امتحان لینے کا حکومتی فیصلہ اور طالب علموں کا رد عمل


وزیر تعلیم شفقت محمود صاحب کی جانب سے 15 جنوری کو ایک بیان سامنے آیا جس میں ان کی جانب سے کہا گیا کہ ”ملک بھر میں نویں سے لے کر بارہویں تک کے تعلیمی ادارے 18 جنوری جبکہ پرائمری، مڈل اور ہائر ایجوکیشن  کے تعلیمی ادارے (یونیورسٹیاں ) یکم فروری سے دوبارہ کھلیں گے۔“ اس بیان کے سامنے آتے ہی پورے ملک میں طالب علموں کی جانب سے عجیب رد عمل سامنے آ رہے ہیں۔

وہ طالب علم جو پچھلے سال تعلیمی نظام کے آن لائن ہونے پر نالاں تھے اب وہی جامعات میں امتحانات دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ معاشرتی رابطے کی کوئی بھی ویب سائٹ دیکھ لیں ہر طرف یہی کہا جا رہا ہے کہ طالب علم جامعات میں ہونے والے ( فزیکل) امتحانات کو مسترد کرتے ہیں۔ مختلف جامعات کے طالب علم احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے، ان کا یہ کہنا تھا کہ جب انہیں پڑھایا آن لائن گیا ہے تو وہ امتحانات بھی آن لائن ہی دیں گے۔

مزید طالبعلموں کا یہ کہنا ہے کہ ٹیکنیکل مسائل کی وجہ سے ان کا پہلی ہی بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اب امتحانات اگر جامعات کے اندر منعقد کیے جاتے ہیں تو اس کے ان کے تعلیمی سفر پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔

ان کے نزدیک یہ رائے درست ہے لیکن لازم نہیں کہ تمام طالب علم ان کی رائے سے متفق ہوں۔ ہر شخص دوسرے لوگوں سے مختلف رائے رکھتا ہے۔ میں مانتی ہوں کہ ہمارے آن لائن تعلیمی نظام میں ہم طالب علموں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ مسائل ہمارے ذاتی تھے اور کچھ مسائل کا تعلق اچھے اور اعلیٰ معیاری نظام کی عدم دستیابی سے رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج اکثر جامعات کے طالب علم امتحانات کے لئے تیار نہیں یا اس وجہ سے کہ انہوں نے خود یہ سوچ رکھا تھا کہ یہ سمیسٹر بھی آن لائن ہی گزرے گا اور انہیں ایک سخت امتحانی سفر سے نہیں گزرنا پڑے گا۔

یہ بات بجا ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ طالب علموں کو آن لائن پڑھائی میں بہت سی دشواریوں کا سامنا رہا ہے مگر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اب بجائے محنت کے راہ فرار اختیار کر لی جائے۔ جامعات میں ہونے والے امتحانات کے فیصلے کو مسترد کر دیا جائے۔ آن لائن امتحانات میں زیادہ محنت کی ضرورت نہیں پیش آتی کیونکہ ہمارے پاس کتابیں، موبائل، انٹرنیٹ نیز مدد کے لئے ہر چیز موجود ہوتی ہے۔

شاعر مشرق علامہ اقبال نے نوجوانوں کو شاہین سے تشبیہ دی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاہین اپنی اونچی اور انتھک اڑان اور دور اندیشی کی وجہ سے مشہور ہے۔ جو مشکل حالات میں چھپ کر بیٹھ نہیں جاتا بلکہ اپنے اس کا عزم و حوصلہ مزید بلند ہو جاتا ہے اور مشکل حالات میں وہ زیادہ اونچی اڑان بھر لیتا ہے۔

میرا شاہین کا حوالہ دینے کب مقصد یہ ہے کہ اگر ہم محنت میں عظمت کا سبق بھول بھی گئے ہیں تو یاد دہانی کر لینی چاہیے۔ اگر ہم خود کو کٹھن مراحل سے نہیں گزاریں گے تو کامیابی کے خواب دیکھنے کا کوئی مقصد باقی نہیں رہ جاتا۔ کامیابی انتھک محنت اور قربانی کا مطالبہ کرتی ہے۔ اگر کچھ حاصل کرنا ہے تو محنت کرنی ہے۔ میرا احتجاج کرنے والوں سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے بس سوچ کا فرق ہے۔ میرے نزدیک امتحانات کے فیصلے کو مسترد کرنا محنت کرنے سے راہ فرار حاصل کرنا ہے۔ عین ممکن ہے کہ میری رائے آپ سے مختلف ہو اور آپ میری رائے سے اختلاف رکھتے ہوں۔

میرے نزدیک ان احتجاجات کا کوئی دوسرا روپ بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً امتحانات کی تاریخ مؤخر کر دی جائے تاکہ ہمیں مزید وقت مل سکے اور اس کے بعد خود کو ایک کڑے مرحلے سے گزار کر ملنے والی کامیابی کی خوشی منائی جا سکے۔ اس کے علاوہ میرے نزدیک جتنا بہتر انسان اساتذہ کے سامنے بیٹھ کر ان کی تجربات اور معلومات سے مستفید ہو سکتا ہے اتنا علم دور بیٹھ کر نہیں حاصل کیا جا سکتا تو یہ مطالبہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ ہمیں کچھ مزید وقت دیا جائے تاکہ ہم اپنے تعلیمی مسائل کے حل کے لئے اساتذہ سے راہنمائی حاصل کر سکیں۔

اگر ہم کامیابی سے ہم کنار ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہو گا۔ اپنے حصے کی محنت بھی ایک بہت اہم ذمہ داری ہے جسے ہمیں ادا کرنا ہے۔ بے شک موجودہ صورتحال ہماری خواہشوں کے منافی ہے مگر یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ مشکل راستوں کی منزل بہت خوبصورت ہوتی ہے۔

اقبال کے شاہین بننے کے لئے انتھک محنت کرنی ہے اور کٹھن مراحل کو صبر اور حوصلے سے طے کرنا ہے۔ ملکی حالت پہلے ہی بہت نازک ہیں ایسے میں اس ملک کے معماروں کی جانب سے کسی قسم کا ہنگامہ قابل برداشت نہیں ہے۔ تقریباً سبھی جامعات کے امتحانات یکم فروری کے بعد ہی شروع ہونے ہیں۔ اس لئے جو وقت ہمارے پاس ہی اس کا مثبت استعمال کیا جائے۔ حالات مشکل ضرور ہیں مگر ناگزیر نہیں، جگہ جگہ دھرنے کرنا، ٹریفک کا نظام معطل کرنا اور عام شہریوں کے لئے مشکلات کھڑی کرنے کی بجائے اپنی تعلیم پر توجہ دینی چاہیے۔ مشہور کہاوت ہے کہ ”کندن آگ میں پک کر سونا بنتا ہے۔“ جتنی محنت کی جائے گی کامیابی اتنی ہی بڑی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).