دارا شکوہ کی کہانی


ہندوستان کے مورخین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ اگر مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی جگہ دارا شکوہ مغل سلطنت کا بادشاہ بن جاتا تو آج ہندوستان کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ آج ہم بات کریں گے داراشکوہ کے بارے میں۔ دارا شکوہ مغل سلطنت کا ایک ایسا شہزادہ تھا جو دنیا کے تمام مذاہب کا احترام کرتا تھا۔ ہندوستان کے تاریخ دانوں کے مطابق دارا شکوہ ایک شہزادہ تھا جس کے نظریہ یہ تھا کہ دنیا کے تمام مذاہب مختلف ہوسکتے ہیں لیکن ان تمام مذاہب میں خدا ایک ہی ہے۔

وہ مذاہب کے اتحاد کا حامی تھا۔ ایسا شہزادہ جس سے ہندوستان کے تمام انسان محبت کرتے تھے اس کا انجام اس قدر خوفناک ہوا کہ روح کانپ اٹھتی ہے۔ دارا شکوہ کو بچپن سے ہی پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ مغل بادشاہت کا یہ واحد شہزادہ تھا جسے بچپن ہی سے دانشور، صوفی اورسنیاسی کہا گیا۔ مورخین کا ایک گروہ کہتا ہے داراشکوہ میں لیڈرشپ کی خصوصیات نہیں تھی جبکہ دوسرے گرہ کے مطابق داراشکوہ میں شاندار لیڈرشپ کوالیٹیز تھی۔ وہ ایک بہترین ملٹری کمانڈر بھی تھا۔

داراشکوہ مغل بادشاہ شاہ جہان کا سب سے بڑا اور پسندیدہ ترین بیٹا تھا۔ شاہ جہان کو داراشکوہ اس قدر عزیز تھا کہ اس نے اپنے باقی تین بیٹوں کو مختلف ریاستوں کا گورنر بنا رکھا تھا لیکن دارا شکوہ کو شاہ جہان اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ ہندوستان کے تمام لوگ داراشکوہ کو پسندکرتے تھے۔ وہ آرٹ کا دلدادہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر دارا شکوہ ہندوستان کا بادشاہ بن جاتا تو ہندوستان میں مذہبی انتہاپسندی کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔

صرف ہندوستان میں انسانیت اورآرٹ و کلچر ہی پروان چڑھتی۔ بالی وڈ میں دارا شکوہ کی زندگی کے بارے میں ایک فلم بھی بن چکی ہے جس کا نام ہے تخت۔ داراشکوہ اسلام اور ہندو ازم دونوں مذاہب سے متاثر تھا اس نے ڈیپتھ سے دونوں مذاہب کو سمجھا اور پڑھا۔ وہ کہتا تھا کہ حقیقی جنت وہاں ہے جہاں ملاؤں اور پنڈتوں کا شور شرابا نہیں ہوتا۔ اس لئے مسلمانوں کے ایک گروہ نے داراشکوہ کو کافر قرار دیا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ایک اللہ کا اسلام ہے اور دوسرا ملاں کا اسلام ہے، مسلمانوں کو اللہ کے اسلام کی پیروی کرنی چاہیے۔

اس ویڈیو میں ہم دیکھیں گے کہ اورنگزیب عالمگیر نے کیسے اپنے بھائی دارا شکوہ کے ساتھ جنگیں کی اور آخر میں اس کا سر قلم کردایا۔ شاہ جہان کے چار بیٹے تھے، شاہ جہان کی موت کے بعد ان چاروں بیٹوں کے درمیان جنگ شروع ہو گئی تھی۔ ہر ایک بیٹا مغل سلطنت کا بادشاہ بننا چاہتا تھا۔ دارا شکوہ سب سے بڑا بیٹا تھا اسے بادشاہت کی اتی خواہش نہیں تھی صرف ہندوستان کے لوگوں کے درمیان امن وشانتی کی خاطر وہ بادشاہ بننا چاہتا تھا۔

