قبلائی خان کی مکمل داستان حیات


بوڑھا چنگیز خان بستر مرگ پر تھا۔ اردگرد بیٹوں، پوتوں، حکومتی وزیروں، مشیروں اور مذہبی رہنماؤں کا گھیرا تھا۔ سب لوگ اس پریشانی میں تھے کہ بوڑھے خاقان اعظم چنگیز خان کی موت کے بعد عظیم منگول سلطنت کا کیا ہو گ؟ وہاں پر موجود کوئی ایک شخص بھی یہ سوچ نہیں سکتا تھا کہ خاقان اعظم چنگیز خان بھی مر سکتا ہے۔ یقین تو خود خاقان اعظم چنگیز خان کو بھی نہیں آ رہا تھا، ساری زندگی دوسروں کی زندگیوں کا فیصلہ کرنے والے چنگیز خان نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن موت اس کے خیمے میں بھی داخل ہو جائے گی۔

چنگیز خان کی نظریں خیمے میں موجود تمام افراد کا فرداً فرداً جائزہ لے رہی تھی۔ خاقان اعظم کے چاروں بیٹے، گیارہ پوتے، داماد، سرداران سلطنت، سب خیمے میں دم بخود کھڑے تھے۔ اچانک چنگیز خان کی نظریں ایک گیارہ سالہ لڑکے پر جم گئیں اس نے اشارے سے لڑکے کو قریب بلایا۔ خاقان نے سب کے سامنے انگلی کے اشارے سے بچے کی طرف اشارہ کر کے کہا، میرا یہ پوتا مجھ سے بڑی سلطنت کا مالک ہو گا اور مجھ سے زیادہ لمبی عمر پائے گا۔ یہ پیشن گوئی کرنے والا خاقان اعظم چنگیز خان تھا اور جس بچے کے بارے میں یہ الفاظ کہے گئے اسے تاریخ قبلائی خان کے نام سے جانتی ہے۔ چنگیز خان کی وفات کے تیس سال بعد اس کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور قبلائی خان وسیع سلطنت کا حکمران بنا۔

آج کی تحریر قبلائی خان کے بارے میں ہے۔ چین آبادی اور رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ بہت بڑی آبادی اور وسیع رقبہ ہونے کی وجہ سے کہا جاتا تھا کہ کوئی بادشاہ یا خاقان اسے مکمل طور پر فتح نہیں کر سکتا۔ چنگیز خان نے اپنے دور میں چین میں بہت سے علاقے فتح کر لیے تھے لیکن وہ مکمل طور پر چین پر کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ چنگیز خان کی ناکامی کو اس کے پوتے قبلائی خان نے فتح میں بدل دیا تھا۔

چنگیز کے پوتے قبلائی خان نے نہ صرف سارے چین پر قبضہ کیا بلکہ وہاں ایک نئی بادشاہت کی بنیاد رکھی۔ اس نئی سلطنت یا بادشاہت کو تاریخ میں یوآن سلطنت کا نام دیا جاتا ہے۔ قبلائی خان نے یہ ناممکن کام کر کے تاریخ میں اپنا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر کر دیا۔ چین کے صوبے گن سو کے شہر یینگی میں بدھ مت کے پیروکاروں کی ایک عبادت گاہ میں 1215 میں قبلائی خان نامی بچہ پیدا ہوتا تھا، قبلائی خان بدھ مت پیروکاروں کی جس عبادت گاہ میں پیدا ہوا تھا اسے ڈافو کہا جاتا ہے۔

قبلائی خان کے دادا کا نام چنگیز خان تھا اور قبلائی خان چنگیز خان کا فیورٹ پوتا تھا۔ بچپن سے ہی چنگیز خان ہمیشہ قبلائی خان کی رائے کو اہمیت دیتے تھے۔ شاہی دربار میں قبلائی خان کے مشوروں پر چنگیز خان اپنی بہت بڑی سلطنت چلاتا تھا ، یہی وہ ادا تھی جس کی وجہ سے قبلائی خان چنگیز خان کا پسندیدہ ترین پوتا تھا۔ چنگیز خان ہمیشہ اپنے وزیروں کو کہا کرتا تھا کہ اس کی غیر موجودگی میں سلطنت کے معاملات قبلائی خان دیکھے گا اور ہر کسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے احکامات پر عمل کرے۔قبلائی خان کی ہر بات کو غور سے سنا جائے کیونکہ ایک ذہین ترین بچہ ہے۔

ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ قبلائی خان باشعور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا۔ فلسفہ ، سماج اور سیاسیت کے ساتھ ساتھ اسے دنیا بھر کی درجنوں زبانیں آتی تھیں۔ جب چینگیز خان کا 1227 میں انتقال ہوا تھا تو اس وقت قبلائی خان کی عمر صرف 12 سال تھی۔ چنگیز خان کے مرتے ہی قبلائی خان سیاسی منظرنامے سے غائب ہو گیا ، اس کے بعد سالوں تک کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ چنگیز خان کا فیورٹ پوتا قبلائی کہاں چلا گیا ہے؟

1251 میں چنگیز خان کی وصیت کے خلاف قبلائی خان کے بھائی مونکے خان کو منگول سلطنت کا سردار بنا دیا گیا۔ مونکے خان نے منگولوں کا سرداراعظم بننے کے بعد اپنے چھوٹے بھائی قبلائی خان کو جنوبی چین کی ڈالی سلطنت کو فتح کرنے کا ٹاسک دے دیا۔ یہاں سے قبلائی خان کا پہلا جنگی سفر شروع ہوا۔ قبلائی خان نے جنوبی چین کو فتح کرنے کے بعد وہاں شاندار ترقیاتی کام کرائے۔ ان شاندار کاموں کی وجہ سے قبلائی خان جنوبی چین کے لوگوں کا پسندیدہ حکمران بن گیا ، چین میں قبلائی خان نے اپنے لئے نیا دارالحکومت بنایا۔ جسے شانگ ٹو کا نام دیا گیا۔ شانگ ٹو میں قبلائی خان نے شاندار محلات، قیام گاہیں اور شکار گاہیں بنوائیں۔

قبلائی خان کا ایک ایسا محل بھی تھا جہاں بیک وقت ایک ہزار گھڑ سوار داخل ہو سکتے تھے۔ اس محل کے گردا گرد ایک دیوار تھی جو 25 کلومیٹر لمبی تھی۔ محل کے مین ہال میں سولہ ہزار کرسیوں کی گنجائش تھی۔ یہ ہال سونے چاندی اور قیمتی کپڑے سے مزین کرسیوں سے سجا گیا تھا۔ شانگ ٹو میں قبلائی خان کی ذاتی رہائش گاہ کے گردا گرد دنیا کے نایاب اور خوبصورت پیڑ، پودوں سے سجے باغات تھے جن کے پھولوں کے منفرد رنگوں اور خوشبوؤں پر جنت کا گماں ہوتا تھا۔

اس محل میں بیٹھ کر جب قبلائی خان کھانا کھاتا تھا تو اس کی خدمت پر مامور خادمائیں اپنے منہ کو ریشمی رومال سے ڈھک کر رکھتی تھیں کہ کہیں ان کی سانسیں خاقان قبلائی خان کے کھانوں کو متاثر نہ کر دیں۔ خاقان کی موجودگی میں کسی کو بھی بولنے کی اجازت نہ تھی، دربار شاہی سے آدھے میل تک کسی بھی قسم کے شوروغل کی اجازت نہ تھی۔ اس کے دربار میں حاضر ہونے والے ہر شخص کو سفید چمڑے سے بنے جوتے پہننے پڑتے تھے تاکہ سونے اور چاندی کی تاروں سے مزین قیمتی قالین خراب نہ ہوں۔

ہر شخص اہنے ہاتھ میں ایک اگال دان رکھتا تھا کہ کہیں غلطی سے بھی تھوک قالینوں کو گندا نہ کر دے۔ معروف سیاح مارکوپولو جو قبلائی خان کے دربار میں بیس سال ملازمت کرتا رہا ، اس کا کہنا تھا کہ خاقان قبلائی خان کی چار قانونی بیویاں تھیں۔ ان کے علاوہ وسیع تعداد میں باندیاں اور لونڈیاں بھی موجود تھیں، جن کے دم سے شاہی حرم آباد تھا۔ ان باندیوں کا انتخاب ایک قدیم منگول روایت کے تحت کیا جاتا تھا۔

