عام آدمی کا سماجی شعور اور غلام عباس


عام لوگوں کی زندگیوں کو موضوع بنانا بظاہر آسان ہوتا ہے، لیکن ان کی زندگی کی روح کو درست طور پر مشاہدہ کر کے رقم کرنا اچھا خاصا مشکل کام ہے۔ اس کے لیے لکھنے والے کو عام لوگوں کی زندگی کو قریب سے دیکھنا، محسوس کرنا ہوتا ہے بلکہ پختہ ادراک کے لیے تو ان کی زندگی کو اپنے اوپر بِتانا پڑتا ہے۔

غلام عباس کی کہانیوں میں جہاں عام لوگوں کی زندگی اپنے پورے طور پر چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہے، وہیں ان کی کہانیوں میں ایک آدرشی زندگی کا شعور بھی نظر آتا ہے، پہلے ہم یہاں ن۔ م راشد کی بات کا حوالہ دیں گے پھر غلام عباس کے بارے میں ان کے افسانوں کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کریں گے، لکھتے ن م  راشد لکھتے ہیں:

”غلام عباس محض چھوٹے آدمی کا داستان گو ہے، اسے کبھی وہ شہر کے کسی دور افتادہ محلے میں جا ڈھونڈتا ہے اور کبھی کسی گاوٴں سے جا نکالتا ہے۔ سب سے پہلے اس کے گردوپیش کی تصویر کھینچتا ہے۔ کیونکہ اس کے لیے یہ تصور کرنا بھی ممکن نہیں کہ کوئی انسان ماحول سے الگ تھلگ اپنے اندر ہی زندگی بسر کر رہا ہو، اس کا کوئی کردار اپنے آپ میں سر مست نہیں بلکہ اپنے ماحول کا لازمی جزو ہے۔“

ن۔ م راشد کی طرح چند ایک ناقدین نے بھی غلام عباس کو ”محض چھوٹے آدمی کا داستان گو“ ہونے تک محدود رکھا ہے۔ میرے خیال میں کلیتاً یہ رائے غلام عباس کے بارے میں درست نہیں ہے، یہ بات اپنی جگہ پر صاد معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے عام آدمی کی زندگی و مسائل کو موضوع بنایا مگر جب ہم ان کا نمائندہ افسانہ ”اوورکوٹ“ پڑھتے ہیں تو اسی عام آدمی کا خارجی روپ، کیا اس کے اپنے معاصر سماجی شعور کی عکاسی کرتا نظر نہیں آتا؟

مجھے تو ان کے اس افسانے میں وہ عام آدمی اپنے معاصر سماج سے شعوری سطح پر متاثر دکھائی دیتا ہے اور وہی روپ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے معاصر سماج کے خاص لوگوں کی زندگیوں کا خاصا ہوتا ہے۔ جہاں یہ افسانہ عام آدمی کے مزاج کو سامنے لاتا ہے ، وہیں اس میں ایک گہرا سماجی شعور بھی پنہاں ہے جو کہ اس افسانے کے مرکزی کردار سے واضح ہے۔

ہم نے یہاں غلام عباس کے محض ایک افسانے کی مثال دی ہے، اس تناظر میں دیکھیں تو آپ کو ان کے سبھی افسانوں کے عام کردار ایسے ہی اپنے معاصر سماجی شعور کے عکاس نظر آئیں گے، غلام عباس کی کہانیوں کے موضوعات جہاں منفرد ہوتے ہیں، وہیں ان کی کہانی کا ہر کردار اپنی فکری بنت میں بھی ایک گہرے سماجی شعور کا آئینہ دار نظر آتا ہے۔

ان کے ہاں سماج کے کسی ایک خاص طبقے یا ایک خاص فرد کی بات نہیں ہوتی بلکہ انہوں نے اپنی کہانیوں میں سماج کے مختلف طبقات اور افراد کو جگہ دی ہے۔ ایک کمال بات جو میں نے غلام عباس کے ہاں دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ وہ سماج کے رجحانات اور معیارات کو اپنی کہانیوں میں کرداروں کے ذریعے سامنے لاتے ہیں، اور اسی بات کو میں نے افسانہ ”اوورکوٹ“ کے حوالے سے ”معاصر سماجی شعور“ کا نام دیا ہے۔