جنگ ہارنے کے بعد دارا شکوہ افغانستان فرار ہو گیا تھا جہاں سے اس نے اورنگزیب عالمگیر کے نام ایک خط لکھا اور کہا کہ اسے بادشاہ بننے کا شوق نہیں، اسے صرف ایک کمرہ دے دیا جائے جہاں وہ علم و فکر کی روشنی پھیلائے رکھنا چاہتا ہے لیکن اورنگزیب عالمگیر نے اسے گرفتار کر کے بھکاریوں کے کپڑے پہنائے۔ ایک ہاتھی پر بٹھایا اور دلی میں اسے گھمایا اور آخر میں دنیا کے سامنے اس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔ سر تن سے جدا کرنے کے بعد داراشکوہ کا سر دھلو کر اورنگزیب کے سامنے پیش کیا گیا۔

اپنے بھائی کا سر دیکھ کر اورنگزیب نے کہا کہ یہ بدبخت کا فر تھا اس لئے اس کا یہی انجام ہونا تھا۔ دارا شکوہ کا یہ حال دیکھ کر لوگ روتے رہے لیکن اوررنگزیب دارا شکوہ کی موت پر خوش تھا۔ اورنگزیب عالمگیر وہ مغل بادشاہ تھا جس نے انتہا پسندی کو ہندوستان میں پروان چڑھایا۔ اورنگزیب سے پہلے ہندو مسلم اتحاد تھا۔ دونوں مل کر رہتے تھے لیکن اورنگزیب عالمگیر نے ہندو مسلم اتحاد کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ ہندو مسلم تقسیم جو اس وقت بھی ہندوستان میں نظر آ رہی ہے اس کا سبب اورنگزیب عالمگیر کی انتہاپسندانہ سوچ تھی۔

شاہ جہان کی بیوی کا نام ممتاز محل تھا۔ ان کے چار بیٹے تھے۔ سب سے بڑے بیٹے کا نام داراشکوہ تھا۔ دوسرے بیٹے کا نام شجاع جبکہ تیسرے بیٹے کا نام محی الدین جسے اورنگزیب کا خطاب دیا گیا تھا اور چوتھے بیٹے کا نام مراد بخش تھا۔ دارا شکوہ بیس مارچ سولہ سو پندرہ میں راجھستان کے شہر اجمیر میں پیدا ہوئے تھے۔ دارا کامطلب ہوتا ہے بے تحاشا مال و دولت اور شکوہ کا مطلب ہوتا ہے عالیشان۔ داراشکوہ کے تیرہ بہن بھائی تھے یعنی بادشاہ شاہ جہان کی کل تیرہ اولادیں تھی ان میں سے سات کا انتقال ہو گیا اور صرف چھ بہن بھائی زندہ رہے۔

شاہ جہان کی بیٹی جہان آرا بیگم اپنے بھائی دارا شکوہ اور والد شاہ جہان سے بہت محبت کرتی تھی۔ شاہ جہان کو جب اس کے بیٹے اورنگزیب نے گرفتار کر کے گھر میں نظر بند کر دیا تو جہان آرا شاہ جہان کے مرنے تک ان کے ساتھ ایک کمرے میں بند رہی اور والد کی دیکھ بھال کرتی رہی۔ دارا شکوہ اور جہان آرا کے علاوہ شاہ جہان کے بچوں کا نام تھے شاہ شجاع، روشن آرا بیگم، اورنگزیب، مراد بخش اور گوہر بیگم۔ دارا شکوہ کو بچپن ہی سے سوچنے، سوال کرنے اور مذہبی معاملات میں شک کرنے کی عادت تھی۔

پچپن میں دارا شکوہ کو قرآن کی تعلیم دی گئی، فارسی علم ادب کی تعلیم دی گئی اس کے علاوہ کیلی گرافی کی تعلیم انہیں دی گئی۔ دارا شکوہ کو پڑھنے لکھنے کا اتنا شوق تھا کہ وہ دنیا کے مختلف ممالک سے کتابیں منگواتا تھا۔ اس دور میں سب سے بڑی لائبریری دارا شکوہ کی تھی اور اس لائبریری میں موجود ہر ایک کتاب کو وہ پڑھ چکا تھا۔ سوال کی تلاش میں وہ ہندو اور مسلم مرشدوں اور صوفیوں کے پاس گیا۔ ہندوستان کے لوگ داراشکوہ کے علم و فکر سے اس قدر متاثر تھے کہ انہیں اپنے بادشاہ کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے۔