ہر دو سال بعد خاقان کے آدمی منگولیا کے ایک صوبے انگوت جاتے تھے جہاں کی عورتیں اپنی رنگت اور خوبصورتی میں یکتا تھیں۔وہاں سے بڑی چھان پھٹک کے بعد سیکڑوں خواتین کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ ان خواتین کی خوبصورتی کو قیمتی پتھروں کی طرح قیراط میں ماپا جاتا تھا۔ ہر پہلو سے دیکھ بھال کر کے ان کی رنگت، چہرے کے نقوش، خدوخال، چال ڈھال اور جسمانی نشیب و فراز کے حساب سے نمبر دیے جاتے تھے۔

جو لڑکی بیس یا اکیس قیراط کی حد کو چھو لیتی تو اسے دارالحکومت میں لایا جاتا۔ اگلے مرحلے میں ان لڑکیوں کو کسی امیر یا درباری کی بیوی کے حوالے کیا جاتا جو اس لڑکی کی مزید چھان پھٹک کرتی کہ کہیں وہ کسی اندرونی خرابی کا شکار تو نہیں، یہ عورت اس لڑکی کو اپنے ساتھ سلاتی کہ کہیں لڑکی خراٹے تو نہیں لیتی، رات کے مختلف اوقات میں اس کی سانس کی بو کا معائنہ کیا جاتا، دیکھا جاتا کہ کہیں وہ زیادہ کروٹیں تو نہیں بدلتی، یا اس کے جسم سے ناگوار بو تو نہیں آتی۔

ان تمام مراحل کے بعد کامیاب لڑکیوں کو اس قابل سمجھا جاتا تھا کہ وہ بادشاہ کی خدمت میں حاضری دینے کے قابل ہیں۔ پانچ لڑکیوں کی ایک ٹولی تین دن اور تین راتیں خاقان کی خدمت میں گزارتیں، اس کے بعد نئی ٹولی اس خدمت پر مامور ہو جاتی۔ قبلائی خان کے پورے دور حکومت میں منتخب دوشیزاؤں کی فوج ظفر موج اس انتظار میں رہتی کہ کب ان کی باری آئے اور انہیں خاقان کی خدمت کا موقع مل سکے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی منگولوں کا حقیقی وارث قبلائی خان کا بڑا بھائی مونکے خان تھا۔ لیکن ہر طرف قبلائی خان کی شہرت تھی۔

مونکے خان کو جب معلوم ہوا کہ حقیقی منگول حکمران وہ ہے لیکن چرچے قبلائی خان کے ہیں تو اسے برا لگا۔ مونکے خان کے ساتھیوں نے کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا بھائی قبلائی خان بغاوت کر کے ساری سلطنت کا حکمران بن جائے۔ اب بڑے بھائی کے دل میں چھوٹے بھائی کی وفاداری کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا ہو چکے تھے۔ قبلائی خان نے جب ایسی باتیں سنیں تو وہ منگولیا پہچ گیا۔ وہاں جا کر اس نے اپنے بھائی اور منگولیا کے حکمران مونکے خان سے مذاکرات کیے۔

اس نے بھائی سے کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں بے وفائی کر رہا ہوں تو مجھے جو سزا دیں قبول ہے، میں پھانسی چڑھنے کے لئے تیار ہوں لیکن میری وفاداری پر شک نہ کریں۔ منگولیا کے حکمران کو اپنے بھائی کی وفاداری کا یقین ہو گیا اور اس کے بعد مونکے خان نے حکم دیا کہ قبلائی خان چین کی سنگ سطلنت کے خلاف فوجی مہم کا حصہ بن جائے۔ اس طرح قبلائی خان نے 1258 میں چین کی سنگ سلطنت پر حملہ کر دیا۔ اس جنگ میں منگول سلطنت کا حکمران یا خان اعظم مونکے خان مارا گیا اور اس کے بعد منگول سلطنت بکھر گئی۔

منگولیا میں قبلائی خان کے ایک اور بھائی نے منگولیا سلطنت کا کنٹرول سنبھال لیا۔ قبلائی خان نے اپنے بھائی کو منگولیا کا حکمران ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد وہ واپس چین میں اپنے کیپیٹل شنگ تو آ گیا اور چینی حکمرانوں سے صلح کر لی۔ اس کے بعد قبلائی خان نے اپنوں ہی سے جنگ کا اعلان کر دیا۔ اس نے منگولیا سلطنت کے حکمرانوں سے کئی جنگیں کی۔ ان جنگوں میں قبلائی خان کے ایک اور بھائی ہلاکو خان نے اس کی مکمل فوجی مدد کی۔

