مُلا، صحافی اور بیوروکریٹ نے بدن دریدہ کو فحش کیوں کہا؟


\"\"فہمیدہ مامتا پر شاعری لکھ رہی تھی، آرزوئے وصل، ازدواجی مباشرتی محبت اور ایسے دیگر موضوعات پر جو فیوڈل معاشرے میں عورت کے منہ سے اچھی نہیں لگتے تھے۔ ” پتھر کی زبان“ کے بعد اس کا اگلامجموعہ کلام ” بدن دریدہ“، شائع ہوا جس پہ ایک غلیظ غلغلہ بلند ہوا تھا۔

بھئی یہ کتاب نہیں ہے، یہ جنگی ترانوں کا ایک مجموعہ ہے۔ مقہوروں‘ مجبوروںاور محکوموں میں سے سب سے محکوم آبادی یعنی عورت کے جنگی ترانے۔ یہ صرف جذباتی انداز میں حوصلہ بڑھانے کے ترانے نہیں ہیں بلکہ یہ تو” شعور کی راہنمائی “میں حوصلہ بڑھانے والے ترانے ہیں۔ ”بدن دریدہ“ حیرتوں، سوالوں کا ایک مجموعہ ہے جو افلاطون کے ڈائیلاگز کی طرح اپنے اندر ہی اپنے جواب رکھتا ہے۔ یہ مجموعہ کچھ بہت زیادہ باشعور اور میچور سیاسی و سماجی معاملات پہ نہیں ہے۔ یہ اُس کے اپنے اندر کا اظہار ہے۔ یہ ایک شہری کالج لڑکی کی شاعری نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی عورت کی شاعری ہے جو اب شادی شدہ خاتون بن گئی ہے۔ جہاںsexuality  کو زبردستی کے ذریعے سماجی ضرورتوں کا دست نگر بنا دیا گیا ہے۔ سماجی رسوم عورت کی خواہشات کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ مجموعہ ایک عورت شاعرکے دل و دماغ کے عظیم ابھاروں کا اظہار ہے۔ پھر وہ عورت جب ماں بن جاتی ہے تو وہ بہت بڑے جسمانی اورجذباتی تجربات سے گزرتی ہے جنہیں وہ لفظ و شعر کا جامہ پہناتی ہے۔ ایسے تجربات، ایسے موضوعات جو سماج کے اندر منکرات و ممنوعات میں تصور ہوتے تھے۔ اور جب یہ موضوعات ایک عورت کے منہ سے نکلے تو ایک قیامت آ گئی۔ یہاں عورت اپنے بارے میں بڑی بہادری سے بول رہی تھی، اپنے تجربات کے بارے میں بات کررہی تھی‘ اپنے جسم کے بارے میں بتا رہی تھی‘اور اپنے حمل ٹھہرنے کو جسم سے پھوٹنی روشنی قرار دے رہی تھی۔ اُسی دن توگویا اُسے ساری مقدس کتابوں، پیمبروں، بادلوں سے پرے فرشتوں، رنگ، سنگت، سُر، پھول، کلیوں، اشجار، صبح دم پیڑ کی جھومتی ڈالیوں، خیر کے دیوتا، حسن،\"\" نیکی، اورخدا سب پراعتبار آ گیا تھا۔ وہ اپنے حمل کے مراحل بیان کررہی تھی، اپنی زچگی کی مسرتیں، تکلیفیں اور ماں بننے کے احساسِ تفاخر کا اظہار کررہی تھی اور دودھ پلانے کے دوران اپنی پرمسرت روحانی و جسمانی سرگزشت لکھ رہی تھی۔ بدن اپنے معانی اور مفاہیم بدل چکا تھا۔ وہ، وہ معانی و مفاہیم بدل چکا تھا جو اُسے دوسروں نے دے رکھے تھے۔ یعنی یہ کہ ”عورت کمزور ہے، نازک ہے، واہموں کی پروردہ ہے، مصلحت سے ہم بستر ہے، ضعف ویاس کی مادر ہے، جبر و خوف کی دختر ہے، موسموں کی شدت سے پگھل پگھل جاتی ہے“۔ اب، اِس کتاب میں عورت نے دوسروں سے اپنے بارے میں بیان دینے کاحق چھین لیا۔ اب عورت اپنے بارے میں خودبول رہی تھی۔ اب بدنِ زن خود بول رہا تھا۔ زنِ زندہ کا بدن، ایسے انسان کا بدن جہاں کمر لچکیلی نہیں بلکہ دس دس اینٹیں سر پہ اٹھانے والے بوجھ تلے مضبوط ہے۔ جہاں ہاتھ مہندی رچے اور شاہی قالینوں سے بھی نرم نہیں بلکہ اونٹ کے پیر کی طرح سخت اور پیاز و مرچ وہلدی کی بساند لیے ہیں۔ جہاں چہرہ للچاتی بے حیا آنکھوں کی بھوک کی تسکین نہیں کرتا، نہ ہی کمزور ایمانوں کے لئے خطرہ قرار دے کر اُسے اونچی دیواروں اور موٹے برقعوں، ڈبوں میں بند رکھا ہوا ہے، بلکہ یہ چہرہ اب محنت کی بے پردگی کے نور سے منور ہوکر رواں دواں زندگی میں آن موجود ہوا۔ عورت درانتی \"\"تھامے کھیت سنبھالتی ہے۔ چارہ، بھوسہ، اناج۔۔۔۔ اور پھر اس اناج کی پسائی، گوندائی، پکائی تک کے ہر مرحلے پر وہی تو ہوتی ہے۔ مضبوط بیل کی طرح صحت مند، بار بردار گدھے کی طرح سخت جان، اونٹ کی طرح پیاس و بھوک و مشقت کے لئے برداشت بردار، اور اشرف المخلوقات والا دماغ و تخلیقی صلاحیت۔۔۔۔۔ فہمیدہ نے ”صنفِ نازک“ کا لفظ اٹھا کر اس لفظ کے مالک دانشوروں کے منہ پر دے مارا۔ اس نے دنیا کو وہ دنیا دکھا دی جہاں وجودِ زن، کائنات کے رنگ کے علاوہ روٹی روزی کا ضامن بھی قرار پایا۔ اس نے اپنے قارئین کو عورت کی لمبی رانوں سے اوپر، پیچیدہ کوکھ سے بھی اوپر، ‘اور ابھرے پستانوں سے بھی اوپرعورت کا سر دکھایا۔ سر کے اندر کا دماغ، دماغ کا شعور، اورشعور کی بلندی دکھادی۔ اس نے دکھا دیا کہ عورت کے زیرِپستان ایک پارہِ دل بھی ہے، کہ عورت کی لوہا روح بھی ہے، اُس کا نطق گویا بھی ہے، اس کی انگلیوں میں صناعی بھی ہے، اس کے ولولوں میں بے باکی بھی ہے، وہ عشق آشنا، وصل شناسا، اورایک مکمل انسان ہے۔ ….. اور فہمیدہ نے خضداری تلوار کی وارجیسی یہ ساری باتیں نعرے بازی والے اسلوب میں نہیں لکھیں بلکہ یہ سب حقائق اُس نے شعریت اور اس سے وابستہ سارے جمالیاتی ادب آداب کے ساتھ لکھے…. ہر لفظ گویا متعصبین کے گردے میں نوکیلا پتھرتھا۔

