس کے والد نے امریکی فوج کی عراق آمد پر مٹھائی تقسیم کی تھی کیونکہ وہ ان کو آزادی کا ضامن سمجھتے تھے۔

علی کنعانی کے والد نے بتایا کہ واقعہ کے بعد امریکی حکام نے ان سے رابطہ کیا اور 10 ہزار ڈالر دینے کی پیشکش کی جس پر انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ بلیک واٹر کا سربراہ اپنے اہلکاروں کی غلطی تسلیم کرے اور سر عام معافی مانگے، بلیک واٹر نے یہ مطالبہ رد کر دیا اور اپنے موقف پر قائم رہے کہ اہلکاروں نے اپنے دفاع میں گولیاں چلائیں۔

النسور چوک کے واقعہ پر امریکا میں بھی بلیک واٹر کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا، امریکی FBI کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ مقتولین معصوم تھے، جس گاڑی کو مشتبہ سمجھ کر اس پر فائرنگ کی گئی اس میں 20 سالہ احمد ہیثم اور اس کی والدہ تھے۔ بعد ازاں علی کنعانی کے والد امریکی عدالت میں بلیک واٹر کے اہلکاروں پر مقدمہ دائر کیا، چھ ملزمان میں سے ایک نے اعتراف جرم کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے خلاف گواہی دی لیکن عدالت نے گواہی مسترد کردی اور تمام ملزمان کو بری کر دیا۔

وکیلوں نے اعلیٰ عدالتوں میں مقدمہ کی پیروی کی تو طویل عدالتی کارروائی کے بعد 2015 میں ایک ملزم کو عمر قید اور 3 ملزمان کو 30 سال قید کی سزا سنائی گئی جبکہ ایک ملزم کو بری کر دیا گیا۔ 2018 میں اس مقدمہ کو واپس کھولا گیا اور سابقہ فیصلہ پر اعتراضات قبول کرتے ہوئے ایک بار پھر عدالتی کارروائی شروع ہوئی جس کے نتیجہ میں عمر قید کے ملزم کی سزا میں کمی نہیں ہوئی تاہم دیگر 3 ملزمان کی سزا آدھی ہو گئی۔

یوں امریکی حکومت کی مدد سے دائر کیے جانے والے مقدمہ میں امریکی عدالت کے فیصلہ کے مطابق یہ اہلکار قتل کے مجرم تھے۔ لیکن دسمبر 2020 میں جب امریکی محکمہ خارجہ ڈینئل پرل قتل کیس کے ملزموں کی بریت پر اظہار تشویش کر رہا تھا اس وقت امریکی صدر ان اہلکاروں کے لیے صدارتی معافی کا اعلان کر رہے تھے۔

احمد عمر شیخ کا مقدمہ اب پاکستان میں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، امریکی حکومت کی کوشش ہے کی ملزمان کو اپنی تحویل میں لے لے، لیکن دوسری جانب علی کنعانی، احمد ہیثم اور 17 عراقیوں کے قاتل رہا ہو گئے ہیں۔ ان دو واقعات سے امریکہ کا دہرا معیار بھی عیاں ہوتا ہے اور ایک پوشیدہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ موجودہ ریاستی نظام میں شہری امریکا کا ہو یا تیسری دنیا کا، ریاستی مفادات کے سامنے اس کی جان کی قیمت صفر ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ڈینئل پرل کے قتل پر امریکی محکمہ خارجہ ٹویٹس کے ذریعے محض تشویش کا اظہار کر رہا ہے، ورنہ امریکی مفادات کو ادنی نقصان پہنچانے پر بھی امریکا جس حد تک جاتا ہے ، اس کا سب کو خوب اندازہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).