1261 میں قبلائی خان نے اپنے بھائی اور اس وقت کی منگول سلطنت کے خاقان اریک بوک کو شکست دے دی ، اب وہ منگول سلطنت کا بادشاہ تھا۔ جنگ کے دوران ہی اس کا بھائی اریک بوک فرار ہو کر دربدر پھرتا رہا۔ آخر کار 1266 میں اریک بوک کو قبلائی خان نے قتل کرا دیا۔ قبلائی خان منگول سلطنت کا حکمران تو بن چکا چکا تھا لیکن یہ سلطنت اس وقت اپنا طاقت اور عزت کھو چکی تھی۔ تقسیم در تقسیم تھی۔ سنٹرل ایشیا میں چنگیز خان کی اولاد حکمران تھی جبکہ ایران میں ہلاکو خان کی اولاد حکومت کر رہی تھی۔

روس میں ایک اور منگول خاندان نے سلطنت قائم کر رکھی تھی۔ ان تمام سلطنتوں کا منگول سلطنت سے کوئی تعلق نہیں۔ تمام سلطنتیں ہی اپنے آپ کو آزاد تصور کرتی تھیں۔ دوسری قبلائی خان صرف چین کے کچھ علاقوں اور منگولیا پر قابض تھا۔ اپنی ایک الگ شناخت بنانے کے لئے اس نے چین میں فوجی مہمات کیں اور اس طرح چین کے ایک بہت بڑے علاقے پر قبلائی خان قابض ہو گیا۔ اس کے بعد قبلائی خان نے ایک اور دارالحکومت بنایا جو آج کے چین کے شہر بیجنگ کے قریب واقع تھا۔

اس دارالحکومت کا نام خان بالک رکھا گیا۔ چین میں فوجی مہمات میں قبلائی خان کو کامیابیوں پر کامیابیاں مل رہی تھیں اور اس طرح جلد ہی قبلائی خان نے اپنے آپ کو چین کا شہنشاہ قرار دیا۔ شہنشاہ بننے کے بعد اس نے اپنے آپ کو یوآن کا خطاب دیا، جس کا اردو میں مطلب ہے کائنات کا نقطۂ آغاز۔ چین کو مکمل طور پر کنٹرول کرنے کے لیے اس نے اس دور میں بہت بڑی بحری فورس ترتیب جس کے پاس ہزاروں کشتیاں تھی۔ اس بحری فورس کے ذریعے وہ چین کے دور دراز کے علاقے فتح کرتا چلا گیا۔

ان فتوحات کے دوران قبلائی خان نے شہروں اور بستیوں میں تباہی نہ کی اور نہ ہی سابق منگول حکمرانوں کی طرح شہریوں کا قتل عام کیا۔ وہ قتل عام اور تباہی کے خلاف تھا۔ قبلائی خان کی رحم دلانہ حکمت عملی کی وجہ سے چینی امرا اور سردار بغیر کسی مزاحمت کے اس کے وفادار بن گئے۔ اسی دوران چین کی عظیم سنگ سطنت کا شہنشاہ انتقال کر گیا۔ اب سنگ سلطنت کا شہنشاہ ایک چار سالہ لڑکا تھا جس کا نام گونگ تھا اور اس وقت سنگ سلطنت ایک ملکہ کے ہاتھوں میں تھی۔ ملکہ نے اعلان کیا کہ وہ قبلائی خان سے جنگ نہیں کرے گی۔ اس طرح سنگ سلطنت آسانی سے قبلائی خان کی جھولی میں آ گری۔

سنگ سلطنت کے چار سالہ شہنشاہ گونگ کو دربار میں لایا گیا۔ قبلائی خان نے چار سالہ شہنشہاہ گونگ کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ سنگ سلطنت کا خاتمہ ہو چکا تھا لیکن سنگ سلطنت کے وفاداروں نے قبلائی خان سے جنگیں جاری رکھیں اور آخر کار 1279 میں سنگ سلطنت کے وفاداروں اور قبلائی خان کے درمیان فیصلہ کن جنگ ہوئی۔ یہ جنگ چین کے علاقے یامین میں برپا ہوئی تھی۔ یہ جنگ کشتیوں پر لڑی گئی جس میں سنگ سطلنت کو شکست ہو گئی۔