جی ہاں، اب عورت بول رہی تھی جو قرنوں سے گنگ دام تھی۔ ایسی عورت جو اگر چرواہی معیشت سے وابستہ تھی تو سوائے ”بھیڑ بکریوں کی زبان“ کے کچھ بول نہیں سکتی تھی، اور اگر زرعی معیشت والی عورت تھی تو پھر وہ تو پردے کے پیچھے سے بھی آواز نہیں نکال سکتی تھی۔ صنعتی شہروں والی عورت کی زبان بھی ساکت تھی، اس کے دست وپا یا تومشقت میں غلطاں تھے یا پھروہ دولت و شہرت کے \"\"کُہر میں ڈوبے شہروں کے بالا خانوں میں شہوت پرستوں کی پہنائی گھنگرو کی آواز میں اپنا نطق کھو بیٹھی تھی۔ علم، ادب، ثقافت اور سیاست کا پورا علاقہ اُس کے لئے ممنوعہ تھا۔

فہمیدہ آئی، لولاک لرزاں آواز ساتھ لے آئی۔ بلند الحان بات لائی، کوہِ شاشان جتنی وزن دار دلیل لائی، جگر بُر طنز وتنقید لائی۔ وہ آئی، دل و دماغ کے ساتھ۔ انسانی خدو خال کے ساتھ، احتجاج و اعتماد کے ساتھ۔ اُس نے مرد اور عورت کے رشتوں کو محض مخالف جنسوں کے بیچ حاکم و محکوم کے بطور نہیں دیکھا۔ بلکہ اس نے مردوزن کے غلام اور آقا کے تصور کو میوزیم کے حوالے کردیا۔ اس نے مرد کو حاکم کے بطور ٹھکرا دیا، اور دوست وہمدرد کے بطور قبول کیا۔ اس نے تو اپنے صنفِ مخالف دوست کے لبوں کے شعلہِ فروزاں کو اپنے سرد ہونٹوں پر سے برفیلے ذرّے چننے کا باعث قرار دیا۔ وہ اُس ہم سرو برابر دوست کے اجالے میں بھیگنے کو انسانیت قرار دیتی ہے۔ ہمہ وقت ایک دوسرے کی آزادی آبادی کے لئے برسرِ پیکار دو حلیفوں والا رشتہ۔

فہمیدہ ہمارے خطے کی کارل ساگاں ہے جس نے تاریکی کے خلاف ہمہ جہتی لڑائی کی۔ ہمارے منطقے میں ظلمت کے خلاف ” جاگتے رہنا“ کی صدا لگانے والوں اور والیوں میں فہمیدہ اول صف میں کھڑی ہے۔ اس نے روشنی کی دشمن تاریکی، سے کبھی کوئی رعایت نہ کی۔ \"\"تاریکی جو جرم بھی ہے اورجرم کی پاداش بھی۔ فہمیدہ نے تاریکی کو، ظلمت کو، اندھیرے کو، اندھیر نگری کوکبھی سکون سے رہنے نہ دیا، اُسے اُس کے حواریوں موالیوں سمیت جھنجوڑ کر رکھ دیا۔

” بدن دریدہ“ ہی کی یہ قصہ خواں ہمیں اُس عجب مملکت کے بارے میں بتارہی تھی جس کے حکمران مدت سے جانور تھے اور جس کی رعایا کو اس کا پتہ تک نہ تھا۔ اور اُسی نے اُس مملکت کے اپنے ہم وطنوں سے رقص کرتے رہنے کی فرمائش کی، غیظ کا رقص، بکھرے ہوئے پندار کا رقص، رنج و رسوائی، امیدِ نگوں کا رقص جس میں مصلحت اندیشی کا پیرہن صد چاک ہوجائے، جہاں اپنے اشکوں کی برستی ہوئی بوچھاڑ میں آیا جائے، جہاں جھجکتے بازو ہوا میں بالآخر لہرا ہی جائیں، جسم رقص کے گرداب میں چکرا چکراجائے۔ …….. اور یہ رقص جب ایک محلے، ایک گاﺅں، ایک شہر کی حدود سے نکل کر حلقہ در حلقہ بھنور بنتا جائے تب نہ صرف جسم و جاں رقص کرتے ہیں بلکہ نطق و زباں رقص کرنے لگتے ہیں۔ یہی رقصِ خلقت تو بھونچال ہوتا ہے تخت و تاج کے لئے۔ تخت برائی ہوتی ہے تاج شیطانیت ہوتا ہے۔

ہم ڈسپلن کے مارے لوگ تو ایسی کوئی بات پڑھ اور بول نہیں سکتے تھے جس کے نتیجے میں ہمیں لا حول و لاقوة بولنا پڑے۔ اس لئے جو \"\"کچھ وہ کہنا چاہتی تھی وہی کچھ ہم نے اس کی اس کتاب میں پڑھا اور سمجھا۔ البتہ جن عِطر زدہ پوشاک والوں کے دل، گوبرِگناہ سے اٹے تھے اُن کو اُس کتاب میں جنس اور عریانیت ہی نظر آئی۔ دنیا بھر میں عقل کے دشمن صرف ایک ہتھیار سے واقف ہیں:”سنگسار، تیل کی کڑاہی میں سر، یہ سزا ‘وہ عقوبت “۔ چنانچہ ملاّ غرّا غرّا کر بولا، پریس شہ سرخیاں چیخا، دانشور قلم کی سیاہ کاریاں کرتا رہا۔ ……..اورزنگ آلود آنکھیں اپنے ہم نواﺅں کی آنکھ بچا بچا کر اُسے پڑھتی رہیں…….. مگر عورت کے دل و دماغ پہ ڈالے سیاہ دبیز کپڑے کو تو فہمیدہ نے نوچ ڈالا تھا۔ پہلا پتھر شیطان کو لگ چکا تھا۔ اب وہ خواہ اپنی مجلسِ شوریٰ بلاتا یا میکارتھی اورنگ زیب اور ضیاءالحق کی ارواح سے المدد المدد پکارتا، فہمیدہ ہر انجام کے لئے تیار بیٹھی تھی۔

