کیا پاکستان میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اضافہ، نئی ملازمتیں بھی پیدا کر رہا ہے؟


صنعتیں
اسامہ امجد پیشے کے لحاظ سے انجینیئر ہیں۔ انھیں کراچی میں گاڑیوں کی باڈی اور سپیئر پارٹس بنانے والی لسٹڈ کمپنی ’لوڈز لمیٹڈ‘ میں حال ہی میں اسٹنٹ منیجر پروڈکشن پلاننگ میٹریل کی ملازمت ملی۔ کمپنی کی جانب سے ملازمتوں کا اشتہار شائع ہونے کے بعد اسامہ نے اس ملازمت کے لیے اپلائی کیا اور وہ اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

لوڈز لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر منیر کے بانا نے بتایا کہ ان کی کمپنی کے تین پلانٹس اس وقت کام کر رہے۔ ایک پلانٹ کراچی کے کورنگی انڈسٹریل ایریا اور دو پورٹ قاسم میں واقع ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد جب آٹو سیکٹر کی سیلز میں اضافہ ہوا تو گاڑیوں کے سپیئر پارٹس بنانے کی انڈسٹری میں بھی کام کی رفتار بڑھی۔

بانا نے کہا کہ ان کے تین پلانٹس میں دو ہزار سے زائد افراد کام کرتے ہیں۔ کام بڑھنے کی وجہ سے انھیں نئی افرادی قوت کی ضرورت پڑی تو انھوں نے مزید افراد کو مخلتف شعبوں میں بھرتی کیا۔

بانا نے بتایا کہ انھوں نے گذشتہ چند مہینوں میں ڈھائی سو کے قریب افراد کو ٹیکنیکل شعبوں میں بھرتی کیا۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا سے پاکستان میں ایک کروڑ افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ

جی ڈی پی میں بہتری کی پیش گوئی، کیا یہ پاکستانی معیشت کی اصل عکاس ہے؟

کیا پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت عالمی سطح پر انڈیا کی جگہ لے رہی ہے؟

اسامہ کو نئی ملازمت ایسے وقت میں ملی جب کورونا وائرس کی پہلی لہر کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد کاروباری سرگرمیاں بڑھیں۔

اس سے پہلے کورونا کی وبا کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤن کے دوران ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ صنعتی پیداوار بند رہی۔

آٹو سیکٹر کے دوسرے کارخانوں کی طرح انڈس موٹرز کو بھی مارچ تا اپریل کے دوران بندش کا سامنا کرنا پڑا اور دوسری کمپنیوں کے پیداواری یونٹس کی طرح یہ بھی بند رہی تاہم لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد شرح سود میں کمی اور بینکوں کی جانب سے آٹو فنانسنگ کی فراہمی کی وجہ سے گاڑیوں کی مانگ میں اضافہ دیکھا گیا۔

صنعتیں

بالخصوص کورونا کی وبا کی وجہ سے بیرون ملک آمدورفت مشکل ہونے کی وجہ سے اندرون ملک سیاحت کو فروغ ملا۔ اندرون ملک آمدورفت کے لیے نئی گاڑیوں کی طلب بالخصوص ایس یو ویز کی مانگ تیزی سے بڑھی جس نے کمپنی کی سیلز میں بھی اضافہ کیا۔

پاکستان میں لاک ڈاؤن کے بعد بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اضافہ صرف آٹو سیکٹر تک محدود نہیں رہا بلکہ دوسرے شعبوں کی پیداوار میں بھی اضافہ دیکھنے میں ملا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس برس نومبر کے مہینے میں لارج سکیل مینوفیکچرنگ یعنی بڑی صنعتوں کی پیداوار میں گذشتہ برس کے اس مہینے کے مقابلے میں 14.5 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر کے سماجی ویب سائٹ پر ٹویٹ کے مطابق جولائی سے نومبر کے عرصے میں پچھلے سال کے اس عرصے کے مقابلے میں لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں 7.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یاد رہے ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاؤن نے پیداواری سرگرمیوں کو شدید متاثر کیا تھا جس کی وجہ سے گذشتہ مالی سال کے اختتام پر بڑے صنعتی شعبے کی پیداوار میں دس فیصد کمی دیکھنے میں آئی تھی۔

کورونا وائرس کی پہلی لہر پر قابو پانے کے بعد اس برس جولائی کے مہینے میں پیداواری شعبے میں بہتری کے آثار پیدا ہونا شروع ہوئے۔