سنگ سلطنت کے بعد یو آن سلطنت کا دور تھا اور قبلائی خان یو آن سلطنت کا نیا شہنشاہ تھا۔ یو آن سلطنت میں منگولیا، مکمل چین اور روس کا بہت بڑا علاقہ شال تھا۔ قبلائی خان نے اپنے دور حکومت میں چین کو شاندار ترقی سے نواز۔ بڑی بڑی سڑکوں اور شاہراؤں کے ساتھ ساتھ قبلائی کان نے نہریں کھدوائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے چین کے غریب اور آفت زدہ علاقوں میں ٹیکس معاف کر دیے۔ قبلائی خان نے چین میں پہلی مرتبہ سونے چاندی کی بجائے پیپر کرنسی کی ابتدا کی۔ قبلائی خان اپنے دور حکومت میں مذہبی معاملات میں نیوٹرل رہا۔

ہر مذہب کے لوگوں کے عبادت خانوں کو ٹیکس فری کر دیا۔ قبلائی خان کے دور میں مسلمان بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے یہاں تک کے ایک مسلمان کو چین کے صوبے یونان کا گورنز بنایا گیا۔ قبلائی خان نے ٹیکس کے حوالے سے اپنی سطلنت کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ منگولوں کو ٹیکس فری قرار دیا گیا جبکہ شمالی اور جنوبی چین کے لوگوں پر بھاری ٹیکس لگائے گئے۔ قبلائی خان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ ایک دن وہ جاپان کو بھی فتح کرے گا لیکن اس کا یہ خواب خواب ہی رہا۔

1274 اور 1281 میں قبلائی خان کی بحری فورس نے جاپان پر حملہ کیا لیکن اس میں انہیں ناکامی ہوئی۔ ان فوجی مہمات میں قبلائی خان کی بحری فورس کو کمزور کر دیا۔ جب بھی جاپان پر حملہ کیا گیا سمندری طوفان برپا ہوئے جنہیں کاما کازی کہا جاتا ہے ، ان سمندری طوفانوں کی وجہ سے جاپان قبلائی خان کے ہاتھ نہ لگ سکا۔ جاپانی ان سمندری طوفانوں کو خدا کی طرف سے اپنی مدد سمجھتے تھے۔ ذاتی زندگی میں بھی قبلائی خان کو بہت دکھ اٹھانا پڑے۔ 1281 میں اس کی بیوی شیبی انتقال کر گئی۔

قبلائی شیبی کا دیوانہ تھا۔ اس کے بعد اس کا جانشین بیٹا چین چن انتقال کر گیا۔ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں اس نے کچھ جنگیں لڑیں ، ان میں کچھ میں اسے کامیابیاں ملیں اور کچھ میں ناکام مگر زندگی کے آخری دنوں وہ شاہی معاملات سے دور ہو گیا۔ بیوی اور بیٹے کی موت نے اسے اس قدر دکھی کر دیا کہ وہ آ کر میں یہ بھی بھول گیا کہ وہ چین کا شہنشاہ ہے۔ غم زدہ قبلائی خان کو اب بے شمار بیماریاں لاحق ہو چکی تھی۔ موت سے کچھ دنوں پہلے وہ اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ پانی پینے کے لئے گلاس تک نہیں اٹھا سکتا تھا۔

خاقان قبلائی خان کے بیٹے بیٹیوں کی تعداد 47 بتائی جاتی ہے۔ 18 فروری 1294ء میں بیاسی سال کی عمر میں قبلائی خان زندگی کی جنگ ہار گیا۔ قبلائی خان کی تمام بیویوں کو اس کے ساتھ زندہ دفنا دیا گیا۔ بیویوں کے ساتھ ساتھ کئی خدمتگاروں کو بھی زندہ دفنا گیا تاکہ دوسری دنیا میں بھی وہ قبلائی خان کی خدمت جاری رکھ سکیں۔ قبلائی خان کے مرنے کے بعد اس کی عظیم سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).