کیا انگریزی سے ناواقفیت بے عزتی کی بات ہے؟


کچھ دیر پہلے ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں اسلام آباد کے ایک کیفے کی دو مالکان اپنے مینجر سے انگریزی میں بات کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ وہ منیجر سے پوچھتی ہیں کہ تمہیں یہاں کام کرتے ہوئے کتنا عرصہ ہو گیا ہے اور کتنے عرصے میں اس نے انگریزی بولنا سیکھی؟ مینجر جواب دیتا ہے کہ اسے وہاں کام کرتے ہوئے 9 سال ہو گئے ہیں اور اس نے انگریزی سیکھنے کے لیے تین ماہ کی کلاس تین دفعہ لی ہے۔ جس پر اسے کہا جاتا ہے کہ وہ انگریزی میں بات کر کے اپنا تعارف کروائے۔ مینجر بیچارہ بمشکل دو، تین الفاظ ہی ٹوٹے پھوٹے انداز میں بول پاتا ہے۔ جس پر وہ خواتین خوب قہقہے لگاتی نظر آتی ہیں۔

ان خواتین کے اس تضحیک آمیز رویے پر سوشل میڈیا پر کافی تنقید کی جا رہی ہے۔ اور ان کے کیفے کے بائیکاٹ کرنے کا بھی کہا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے اس پر یہی ردعمل آنا تھا جو آ رہا ہے۔ مگر اصل معاملہ یہ ہے کہ اس رویے کی وجہ تلاش کی جائے۔ کیونکہ یہ رویہ صرف ان دو خواتین تک محدود نہیں ہے۔ اس رویے کا شکار ہماری زیادہ تر ایلیٹ کلاس ہے۔ جسے انگریزی زبان میں بات کرنا قابل فخر لگتا ہے اور اپنی زبان میں بات کرتے ہوئے شاید ان اتنا اچھا نہیں لگتا۔ اس میں ایلیٹ کلاس کی سوچ کا قصور تو ہے ہی کہ ان کو شروع سے ہی جب انگریزی میڈیم سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے تو وہاں سے ان میں ہی ایک احساس برتری پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

مجھے اس بات کا احساس تب ہوا جب میں گاؤں کے سکول میں چھٹی جماعت تک پڑھنے کے بعد شہر کے ایک انگریزی میڈیم سکول میں داخلہ کے لیے گیا۔ میں نے انگریزی صرف چھٹی کلاس میں ہی پڑھی تھی اور تب مجھے صرف اے بی سی لکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا تھا۔ جب ان شہر والے سکول والوں نے میرا داخلہ ٹیسٹ لیا تو میں اس میں فیل ہو گیا۔ سکول کے پرنسپل نے کہا کہ مجھے تو انگریزی نہیں آتی اس لیے وہ مجھے اپنے سکول میں داخلہ نہیں دے سکتے تھے۔ تب مجھے بہت برا محسوس ہوا۔ مگر اس سکول کے پرنسپل، فیملی کے ایک عزیز کے دوست تھے جن کے کہنے پر انہوں نے مجھے تین ماہ کا وقت دے دیا۔

کہ اگر میں اس عرصہ میں انگریزی میں کوئی بہتری دکھا سکا تو وہ مجھے آگے وہاں پڑھنے دیں گے ورنہ مجھے کسی اور سکول میں داخل کروادیا جائے۔ میرے لئے یہ تین ماہ کسی چیلنج سے کم نہیں تھے۔ کیونکہ مجھے اس قلیل عرصہ میں جہاں انگریزی لکھنا، پڑھنا سیکھنا تھا وہاں اپنے کلاس فیلوز کے تضحیک آمیز رویہ کو بھی برداشت کرنا تھا۔ جو مجھے اس لیے جاہل اور گنوار سمجھتے تھے کہ مجھے انگریزی نہیں آتی تھی۔ اور ان میں سے بیشتر کا یہ خیال تھا کہ میں تین ماہ کے بعد کے ٹیسٹ میں فیل ہو کر وہاں سے چلا جاؤں گا۔ مگر میری یہ خوش قسمتی تھی کہ مجھے ایک بہت اچھے استاد اور گھر میں ایک کزن کا ساتھ مل گیا۔

میں نے ان کی مدد سے نا صرف وہ ٹیسٹ پاس کیا بلکہ میٹرک تک کلاس میں انگریزی میں ٹاپ کرتا رہا۔ اور انگریزی کی ایسی بنیاد بنی کہ مجھے آگے کالج، یونیورسٹی میں بھی انگریزی پڑھنے یا لکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ پرونشل مینجمنٹ سروس کا تحریری امتحان بھی پاس کیا۔ جہاں تک انگریزی بولنے کا تعلق ہے تو اس میں بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ ایک سرکاری ادارے میں نوکری کے دوران بارہا دفعہ باہر کے ممالک سے آنے والے مندوبین کے ساتھ انگریزی میں بات چیت کرنے کا موقع ملتا رہا۔ اس سب کے باوجود، میں نے ہمیشہ اپنی مادری پنجابی زبان پر فخر محسوس کیا۔

اپنے گھر والوں، خاندان، دوستوں سب کے ساتھ اب بھی مجھے پنجابی میں بات کر کے ہی اچھا محسوس ہوتا ہے۔ جب لکھنے کا آغاز کیا تو انگریزی پر اردو کو اس لیے فوقیت دی کہ اردو سمجھنے والے لوگ زیادہ ہیں اس لیے اپنے بلاگز کی صورت میں دیا گیا پیغام زیادہ لوگوں تک پہنچ پائے گا۔ ایف سی کالج میں ایم فل کے دوران کلاس میں جہاں سب انگریزی میں بات کرتے تھے، میں نے وہاں بھی اردو میں بات کرنے میں کبھی کوئی جھجک محسوس نہیں کی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے اور اس کو سیکھنا وقت کی ضرورت ہے۔ مگر اس کو سیکھ کر کسی احساس برتری کا شکار ہوجانا اور دوسروں کو اس کی وجہ سے تضحیک کا نشانہ بنانا انتہائی غلط عمل ہے۔

اسی طرح انگریزی نہ آنے کی صورت میں بلا وجہ خود کو احساس کمتری میں مبتلا رکھنا بھی غلط ہے۔ کیونکہ اتنے سال پہلے انگریزوں کے چلے جانے کے بعد بھی شاید ان کی زبان کو لے کر ہمارا احساس کمتری ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔ اور اس کا اظہار ہماری بنیادی تعلیم میں بھی نظر آتا ہے۔ جہاں دنیا کے کئی ممالک میں بچوں کو پرائمری تک تعلیم ان کی مادری زبان میں دی جاتی ہے ہمارے ہاں وہاں بھی انگریزی کو ہی گھسا دیا گیا ہے۔ خاص طور پر پنجاب میں یہ صورت حال بہت عیاں ہے۔ کیونکہ باقی تینوں صوبوں میں پھر بھی پرائمری تک مادری زبان پڑھائی جاتی ہے۔

اس سے شاید یہی محسوس ہوتا ہے کہ اپنی مادری زبان کے حساب سے پنجابی احساس کمتری کا زیادہ شکار ہیں اس سوچ کو اب بدلنا ہوگا۔ ہمیں خود کو انگریزی کے اس زعم سے آزاد کرنا ہوگا۔ کہ اگر کسی کو اچھی انگریزی لکھنا اور بولنا آتا ہے تو وہ بہت قابل ہے۔ قابلیت کا معیار کسی بھی انسان کا کام ہونا چاہیے نہ کہ کسی ایک خاص زبان سے شناسائی اور اس میں مہارت ہونا ہونا۔ اس کے ساتھ ہمیں اپنی مادری زبانوں کو عزت دینا سیکھنا ہوگا۔ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے تب تک اسلام آباد کیفے جیسے واقعات ہوتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).