پاکستان میں منصوبہ بندی و ترقی کے وفاقی وزیر اسد عمر نے بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اضافے کو اپنے ٹوئٹر اکاونٹس میں اجاگر کیا ہے تو دوسری جانب پاکستان میں معیشت کے ماہرین بڑے صنعتی شعبے کی پیداوار میں اضافے کو ملکی اقتصادیات کے لیے خوش آئند قرار دیتے ہیں اور اس میں اضافے کو اندرون و بیرون ملک بڑھتی طلب سے جوڑتے ہیں تاہم بڑے پیداواری شعبے میں ترقی کی وجہ سے نئی ملازمتوں کے زیادہ بڑی تعداد میں پیدا ہونے کے امکان کو مسترد کرتے ہیں۔

ان کے مطابق اس چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعت میں ترقی اور اضافہ نئی ملازمتوں کے پیدا کرنے میں زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔

صنعتیں

پاکستان میں بڑا پیداواری شعبہ کن صنعتوں پر مشتمل ہے؟

پاکستان میں ادارہ شماریات کے مرتب کردہ انڈیکس کے مطابق سٹیل، آٹو، پیٹرولیم، ٹیکسٹائل، شوگر، فرٹیلائزر، کیمیکل، ادویہ سازی، فوڈ اور بیوریج اور کچھ دوسرے شعبوں کی صنعتیں بڑے پیداواری شعبے میں شامل ہیں۔

اس انڈیکس میں شامل صنعتوں کے پیداواری اعداد و شمار آئل کمپنیز ایڈوائزری کمیٹی، وزارت صنعت اور صوبوں کے ادارہ شماریات کی جانب سے فراہم کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کے صنعتی شعبے میں بڑا پیداواری شعبہ ملک کے مجموعی پیداواری شعبے کا اسی فیصد ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر کے مہینے میں گاڑیاں اور مؤثر سائیکل تیار کرنے کے شعبے میں زبردست تیزی دیکھنے میں آئی تو اسی طرح سیمنٹ کی پیداوار میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں بھی پیداوار میں اضافہ دیکھنے میں ملا۔

پیداواری شعبے میں اضافہ کیا حقیقی ہے؟

ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں کورونا کی وجہ سے پیداواری سرگرمیاں متاثر ہوئیں اور معیشتوں کی بحالی کے لیے کوششیں جاری ہیں، پاکستانی معیشت کے بڑے پیداواری شعبے میں نمایاں اضافہ ایک مثبت پیشرفت ہے تاہم کیا حکومت کے ادارے کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔

اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ ان اعداد و شمار پر اعتبار کیا جا سکتا ہے اور اب تک کوئی ایسی شکایت نہیں ملی کہ کسی حکومت نے بڑے صنعتی پیداواری شعبے کے اعدادوشمار کو اقتصادی محاذ پر کامیابی قرار دینے کے لیے توڑ مروڑ کر پیش کیا ہو۔

انھوں نے کہا کہ اس شعبے میں ہونے والے موجودہ اضافے کی وجوہات بہت ظاہری ہیں جن کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ اس شعبے کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے۔

انھوں نے سیمنٹ کے شعبے میں ہونے والے پیداواری اضافے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں نمایاں حصہ حکومت کے تعمیراتی شعبے کے لیے مراعاتی پیکج نے ڈالا جس کی وجہ سے تعمیراتی سرگرمیوں کو فروغ ملا اور سیمنٹ کی فروخت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ٹیکسٹائل مصنوعات کی پیداوار میں بھی اندرون و بیرون ملک طلب میں اضافہ دیکھنے میں آرہا جس کی وجہ سے ان کی پیداوار بڑھی۔

گاڑیوں کی پیداوار اور فروخت میں اضافے پر بات کرتے ہوئے فرخ سلیم نے کہا کہ اس کی وجہ تو بہت نمایاں ہے کہ پاکستان میں امیر افراد کی دولت میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جبکہ دوسری جانب مڈل کلاس طبقہ تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ امیر طبقہ گاڑیوں پر زیادہ خرچ کر رہا ہے جو اس شعبے کی کارکردگی میں بہتری لا رہا ہے۔

صنعتیں

ماہر معیشت مزمل اسلم نے بھی بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اضافے کے اعداد و شمار کو صحیح قرار دیتے کہا کہ اس کی وجوہات بہت سادہ اور سیدھی ہیں۔