شاہ جہان نے بھی مرنے سے بہت عرصہ پہلے یہ فرمان جاری کر رکھا تھا کہ ان کی موت کے بعد دارا شکوہ ہندوستان کا بادشاہ بنے گا۔ داراشکوہ صوفی ازم سے بہت متاثر تھا اور کٹر مذہبیت کا شدید مخالف تھا جبکہ اورنگزیب صوفی ازم کے ماننے والوں کو کافر کہتا تھا اور کٹر انتہا پسند تھا۔ دارا شکوہ کہتا تھا کہ صوفی ازم حقیقی لبرلاز ہے جس میں انسانیت کو سب سے زیادہ اہمیت دی جانتی ہے۔ شاہ جہان اورنگزیب عالمگیر کو اس لئے ناپسند کرتا تھا کہ اورنگزیب صوفی ازم فلسفے کا مخالف تھا۔

دارا شکوہ کی نادرہ بانو بیگم سے شادی ہوئی۔ نادرہ بیگم سے دارا شکوہ کی ایک بیٹی تھی جوجلد انتقال کر گئی جس پر دارا شکوہ بہت افسردہ ہوا۔ دارا شکوہ نے حظرت میاں میر سے صوفی ازم کی تعلیم حاصل کی۔ دارا حظرت میاں میرکو اپنا مرشد کہتے تھے۔ بابا لال سے بھی دارا شکوہ بہت متاثر تھے اور ہمیشہ ان سے سوال کرتے رہتے تھے۔ داراشکوہ کے صوفیانہ خیالات سے اس کے بھائی اورنگزیب عالمگیر کو بہت چڑ تھی۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ دارا شکوہ کو کبھی مغل بادشاہ نہیں بننے دے گا۔

دارا شکوہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ہندو مسلم ایک ہی ہیں اور ان میں کسی قسم کی تفریق نہیں۔ ہندو مسلم اتحاد کے لئے دارا شکوہ نے بہت محنت کی اور اس مشن میں وہ کامیاب رہا۔ ہندو مسلم اتحاد کے لئے اس نے کتابوں کے ترجمے کرائے۔ سر اکبر اور مجمع البحرین اس حوالے سے دو مشہور کتابیں ہیں جس میں ہندو مسلم اتحاد کا پرچار کیا گیا۔ دونوں کتابوں میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ہندو مسلم حقیقت میں ایک ہی ہیں۔ دونوں کتابیں داراشکوہ نے لکھی۔

سر اکبر میں ہندوازم کے فلسفے کی تشریح کی گئی ہے۔ داراشکوہ آرٹ و کلچر کا دلدادہ تھا۔ اس نے لاہور میں میاں میر کی دربار تعمیر کی۔ دلی میں اس نے دارا شکوہ لائبریری تعمیر کرائی جو آج بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس نے شاندار مساجد بنوائی اس کے علاوہ اس نے کشمیر میں پری محل پیلس بنوایا۔ داراشکوہ کو کشمیر بہت پسند تھا۔ آخر میں دارا شکوہ صوفی بن گیا تھا۔ اس کی سوچ درویشانہ اور صوفیانہ تھی، وہ ہر ایک میں خود کو دیکھتا تھا۔

ایک ایسا زمانہ بھی آیا کہ دارا شکوہ صرف صوفیوں، سنتوں، سنیاسیوں اور یوگیوں کے ساتھ رہتا تھا۔ ملک جیون داراشکوہ کا دوست تھا، یہی وہ شخص تھا جس نے دارا شکوہ سے غداری کی اور اسے گرفتار کروایا۔ اسی ملک جیون کی زندگی دارا شکوہ نے کئی بار بچائی۔ ملک جیون کیونکہ ایک مجرم تھا اور اس نے انسانیت پر بہت ظلم ڈھائے تھے تو شاہ جہان نے اسے سزائے موت دیدی لیکن دارا شکوہ نے ملک جیون کی جان بچائی۔ داراشکوہ اورنگزیب عالمگیر کی طرح کا ملٹری کمانڈر نہیں تھا یہی وہ کمزوری تھی جس کا فائدہ اٹھاکر اس نے اپنے تی بھائیوں مراد شجاع اور دارا شکوہ کو قتل کروایا۔

پیرالل میڈیا کی ویڈیو میں اب ہم آپ کو بتائیں گے کہ کیسے مغل بادشاہ بننے کے لئے عالمگر نے اپنے باپ شاہ جہان کو گھر میں ایک کمرے میں قید کیا اور اپنے تینوں بھائیوں کو قتل کروادیا؟ شاہ جہان جب بوڑھا ہو گیا تو اس نے وصیت کی کہ ان کا بانشین داراشکوہ ہی ہوگا۔ اس وقت مغل بادشاہت کابل سے بنگال تک اور کشمیر سے کاویری تک پھیلی ہوئی تھی جو اس زمانے میں ایک بہت بڑی سلطنت تھی۔ مغل سلطنت کی بنیاد بابر نے رکھی تھی۔

اس کے بعد ہمایوں بادشاہ بنا۔ ہمایوں کے بعد اکبر مغل باشاہ ہوا۔ اکبر کے بعد جہانگیر اور جہانگیر کے بعد شاہ جہان مغل بادشاہ بنا۔ اب چلتے ہیں حقیقی کہانی کی طرف۔ اس زمانے میں جب یہ اعلان ہوا کہ دارا شکوہ شاہ جہان کے بعد نیا مغل بادشاہ بنے گا تو اس وقت اورنگزیب دکن کا گورنر تھا جبکہ مراد گجرات کا گورنر تھا۔ شجاع بنگال کاگورنر تھا۔ پنجاب کی راج دہانی دارا شکوہ چلا رہا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ شاہ جہان چاہتے تھے کہ دارا شکوہ ان کے ساتھ دلی میں رہیں۔

اس زمانے میں دارا شکوہ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اندھا دھند صوفیوں اور یوگیوں کی باتوں کو مانتے ہیں۔ اس زمانے میں داراشکوہ کو قندھار فتح کرنے بھیجا گیا، دارا شکوہ قندھار فوج کے ساتھ یوگیوں کو بھی لے گیا۔ وہاں جاتے ہی یوگیوں نے کہا شہزادے قتل و غارت گری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں آپ ویسے ہی فتح پالیں گے، اسی غلطی کی وجہ سے داراشکوہ کو قندھار میں شکست ہو گئی لیکن شاہ جہان نے اسے معاف کر دیا۔ ایک طرف شاہ جہان داراشکوہ کی بڑی سے بڑی غلطی معاف کردیتا تھا تو دوسری طرف شاہ جہان اورنگزیب کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی پر اسے سزا دیتا تھا۔

چھ ستمبر 1657 کو شاہ جہان شدید بیمار ہو گیا۔ یہ افواہ ہر طرف پھیل گئی کہ شاہ جہان انتقال کر گئے ہیں حقیقت یہ تھی کہ وہ شدید بیمار پڑ گئے تھے۔ اب شاہ جہان کا ہر ایک بیٹا بادشاہ بننا چاہتا تھا سوائے دارا شکوہ کے۔ داراشکوہ کے علاوہ شاہ جہان کے تینوں بیتوں نے بادشاہ بننے کی کوشش شروع کردی۔ دارا کے تینوں بھائی ان سے جیلس تھے وجہ یہ تھی کہ دارا شکوہ شاہ جہان کا فیورٹ تھا۔ تخت کے لئے اب جنگ کا آغاز ہوا، سب سے پہلئی شجاع نے اعلان کر دیا کہ وہ مغل بادشاہ ہیں۔