غلام عباس نہایت آہستہ رو لکھاری ہیں ، وہ اپنے قلم کو سماجی شعور سے دھیمے دھیمے مملو کرتے نظر آتے ہیں، جب انہیں کسی بات کا پورا ادراک ہو جاتا تب وہ اس موضوع پر قلم اٹھاتے۔ ان کی کہانیوں کی قرآت سے ان کا رویہ بالعموم معاصر تقاضوں کی تعمیر کا نظر آتا ہے۔ وہ زندگی کو زندگی واسطے اچھی طرح سوچ سمجھ کر لکھنے والے انسان تھے، سر راہ سماجی شعور کے حوالے سے غلام عباس کے بارے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی کی بات یاد آ گئی، رقم کیے دیتا ہوں، لکھتے ہیں :

”غلام عباس کے پاس سماجی شعور کی گہرائی موجود ہے اور وہ نظام اقدار کی کیفیت طبقاتی تفریق غربت اور افلاس اور ایک نئے نظام کے قیام کو پوری طرح سمجھتے ہیں۔“

عبادت صاحب کی اس بات سے غلام عباس کے ہاں جہاں سماجی شعور کی گہرائی کا پتا چلتا ہے ، وہیں یہ نکتہ بھی سامنے آتا ہے کہ ان کے ہاں طبقاتی تفریق کے باعث ایک نئے نظام کے قیام کی بات بھی کی گئی ہے۔ غلام عباس نے انسانی زندگی کے جو موضوعات اپنی کہانیوں کے لیے منتخب کیے، ان موضوعات کے سبھی کردار فعال نظر آتے ہیں، جن کرداروں میں جمود ہو، کیا وہ خاص لوگوں کی زندگیوں کا حصہ ہوتے ہیں؟ ایسا بالکل نہیں، خاص لوگوں کی زندگی ہی دراصل فعال و متحرک پن سے عبارت ہوتی ہے، تو اس تناظر میں غلام عباس کو محض عام آدمی کا داستان گو کہنا کچھ مناسب نہیں۔

انہوں نے عام آدمی کی زندگی کو ایک فعال کردار کے طور پر پیش کیا اور اس کے فعال پن میں اس کردار کا اپنا معاصر سماجی شعور نظر آتا ہے، اسی ذیل میں دیکھیں تو تب وہ کردار محض عام آدمی کا کردار نہیں رہتا بلکہ وہ کردار اپنے معاصر تقاضوں سے شعوری طور پر متاثر دکھائی دیتا ہے۔ ہم یہاں ان کے ایک اور افسانے ”فینسی ہیئر کٹنگ سیلون“ کے بارے میں بات بھی اسی سماجی شعور کے حوالے سے کریں گے، اس افسانے کا مرکزی خیال کچھ یوں ہے کہ چار مہاجر ایک حمام کی دکان کھولتے ہیں وہ تمام معاملات میں برابر ہوتے ہیں اور آمدنی بھی برابر بانٹنے لگتے ہیں، جب دکان چل نکلتی ہے تو انہیں اپنے ذاتی معاملات یاد آنے لگتے ہیں، بالآخر معاملہ گمبھیر صورت اختیار کر جاتا ہے۔

اگر ہم اس پر غور کریں تو ”چار مہاجر“ سے مراد ملک کے ”چار صوبے“ بھی تو ہو سکتے ہیں اور ”حمام کی ایک دکان“ سے مراد ملک ”پاکستان“ بھی ہو سکتا ہے، اور پھر مطلب پاکستان کے چاروں صوبوں کے لوگوں کو اپنی اپنی فکر پڑ جانا اور سارے سماج (پاکستان) کو ”ایک“ نہ سمجھنا، اس کہانی سے غلام عباس کی علامتی فکری اپج جہاں ایک شاندار طریقے سے دکھائی دیتی ہے وہیں وہ اس سماج کے لوگوں پر گہرا طنز بھی کرتے ہیں۔ اس کہانی میں غلام عباس کا سماجی شعور ایک گہری معنویت لیے سامنے آتا ہے۔ اس کہانی میں بظاہر تو عام لوگوں کے مسائل پر بات کی گئی ہے، مگر آپ غلام عباس کی اس کہانی میں اتر کر دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے وہ عام آدمیوں کے کردار کے ذریعے ایک پورے سماج کے شعور کی بات کر رہے ہوں۔

غلام عباس کو سمجھنا اتنا سادہ نہیں، وہ ایک ایسے کہانی کار ہیں کہ ان کی کہانیوں کے کردار، خارجی روپ، بظاہر سامنے کے دھارے ہوتے ہیں مگر اپنے باطن میں وہ ایک گہرے اور وسیع سماجی شعور کے آئینہ دار اور نمائندہ نظر آتے ہیں۔ لہٰذا اسی درج بالا تناظر میں غلام عباس، محض عام آدمی کے داستان گو نہیں رہتے بلکہ وہ عام آدمی کے سماجی شعور کے نمائندہ اور ترجمان بن جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).