پاکستان میں کورونا وائرس کی وجہ سے کاروبار کو پہنچنے والے نقصان کے بعد اس کی تلافی کے لیے ایک تو شرح سود میں نمایاں کمی کی گئی جس میں کاروبار کے لیے سرمائے کو سستا بنایا تو دوسری جانب وزیر اعظم کے تعمیراتی شعبے کے لیے مراعاتی پیکج نے بھی بہت مدد فراہم کی۔‘

مزمل اسلم نے کہا کہ اس وقت صنعتی اور زرعی شعبہ سب سے زیادہ فائدے میں ہیں کیونکہ دونوں کی مصنوعات کی مارکیٹ میں طلب بھی ہے اور انھیں اچھی قیمت بھی مل رہی ہے۔

بڑا پیداواری شعبہ کیا کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھ پائے گا؟

بڑے پیداواری شعبے کی کارکردگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے مزمل اسلم نے کہا کہ اگر یہی صورت برقرار رہی تو پیداواری شعبے میں مزید نمایاں بہتری آنے کی امید ہے۔ ان کے تخمینے کے مطابق موجودہ مالی سال کی آخری سہ ماہی میں لارج سکیل مینوفیکچرنگ پندرہ سے سولہ فیصد بڑھنے کی امید ہے۔

مزمل نے کہا کہ ڈیمانڈ بڑھی ہے اور مزید بڑھ رہی ہے جو بڑے پیداواری شعبے کی مصنوعات کی تیاری کو مزید بڑھاوا دے دی گی۔

ڈاکٹر فرخ سلیم بھی اس سلسلے میں پر امید ہیں کہ اس شعبے کی پیداوار مزید بڑھے گی جس کی وجہ مزید طلب میں اضافہ ہے تاہم وہ اس بڑے پیداواری شعبے کی بڑھی ہوئی کارکردگی پر حکومتی دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں کہ پاکستانی معیشت میں بہتری پیدا ہو چکی ہے۔

فرخ نے کہا کہ ’یہ حکومت کبھی ایک معاشی اشاریے کو دکھا کر کہتی ہے کہ دیکھیں ہم نے معیشت ٹھیک کر دی ہے تو کبھی دوسرے کو پیش کر کے اپنی کارکردگی پر ڈھنڈورا پیٹتی ہے تاہم ملکی کی مجموعی جی ڈی پی جو معیشت کا کلیدی اشاریہ ہے وہ ابھی تک بحال نہیں ہو سکی اور ہم ابھی تک اس میں اضافے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔‘

پاکستان نے موجودہ مالی سال میں جی ڈی پی میں اضافے کا ہدف 2.1 فیصد رکھا ہے جو گذشتہ مالی سال میں کورونا کی وجہ سے ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے منفی چار فیصد تک گر گئی تھی۔ پیداواری شعبے کی کارکردگی کی بنیاد پر حکومت اب جی ڈی پی میں 2.5 فیصد اضافے کی توقع کر رہی ہے۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے سابق سینیئر نائب صدر حنیف گوہر نے کہا کہ بڑے صنعتی شعبے کی کارکردگی میں بہتری کی وجہ تعمیراتی پیکج ہے جس نے سیمنٹ اور سٹیل انڈسٹریز کی مصنوعات کی فروخت میں اضافہ کیا۔ انھوں نے امید کا اظہار کیا کہ یہ رجحان مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔

صنعتیں

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں اضافے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ مالی سال کے پہلے چار ماہ میں جو اضافہ دکھایا جارہا ہے وہ گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں دکھایا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا اگر حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو یہ کوئی اضافہ نہیں کیونکہ تین سال پہلے کے مقابلے میں تو یہ اضافہ نہیں کم ہی دکھائے گا۔ انھوں نے کہا کہ جو اضافہ ہوا وہ بھی صرف چند شعبوں میں ہے جو لارج سکیل مینوفیکچرنگ کا صرف 20 فیصد ہے جبکہ 80 فیصد تو ابھی تک متحرک نہیں ہو پایا۔

ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ اس شعبے میں گروتھ محدود ہے اور وہ بھی گذشتہ سال کے مقابلے میں ہے کہ جب اس شعبے میں گروتھ منفی تھی۔