ادھر اورنگزیب نے اعلان کیا کہ وہ مغل بادشاہ ہے، اورنگزیب کیونکہ عظیم ملٹری کمانڈر تھا اس لئے حالات اس کے لئے ساز گار تھے۔ اورنگزیب نے مضبوط آرمی بنارکھی تھی۔ مراد نے بھی کہا وہ بادشاہ بنے گا۔ اب شاہ جہان کے تینوں بچے بغاوت پر اتر آئے اور اس طرح تینوں نے مل کر دلی راج دہانی پر حملہ کرنے کی ٹھان لی۔ شاہ جہان کے ساتھ دارا شکوہ اور راجپوت تھے جبکہ ان کے مقابلے میں شاہ جہان کے تینوں بیٹے تھے۔ اسی دوران تخت کے لئے دو جنگیں ہوئی۔

ایک جنگ کا نام تھا بیٹل آف بہادر پور اور دوسری تھی بیٹل آف سمو گڑھ۔ بیٹل آف سمو میں شجاع کو شکست ہو گئی۔ اورنگزیب اور مراد اکٹھے تھے اور مل کر داراشکوہ سے جنگ کر رہے تھے۔ اس جنگ میں مغل آرمی یعنی داراشکوہ کی فوج کو ببھاڑی نقصان اٹھانا پرا۔ اورنگزیب مراد کو فتح مل گئی۔ دارا شکوہ جنگ ہارنے کے بعد فرار ہو گیا۔ جنگ جیتنے کے بعد اورنگزیب نے مراد کو سازش سے قتل کرادیا۔ اس کے بعد آگرہ میں جنگ ہوئی جس میں شجاع کو بھی اورنگزیب کی فوج نے قتل کرادیا۔

اس طرح اورنگزیب نے اپنے دو بھائیوں کو قتل کردایا۔ دارا شکوہ شکست کھانے کے بعد پہلے گجرات بھاگ گیا۔ اس کے ساتھ اپنا خاندان بھی تھا۔ گجرات مین دارا شکوہ کی بیوی نادرہ انتقال کر گئی۔ اس کے بعد دارا شکوہ افغانستان مین اپنے دوست ملک جیون کے پاس گیا اور وہاں سیاسی پناہ لی۔ ملک جیون نے رات کے وقت داراشکوہ اور اس کے بیٹے کو گرفتار کر لیا اور دونوں کو اورنگزیب عالمگیر کے حوالے کر دیا۔ ادھر اورنگزیب نے اپنے باپ شاہ جہان کو گھر میں نظر بند کر دیا اور اس طرح عملی طور پر اورنگزیب مغل بادشاہ بن گیا۔

داراشکوہ کو دلی میں بھکاریون کے کپڑے پہنائے گئے اور ایک ہاتھی پر بٹھا کر پورے دلی میں گھمایا گیا۔ دارا شکوہ اب شنکنجے میں تھا۔ داراشکوہ کی یہ حالت دیکھ کر عوام رو رہے تھے۔ وہ خون میں لت پت تھا۔ اس کے بعد دونوں کو گھر میں نظر بندکر دیا گیا۔ اورنگزیب عالمگیر نے اب اپنے ساتھیوں سے اور حکام سے کہا کہ دارا شکوہ اگر زندہ رہا تو سول وار ہو جائے گی کیونکہ ہندوستان کی عوام اسے پسند کرتی ہے۔ دوسرا یہابمسلمان نہیں رہا بلکہ ہندو بن چکا ہے، یہ کافر ہے اور اس نے مندر تعمیر کروائے ہیں اس لئے ہندو عوام اس کے ساتھ ہیں۔

اس کے بعد اورنگزیب کے حکم پر دارا شکوہ کا سر قلم کر دیا گیا۔ سر قلم کرنے کے بعد اس سر کو دھویا گیا اور اورنگزیب کے سامنے پیش کیا گیا۔ اورنگزیب نے حقارت سے داراشکوہ کا سر دیکھا اور کہا مارا گیا کافر۔ اس کے بعد اورنگزیب نے اپنے اپ کو عالمگیر کا خطاب دے کر مغل سلطنت سنبھال لی۔ دارا شکوہ کے مرنے کے بعد اورنگزیب نے ہزاروں ہندووں کا قتل عام کرایا اور سینکڑوں مندر ڈھا دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).