ایک انصافی سماج کے قیام کی جدوجہد کرنے والوں کو پتہ ہے کہ حکمت عملی اور داﺅپیچ بہت سنجیدہ موضوع ہوتے ہیں۔ معر وضی حالات کی مناسبت یا غیرموزونیت کی دہائیاں ہم ہر وقت سنتے رہتے ہیں۔ مگر فہمید ہ نئی نسل کو اپنی نظم ” مردمکِ چشم من“میں دلچسپ فرمائش و تاکید کرتی ہے:

اس جہاں میں ضرور بالضر ور\"\"

یاں کہ واں

یا نہاں

رنگ سنہرا بھی ہے

اور جو نہیں ہے تو اس کو خلق کر

بھئی معروض برابر و موزوں نہیں ہو تو کیا معروض کے مہربان ہونے کا انتظار کیا جا ئے ؟۔ معروض کو یہاں وہاں تلاش کر، ضرور موجود ہوگا۔ اور اگر نہیں ہے تو : اُس کوخلق کر۔

اب بھی کوئی پوچھے کہ فہمیدہ کی دانشوری کا حاصل اور عروج کیا ہے تو میں شاید آج بھی یہ کہہ دوں:” بدن دریدہ“۔

یہ بھی درست ہے کہ اس مجموعے پر ملاّﺅں نے، جن میں صحافی اور بیوروکریٹ ملاّ بھی شامل تھے، ایک ہنگامہ کھڑا کردیا۔ ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ نان سٹاپ یک طرفہ فتوے بازی سے فہمیدہ کتنے عرصے تک ذہنی دباﺅ میں رہی ہوگی۔\"\"

پھر بھٹو کی بادشاہی ہوئی۔ کئی سوشلسٹ اپنا فلسفہ، نظر یہ، کمٹ منٹ حتیٰ کہ وقارتک گندگی کے ڈھیر کے حوالے کر گئے، اور گندی مکھیاں بن کر اس کے گرد جمع ہوگئے۔ کئی اچھے مخلص کارکن اس کے نعروں سے دھوکہ کھا کر اپنی صفوں سے بچھڑے‘ اور بھیڑیاﺅں کے غول میں جا ملے۔ مگر فہمیدہ تب بھی بھٹو کے خلاف تھی۔ اس کا یہ خیال ٹھیک نکلا کہ بھٹوسوشلز م کومحض اپنے مقاصد کے لےے استعمال کررہا تھا۔ مگر وہ یہ نہ سمجھ پائی کہ بھٹو ایک نہیں، سینکڑوں ہیں۔ اور سارے بھٹو صرف پیپلز پارٹی میں نہیں ہیں۔ اُسے اندازہ نہ ہوا کہ اور کتنو ں نے سوشلز م کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، استعمال کر رہے ہیں اور استعمال کریں گے !۔

اور پھر اُسی زمانے میں نیپ اور پیپلز پارٹی باہم الجھ پڑے۔ اور بلوچستان میں جنگ شروع ہوگئی۔ فہمید ہ کیا کرتی؟۔ یہاں تیسری دنیا میں چوائس کبھی زیادہ میسر نہیں ہوتے۔ فہمید ہ فوج کا ساتھ نہیں دے سکتی تھی، چنانچہ آٹو میٹک طورپر شرائط کے بغیر بلوچستان کے ساتھ ہوگئی۔ نیپ کی داخلی کمزوریوں اور کھوکھلے پن سے بے خبر سُچی سچی فہمیدہ بلوچوں کی طرفداری میں سارا ملک پھرتی رہی۔ وہ کوئٹہ آئی؛ جیل میں گل خان نصیر سے ملی۔ اور پھراس نے ادیبوں کی ایک ملک گیر دستخطی مہم شروع کردی۔ وہ اس سلسلے میں پنجاب بھی گئی مگر اسے پذیرانی نہ ملی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments