سر طارق فارانی: حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا


بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

کسی شاعر کے اس مشہور زمانہ شعر کی کیفیت کو آج ہم نے پہلی بار حقیقتاً محسوس کیا۔ جب اپنے کمرے میں بیٹھے آج صبح جاڑے رت میں اترتی برف باری کو ہم کھڑکی کے کینوس پر بنتی کسی پینٹنگ کی طرح دیکھ رہے تھے۔ وہ منظر، وہ نظارہ، وہ ناظر سبھی کچھ زندگی سے بھرپور تھا کہ اسی دوران ہمارے موبائل فون کی سکرین وقاص احمد شہباز کی جانب سے بھیجے گئے ایک پیغام سے روشن ہوئی۔ جوں ہی ہماری نظر پیغام کے مضمون پر پڑی یقین مانیے جیسے ایک لمحے کو ہماری جان جسم سے نکل گئی اور اس تکلیف دہ احساس کو ہم نے اپنی آپٹیکل نرو سے لے کر پاؤں کے انگوٹھے تک محسوس کیا۔

گویا ہمارے ہاتھ سے شیشے کا کوئی نایاب مرتبان چھوٹ کر زمین پہ گر گیا ہو۔ پاس پڑے ٹیبل کا سہارا لے کر ہم پلنگ کی پائنتی پہ بیٹھ گئے، آنسو ہماری آنکھوں سے یوں جاری تھے گویا کسی برساتی نہر کا بند ٹوٹ گیا ہو۔ استاد محترم طارق صاحب فارانی کے انتقال کی خبر پر ہم نے اپنے جسم کو جیسے بے جان محسوس کیا ایسا ہی آج سے تین سال قبل اپنے والد محترم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کی خبر موبائل فون پر سن کے ہم نے محسوس کیا تھا۔

آن کی آن میں سر کا چہرہ، ان کی باتیں، ان کی یادیں، کتنا کچھ ہمارے ذہن کے پردے پہ امڈ آیا۔ ہمیں سر کا اور ابو کا چہرہ آپس میں گڈ مڈ ہوتا دکھنے لگا۔ چند لمحے ہمارے دل کی حالت غیر رہی اور ہمیں کچھ سجھائی نہیں دیا سوائے پیغام کے جواب میں ”نہیں“ لکھنے کے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے آج سے تین سال قبل جب اماں کے منہ سے ہم نے سنا تھا، ”ہاں بالکل ٹھیک تھے، ناشتہ کیا انہوں نے صبح پھر واش روم گئے اور بس پھر ہارٹ اٹیک ہو گیا، بستر پر لٹایا، ایمبولینس منگوائی اور اور پھر وہ ختم ہو گئے“ تو ہمارے منہ سے تب بھی ”نہیں، نہیں“ کا ورد جاری ہو گیا تھا۔ مگر ہمارے نہیں سے نہ تب کچھ بدلا تھا نہ آج کچھ بدلا ہے۔

کچھ ہی لمحوں پہلے جو منظر ہمیں زندگی سے بھرپور ایک خوش کن پینٹنگ لگ رہا تھا وہی منظر اب ہماری آنکھوں کو زندگی کی بے ثباتی پر کف افسوس ملتا، ماتم کرتا کوئی مرثیہ خواں لگ رہا تھا۔

ابھی ایک دو ماہ پہلے کی تو بات ہے جب فارانی صاحب کو ہم نے ان کی تازہ ترین دو تصویروں میں دیکھا تھا جو ان کے شاگردوں نے اپنی اپنی دیوار فیس بک پر لگائی تھیں۔ بلکہ ایک تصویر کو دیکھ کر فی البدیہ ہمارے منہ سے ایک شعر بھی نکلا تھا:

مدتوں کے بعد دیکھا آپ کو تصویرمیں
یوں لگا گویا ملاقات صغیرہ ہو گئی

اور ہم نے دوستوں کے ہاتھ سر کو سلام اور نیک خواہشات بھیجی تھیں۔ کیا خبر ان تک پہنچی بھی تھیں یا نہیں۔ اب کی بار پاکستان واپسی پر سر سے ملاقات کا مکمل عہد بھی ہم اپنے دل میں رکھتے تھے مگر ہائے افسوس! ہائے بے وقت کی موت!

یہ قبر کی منزل بھی غضب کی بھاری ہے

سر سے ہمارا تعلق سن 2012 کے آخری مہینوں میں قائم ہوا تھا جب ہم گورنمنٹ کالج سے بی ایس سی آرنرز سائیکالوجی کے آخری سمیسٹر میں تھے۔ یوں تو کہتے ہیں دیر آید درست آید مگر سر فارانی کے حوالے سے ہم ہمیشہ سوچتے تھے یہ بڑے ملال کی بات ہے کہ ہم اپنی تعلیم کے آخری سال میں سر سے باقاعدہ طور ہر متعارف ہوئے ہیں۔ نذیر احمد میوزک سوسائٹی بقول سر فارانی کے جس کی سیڑھیوں سے گورنمنٹ کالج کا کلچرل ورثہ بہتا ہے، اسی سوسائٹی میں ہماری سر سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔

سبھی اس سوسائٹی میں موسیقی سیکھنے جاتے ہیں مگر ہم وہاں سر سے ملنے جاتے تھے۔ ہمیں آج بھی سر فارانی وہیں کتابوں سے بھرے ٹیبل کے پیچھے بچھی میرون رنگ کی کرسی پر براجمان دکھائی دے رہے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ سر کو وہیں بیٹھے دیکھا۔ پہلی ملاقات میں ہی جب ہم نے سر کو ہماری باتوں کے جواب دینے کے ساتھ ساتھ دفتر کی کھلی کھڑکی سے بخاری آڈیٹوریم کو جاتی راہداری پر آمد و رفت کی خبر رکھتے اور باتوں کے درمیان اچانک سے بلند آواز میں پیچھے کرسیوں پر بیٹھے ریاض کرتے کسی شاگرد کی درستی کرتے سنا تو ہم نے جی میں فیصلہ کر لیا کہ یہ وہ مقام ہے، یہ وہ علم کا دریا ہے جس کے کنارے ہمیں روز آ کر بیٹھنا ہے۔

کون سا ایسا فلسفہ ہو گا، کون سی ایسی رمز ہو گی جس پر سر نے ہماری رہنمائی نہ کی ہو۔ روز مرہ کی باریکیوں سے لے کر زندگی کے پیچیدہ فلسفوں کی باتیں، پاکستانی سیاست سے لے کر عالمی سیاست کی باتیں، موسیقی اورشاعری سے لے کر لٹریچر کی باتیں، آداب گفتگو سے لے کر آداب لباس تک پر نصیحتیں۔ سر کے ڈیسک پر ہمیں کچھ خاص عنایتیں بھی حاصل تھیں۔ ہم ہمیشہ سر کے سامنے والی کرسی جہاں سے کھڑکی کے باہر ایم بی کو دیکھا جا سکتا تھا، وہاں بیٹھتے تھے۔

یوں تو سر کافی موڈی شخصیت کے مالک تھے۔ جب طبیعت خوشگوار ہوتی تو گھنٹوں کسی ایک موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرتے رہتے اور اگر جی نہ چاہتا تو سیدھا کہہ دیتے تھے بعد میں آنا یا کل آنا۔ سر کے ڈیسک پر ڈان اخبار، فلسفے کی مختلف کتب، شاعری کی کتب، رواں سال کے راوی کی ایک کاپی، گیزٹ کی کاپی، رایٹنگ پیڈ، قلم، میوزک سوسائٹی کے سونیرز، ایک دو راکھ دان اور ڈپلومیٹ سگرٹ کے کئی پیکٹ ہر وقت دھرے ہوتے تھے۔ ہم نے سر کو کبھی لائٹر استعمال کرتے نہیں دیکھا، ہمیشہ ماچس کی ڈبیہ رکھتے تھے۔

سر کو آئے دن مختلف اداروں اور شعبہ جات کی جانب سے عرضی چٹھیاں آتی رہتی تھیں جن میں ان کو موسیقی کے کسی پروگرام میں مدعو کیا گیا ہوتا تھا یا میوزک سوسائٹی سے طلبہ کو بھیجنے کی عرضی ہوتی تھی۔ سر نے ہمیں چٹھی لکھنا بھی سکھائی۔ عہد حاضر کے ڈیجیٹل زمانے میں بھی سر اپنے ہاتھ سے چٹھیاں لکھا کرتا تھے۔ جب ہم پر سر کا اعتماد بندھ گیا تو کبھی کبھار ہم سے بھی کوئی چٹھی لکھوا لیا کرتے تھے۔ سر ڈکٹیٹ کرتے رہتے تھے اور ہم لکھتے جاتے تھے۔

افسانہ لکھنے پر ہماری حوصلہ افزائی کرنے والوں میں سر فارانی کا نام سر فہرست ہے۔ ہم نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ جس نے ہمیں اردو نثر لکھنا سکھائی زندگی میں کبھی اسی کے نام ہمیں ایک تعزیتی تحریرلکھنا ہو گی۔

کبھی کبھی سر ہمارے معاشرے کی اس ریت کا بہت مذاق اڑایا کرتے تھے کہ لوگ قبر کے تختوں پہ نام اور ولدیت مع سن پیدائش اور وفات کیوں لکھتے ہیں۔ کہا کرتے تھے قبرستان کے پاس سے گزرو تو تختوں پر رنگدار حروف میں لکھا نظر آتا ہے بی بی فلاں ولد فلاں یا محمد فلاں ولد فلاں، ”او انہاں کولوں کوئی جا کے پچھے کون نے اے لوک؟ کی کم کیتا اے اینہاں نے زندگی وچ؟ انہاں دی پہچان جے اینہاں دا کم نی اے تے ہون مر جان توں بعد تسی اینہاں نوں کیوں ناں دے رہے ہو، اے کر کے کی گئے نے اس دنیا وچ؟“

اس بات پر سر کا ایمان بہت مضبوط تھا کہ آدمی کی پہچان اس کا کام ہوتا ہے نہ کہ اس کا نام۔ جب کام بولتا ہے تو نام خود ہی آ جاتا ہے ساتھ ۔ سچ کہتے تھے ہمارے استاد محترم۔ گورنمنٹ کالج کو ”راوین“ ترانہ دینے والے استاد فارانی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ پاکستان بھر میں بہترین بانسری بجانے والے نے نواز اب اس جہان میں نہ رہے، میر، غالب، اقبال، فیض کی غزلوں کی انوکھی دھنیں بنانے والے موسیقار آج ہم سے جدا ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).