نیم حکیم خطرہ جان


دنیا جتنی ترقی کر لے پاکستانیوں کی برابری ہرگز نہیں کر سکتی ۔ جی ہاں کیا آپ کو مذاق لگ رہا ہے؟ ہاں ہاں آپ کو تو مذاق لگے گا کیونکہ آپ تو مغرب کی ترقی سے مرعوب ہیں، گوروں سے مرعوب ہیں ، گوریوں سے تو زیادہ ہی مرعوب ہیں، لیکن پاکستانیوں کے لیے بدظن ہی رہتے ہیں۔ بس نظر نہ لگے ہم پاکستانیوں کو، وی آر ویری اسمارٹ۔ وہ الگ بات ہے پاکستانیوں کو ایکسپوزر کم ملتا ہے ، اگر ہم پاکستانیوں کا قومی اسکن کلر گندمی کے بجائے گورا ہوتا تو پھرپوری دنیا میں ہماری واہ واہ ہوتی۔

دنیا جتنی ترقی کر لے پاکستانیوں کی جوتیوں کی برابر بھی نہیں۔ اب تازہ تازہ کیس دیکھیے ذرا۔ کورونا آیا تھا پوری دنیا میں اور اس کے 10، 11 مہینے بعد اب جا کر ویکسین آئی۔ مگر پاکستانی میں کورونا کا علاج چند ہفتوں بعد ہی آ گیا تھا۔ سنا مکی یاد ہے ناں، کورونا کاعلاج سنا مکی کے پتوں سے ڈھونڈ لیا اور پھر لاکھوں لوگوں نے اس پر عمل بھی کیا۔ پھر لہسن کا ایک ٹکڑا، پیاز، لیموں کا عرق اور کلونجی نے باقی علاج کر دیا۔

خیر، یہ تو تازہ تازہ بیماری اور اس  کا دیسی علاج ہے مگر کیا آپ کو معلوم ہے پاکستان میں سب سے بری بیماری کون سی ہے؟ بڑی چھان بین کی مگر سمجھ نہیں آیا۔ پھر تحقیق کا انداز بدلا اور یہ دیکھا کہ بیماری ڈھونڈنے سے بہتر ہے علاج کرنے والے طبیب ڈھونڈ لیے جائیں ،  جس بیماری کے ڈاکٹر کی ڈیمانڈ زیادہ ہو گی یقیناً اس کے مریض بھی زیادہ ہوں گے ۔

ہم نے تحقیق کا آغاز کیا،  مقامی اخبار اور شہر کی سڑکوں کا جائزہ لیا۔ ایک طویل مدتی تحقیق کے بات اندازہ ہوا کہ پاکستان میں تین بیماریاں سب سے زیادہ ہیں: پہلا نمبر مردانہ کمزوری، دوسرا نمبر کمزور جسم کو موٹا بنائیں اور تیسرا نمبر بواسیر کا شرطیہ علاج۔

جی ان بیماریوں کا پتا شہر کی سڑکوں پر ہوئی وال چاکنگ، بینزز، بسوں میں تقسیم ہوئے پمفلٹ، 5 روپے والے شام کے اخباروں کے اشتہارات سے لگایا گیا ہے۔ یعنی رسد سے طلب کی تعداد کا اندازہ کیا۔ ویسے ان تین بیماریوں پر بات کریں بھی تو کیسے کریں۔ پیارے پاکستانیوں سے کوئی بعید نہیں ہم پر بد تہذیبی، بد اخلاقی کا الزام دھر دیں۔

ویسے بات بڑی عجیب ہے ، اگر کھلے عام سڑکوں پر یہ باتیں ہو سکتی ہے تو ان کے علاج پر بھی باتیں ہونی چاہیے۔ اگر یہ بیماریاں یا یہ مسائل واقعتاً اتنے پھیل گئے ہیں تو اس کا علاج بھی اچھے ماحول میں ہونا چاہیے ۔ اگر کھل کر ان کے علاج کے نعروں کا اشتہار لگایا جاسکتا ہے تو کھل کر اس پر بات بھی ہونی چاہیے۔

ویسے تمام باتیں اپنی جگہ مگر علاج تو ضروری ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان مسائل کے علاج کرنے والے اکثر طبیب جاہل ہوتے ہیں اور ان کا تعلیمی بیک گراؤنڈ نہیں ہوتا بلکہ اس طرف آنے کا مقصد فقط پیسے کمانا اور معصوم بھولے بھالے لوگوں کو ماموں بنانا ہوتا ہے۔  اس لیے احتیاط کیجیے ورنہ یہ نیم حکیم ”کیس“ مزید بگاڑ دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).