عمی کو لکیریں کیوں پسند ہیں؟


عمی کو بچپن میں سب سے پہلے لکیر کیسے کھینچی جاتی ہے، سکھانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن عمی کبھی صحیح لکیر نہیں کھینچ سکا۔ جب بھی ترنگ میں ہوتا، لکیر کو یو (U) کی شکل دیتا اور خوش ہوتا۔ استاد بھی تنگ آ گئے۔ چھڑی گھماتے ہوئے، استاد ایک دن بول ہی پڑے : ”لکھ لو، یہ بندہ کبھی سیدھی لکیر نہیں کھینچ سکتا اور نہ سیدھی راہ پر چل سکتا ہے۔ موقع ملتے ہی گھوم جائے گا اور دوسری راہ پکڑ لے گا۔“

تنگ آ کر گھر کے بڑے بھی بول پڑے کہ استاد صاحب کی بات تو پتھر پر لکیر ثابت ہوئی۔ پتھر پر لکیر کا عمی نے جب سنا، تو پتھر پر لکیریں بنانے کی کوشش کی۔ کبھی لکیر بن جاتی کبھی نہ بنتی تو عمی غصہ کرتا۔ جو سامنے آتا، مغلظات سے نوازتا اور زیادہ غصہ ہو تو پتھر مارنے سے بھی نہیں چوکتا۔ گھر والوں نے عاجز آ کر باہر پڑھنے بھیج دیا۔

عمی نے تاریخ تو جیسے تیسے پڑھ لی۔ لیکن شغف ڈرامائی تاریخ سے رکھا۔ چونکہ ڈراموں کا عمی بچپن سے ہی ماہر اور شوقین تھا۔ جب دیکھو، ایک نیا ڈرامہ۔ عمی جغرافیہ کبھی نہ سمجھ سکا۔ دنیا کے نقشے پر بھی اپنی مرضی سے لکیریں کھینچتا۔ کبھی جرمنی کو جاپان کا پڑوسی ملک نقشے میں دکھاتا تو کبھی کسی اور ملک کی سرحدیں ادھر ادھر کر دیتا۔ برصغیر میں ریاست مدینہ بنانے کی بات کرتا۔

عمی کے خاندان میں کرکٹ سے بھی لگاؤ پایا جاتا تھا۔ عمی کیوں پیچھے رہتا۔ اس نے بھی کرکٹ شروع کی اور آغاز میں اکثر گیندیں لکیروں سے باہر ہوتی تھیں۔ چونکہ گیند لکیروں کا پابند ہو کر ہی پھینکنی ہوتی تھی۔ عمی بچپن سے دوڑ میں مشہور تھا۔ موقع لگتے ہی دوڑ لگانا اس کی عادت تھی۔ دوڑ میں چونکہ کوئی غلطی نہیں کرتا تھا، اسی وجہ سے کرکٹ میں کبھی نو بال نہیں کرائی۔

بیرون ملک تعلیم کے دوران عمی کو سرکس اور پتلی تماشے کا بھی شوق ہوا۔ شہر کا مشہور سرکس دیکھتا اور خود کو بھی سرکس کا ایک کردار سمجھتا۔ پتلی تماشا دیکھتا تو اس کا دل چاہتا کہ وہ بھی پتلی بن کر مختلف کردار ادا کرے۔ سرکس میں حصہ لینے کی خواہش تو کچھ یوں پوری ہوئی کہ ایک دیوانے نے کرکٹ کو سرکس کا نام دیا اور کہا: ”دن میں تو لوگ کام کرتے ہیں۔ رات کو کرکٹ کھیلو، موٹی رقم میں دوں گا۔“

کرکٹ سے ہٹلر کی نفرت کا عمی کو علم تھا۔ کرکٹ کی طرح ہٹلر بھی عمی کو بہت پسند تھا۔ عمی نے سوچا، دن میں کام اور آرام کروں گا اور رات میں کرکٹ کھیلوں گا تاکہ ہٹلر کی روح کو پتا نہ چلے کہ میں کرکٹ کھیلتا ہوں۔ سو سرکس کا شوق یوں پورا ہوا۔

تھرڈ امپائر کی کرکٹ میں سب سے پہلے ضرورت عمی نے محسوس کی اور باقاعدہ ایک مہم شروع کی۔ تھرڈ امپائر کا جب تک قانون نہیں بن گیا عمی سکون سے نہیں بیٹھا۔ عمی کا ماننا تھا کہ سکون صرف قبر میں ہے۔ اس سے پہلے نہ خود سکون سے بیٹھو اور نہ کسی کو بیٹھنے دو۔ عمی نے سیکڑوں وکٹیں لیں۔ ہمیشہ سے اس کی یہی خواہش رہی کہ ایک بال پر دو وکٹیں لے۔ لیکن ایسا کوئی قانون نہیں بن سکا۔ کرکٹ میں جب بھی کوئی خلاف مزاج واقعہ وقوع پذیر ہوتا تو جہاں مغلظات کی بھرمار ہوتی، وہیں عمی لڑکوں بالوں، کمسن تماشائیوں اور پرستاروں کو لات مارنے سے بھی باز نہیں آتا۔

کھیل کھیلنے کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔ عمی نے بھی کھل کر خوب کھیل کھیلے۔ چوکے چھکے مارنے کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔ جب چوکے چھکے مارنے سے اپنے آپ کو عاجز پایا اور ورلڈ کپ بھی ہاتھ آ گیا تو عمی کو خدمت خلق کا شوق چرایا، جو بالآخر سیاست پر منتج ہوا۔ عمی کو سیاست میں حصہ لیتے ہی وہ لوگ بھی بد عنوان لگنے لگے جنہوں نے کبھی عمی کی خدمت خلق میں مدد کی تھی۔ ملکی سیاست کے سب سے بڑے ماہر کا بھی یہی تجزیہ تھا کہ سب بد عنوان ہیں۔ اگر عمی اپنی سیاسی ڈور میرے حوالے کر دے تو زمام اقتدار ایک دن عمی کے ہاتھ میں ہو گی۔ عمی کو سیاست میں طویل عرصہ ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بعد اندازہ ہو گیا تھا کہ تھرڈ امپائر کی انگلی ہی سیاست میں کامیابی کی ضمانت ہے۔

عمی نے سیاسی ماہر کی پیشکش پر غور کیا اور اس کو دو فائدے نظر آئے۔ ایک تو اقتدار ہاتھ میں آ جائے گا اور پتلی بننے کی دیرینہ خواہش کی تکمیل بھی ہو جائے گی۔ شنید ہے کہ ایک نامی گرامی ڈیپ سٹیٹ یا بنانا ریپبلک کا اقتدار سیاسی ماہر کی سیاسی کرتب بازیوں اور فارن فنڈنگ سے عمی کے ہاتھ آ گیا ہے اور حکومت میں ستر سال سے سیاست میں مشغول سیاسی ماہر اور بین الاقوامی فوڈ چینز سے وابستہ کاروباری شخصیات بھی شامل ہیں۔ اس صورت حال میں کہنے والے اور اہل ذوق فرماتے ہیں کہ یہ سب لکیروں کا کھیل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).