بڑے صنعتی شعبے کی پیداوار میں اضافہ کیا نئی ملازمتیں پیدا کر رہا ہے؟

پاکستان میں کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاؤن نے معیشت کو شدید متاثر کیا جس کے نتیجے میں دو کروڑ سے زائد افراد ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق تقریباً 70 لاکھ افراد کی آمدن میں بھی کمی واقع ہوئی۔ ادارہ شماریات کے مطابق صنعتی، زرعی، ہول سیل، تعمیراتی، ٹرانسپورٹ اور دوسرے شعبوں کے متاثر ہونے کی وجہ سے ملازمتیں ختم اور آمدن میں کمی واقع ہوئی۔

بڑے صنعتی شعبے کی پیداوار میں اضافہ اور نئی ملازمتوں کے پیدا ہونے کے درمیان تعلق پر بات کرتے ہوئے حنیف گوہر نے کہا حکومت کا ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ انڈسٹری کی پیداوار میں اضافے کی بنیاد پر پورا ہو سکتا ہے۔

تاہم سرکاری ادارے پاکستان انسٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے سابقہ وائس چانسلر ڈاکٹر راشد امجد نے کہا لارج سکیل مینوفیکچرنگ چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے مقابلے میں کم ملازمتیں پیدا کرتا ہے۔

انھوں نے کہا مینوفیکچرنگ کا ملک کی کی جی ڈی پی میں بارہ سے چودہ فیصد حصہ ہے اور اس میں 80 فیصد لارج سکیل مینوفیکچرنگ ہے تاہم انھوں نے کہا یہ دیکھنا پڑے گا کہ اس شعبے میں کیا نئی سرمایہ کاری یا توسیع ہوئی ہے جس کی بنیاد پر نئی ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں۔

ڈاکٹر امجد نے کہا کہ لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں بڑے صنعتی یونٹ ہوتے ہیں جہاں زیادہ تر مشینوں پر کام ہوتا ہے اور افرادی قوت کی کم ضرورت ہوتی ہے۔ انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکسٹائل کے شعبے میں سپنگ اور ویونگ میں مشینوں پر کام ہوتا ہے البتہ گارمنٹس کے شعبے میں ترقی سے نئی افرادی قوت کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

ڈاکٹر راشد نے بتایا کہ ملازمتیں اس وقت ہی پیدا ہوں گی جب مجموعی طور پر جی ڈی پی میں اضافہ ہو گا۔ ان کے مطابق اگر جی ڈی پی دس فیصد بڑھے تو 4.5 فیصد job elasticity یعنی جی ڈی پی کے مقابلے میں نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔

انھوں نے کہا مشرف دور کے بعد نو دس فیصد گروتھ کے بعد اس شعبے میں اضافہ حوصلہ افزا ہے تاہم لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں اضافہ بہت زیادہ ملازمتوں کو پیدا نہیں کرتا۔

’آنے والے دنوں میں معیشت میں دو فیصد اضافہ ہو گا‘

وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ جہاں باقی دنیا میں معیشت سکڑ رہی ہے وہیں پاکستان میں ہمارا اندازہ ہے کہ آنے والے دنوں میں معیشت میں دو فیصد اضافہ ہو گا۔

انھوں نے کہا ’اس دو فیصد کے اضافے کی وجہ صنعت اور خاص طور سے بڑی صنعت یعنی لارج سکیل مینیو فیکچررز ہے۔ اس میں ہمیں پچھلے سال نومبر میں ساڑھے چودہ فیصد نمو نظر آئی۔ یہ اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور مسلم لیگ نون کی حکومت سے تو کہیں زیادہ فرق نظر آرہا ہے اور متواتر اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس وقت ہم ٹیکسٹائل، سیمنٹ، فارماسوٹیکل اور تعمیراتی سیکٹر میں بہت ترقی دیکھ رہے ہیں۔‘

لیکن اس دوران لوگوں کو نوکریاں کیسے دے پائیں گے؟

وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے کہا ’ہم نے پہلے ایک بہت بڑا ڈِپ دیکھا جب کووڈ کی وبا پھیلی اور اس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن کرنا پڑا۔ پھر ہماری ریکوری وی شیپ میں ہوئی یعنی پہلے بالکل حالات خراب ہوئے، ہم نے صنعتوں کے لیے کامیاب پیکجز متعارف کرائے اور پھر دوبارہ سے معیشت کو مدد ملی اور بند صنعتیں چل پڑیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن لوگوں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے ان نوکریوں کی بھی رویکوری ہو گئی۔

’یہ نوکریاں ہم نے ٹیکسٹائل کے شعبے اور سیمنٹ یا تعمیراتی سیکٹر میں سب سے زیادہ متعارف کروائیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32300 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp