نااہل محبت کرنے والے کی سزا
شبِ مہ تاب تھی۔
وہ چھت کی منڈیر پر کہنیاں ٹکائے، خلا میں تکتے، زیرِلب کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ زینے کے آخری سرے سے آتی، ساٹھ واٹ کے بلب کی روشنی، اس کے دِل کش چہرے پہ پڑ رہی تھی؛ جب کہ دائیں ہاتھ کی دیوار پہ اُس کا سایہ۔
جتنا وہ وجیہہ تھا، اس کا سایہ اتنا ہی مضحکہ خیز لگ رہا تھا۔
میرے لیے ہنسی کو ضبط کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
اور میرا سارا دھیان، اس کے سائے پر تھا، جو اس کی حرکت کے ساتھ بدلتا جاتا تھا۔۔۔ سو میں سن کر بھی سمجھ نہ پائی، کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
یک دم اس نے رخ بدلا، اور میرے قریب آ کے کہا، ”تم سمجھ رہی ہو، ناں؛ مجھے کیسی لڑکی پسند ہے؟“
میں نے بنا سمجھے اثبات میں سر ہلایا؛ ساتھ ہی کنکھیوں سے دیوار کی طرف دیکھا۔
اس بار میں ضبط نہ کر سکی، اور میرا قہقہہ نکل گیا؛ اُس کی نوکیلی ناک کا سایہ دیوار سے چپکا تھا۔
دِل نے چاہا، کہ اسے بتا دوں، وہ طلسمی داستانوں کی جادوگرنی کا سا دِکھ رہا ہے، مگر اس دوران اس کے چہرے کی رنگت بدل چکی تھی۔
”میں نے پہلے ہی کہا تھا۔۔ تم میرا انتخاب ہو ہی نہیں سکتیں۔۔ مجھے تمھارا یہ فضول ہنسی مذاق، اور بچکانہ پن زرا نہیں پسند۔“ اُس نے زہر بھری سرگوشی کی، جس سے میری ہنسی گھائل ہو گئی۔
”ٹھیک ہے۔۔ تو پھر یہ لو۔“
ایسا کہتے میں نے چھت پر پڑے چونے کا پتھر اٹھایا، اور دیوار پہ اسی جگہ، جہاں اس کی ناک کا سایہ تھا، نوکیلی سطریں کھینچ دیں۔
اور زینہ اُتر گئی۔
فرحانہ صادق؛ کراچی۔ پیشے کے لحاظ سے معلمہ ہیں۔ سوشل میڈیا نے جہاں بہت سوں کو نمایاں کیا، انھی میں ایک نام فرحانہ کا ہے۔ ان کے قلم سے نکلے افسانے \’\’اُلٹی شلوار\’\’ نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ کئی ایک نے اسے منٹو کا افسانہ کہہ کر آگے بڑھایا۔ فرحانہ کی تحریروں سے جھلکتا ہے، کہ یہ ایک الگ دُنیا کی طلب گار ہیں۔ ایسی دُنیا جہاں عورت کی اپنی شناخت ہو، اسے مرد کی جاگیر نہ سمجھا جائے۔ زیرِ نظر تحریر میں فرحانہ نے ایک ایسی عورت کو دکھایا ہے، جسے پنجرے سے نسبت نہیں۔
- وجاہت مسعود کے نام کھلا خط ۔۔۔ - 27/04/2017
- ظ سے زفر کا خاکہ - 20/01/2017
- نااہل محبت کرنے والے کی سزا - 23/12/2016
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).