پی ڈی ایم کو ناکام کہنا غلط کیوں؟


جنوری کی یک بستہ ٹھنڈی، ہڈیوں میں اتر جانے والی، جذبوں کو مزید گرم کرنے والی اور کام کی رفتار کو سست کرنے والی سردی میں ایک عدد شال اوڑھ لیجیے اور ٹھٹھرتی شام میں کافی کا ایک مگ ہاتھ میں پکڑیں۔ فرشی ہیٹر کے پاس بیٹھیں۔ کرسی پر بالکل سکون سے بیٹھ جائیں۔ پھر کچھ دیر کے لیے سوچیے کہ عمران خان کی دھرنا اور احتجاجی تحریک کا قوم کو کیا فائدہ ہوا تھا اور پی ڈی ایم کے متحرک ہونے سے قوم کو کیا حاصل ہو گا؟

پاکستان میں دھرنوں اور مظاہروں کی سیاست آج کی نہیں ہے۔ جتنی عمر پاکستان کی ہے اتنی ہی پرانی یہ تحریکیں ہیں۔ ایک آمر صدر اسی احتجاجی تحریک کے بعد ایوان اقتدار کو خیرآباد کہہ گیا۔ ایسے مظاہروں کے نتیجے میں ہی ایک منتخب وزیراعظم پھانسی کے تختے پر جھول گیا۔ لیکن قریب سے جاننے کی کوشش کی جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان تحریکوں، دھرنوں اور مظاہروں کی سیاست نے عوامی شعور بیدار کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

سابقہ تمام احتجاجی تحریکیں ظالم کے ہاتھوں کو مزید مضبوط کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکیں۔ اسی طرح جسٹس افتخار چوہدری کی وکلاء کی تحریک تھی جس میں بظاہر تو وکلاء سمجھتے تھے انہوں نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے تھے لیکن وہ دو ایجنسیوں کی لڑائی میں استعمال ہو گئے تھے۔

اس لیے ہم اس کی مزید تفصیلات میں جانے کی بجائے صرف تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریکوں کا جائزہ لیں گے۔ واقفان حال کا ماننا ہے پہلے تحریک انصاف کے دھرنوں اور اب پی ڈی ایم کی تحریک کو کوئی اور کہیں سے اپنے مقاصد کے لیے ہینڈل کر رہا ہے۔ یہ دونوں تحریکیں کسی اور کی ذہنی اختراعی ہیں۔

آپ کا تو مجھے علم نہیں ہے۔ لیکن میں ان دونوں تحریکوں کو عوام کے وسیع تر مفاد میں بہت اہم سمجھتا ہوں۔ دونوں احتجاجی تحریکوں نے عوام کو نئی راہیں دکھانے میں اور عوامی شعور بیدار کرنے میں بہت اہم اور بہترین کردار ادا کیا ہے۔ آپ میں سے اکثر شاید غیر جانب دار بن کر سوچنے کی بجائے کسی ایک پارٹی کے حامی بن کر سوچیں گے اور ایک تحریک کو سرے سے ہی غلط اور زہر قاتل تصور کریں گے اور دوسری تحریک کو اس ملک و قوم کی بہترین خدمت قرار دیں گے۔

لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بغض و عناد سے اور کچھ نہیں ہوتا، انسان کے اپنے ہی پاؤں کٹ جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں ہم لوگ بالکل درست ہیں اور جو ہمارے ہم خیال نہیں ہیں، ان کی عقلیں ماری گئی ہیں۔ ہمیں حقائق کی بنیاد پر اختلاف کرنا چاہیے نہ کہ جذباتی مخاصمت کو پروان چڑھانا چاہیے۔ ہم میں سے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اپنے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ بھی انصاف کرے۔

عمران خان کی تحریک اور دھرنے نے عوام کو ”اسٹیٹس کو“ کو غلط سمجھنے، اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے، مزاحمت کرنے اور عوام کا استحصال کرنے والوں اور کرپشن کو اپنا حق سمجھنے والوں کے خلاف بولنا سکھایا۔ عوام نے کرپشن اور ”اسٹیٹس کو“ کو غلط سمجھنا شروع کیا۔ لوگوں نے اسے صرف دل میں ہی غلط نہیں بلکہ اس کے خلاف باقاعدہ آواز اٹھانا شروع کردی جس کے نتیجے میں آپ کو عمران خان کے حکومت میں آنے کے بعد ان کے وزیروں اور مشیروں کی جانب سے بھی بے جا پروٹوکول پر عوام کی اٹھتی ہوئی صدائیں سنائی دیتی ہیں۔ عوام کو یہ راہ خان صاحب نے خود دکھائی تھی۔

دوسری جانب ہم پی ڈی ایم کے دھرنے اور ان کی مزاحمت کو دیکھیں تو اس تحریک نے پاکستان میں وہ کرنے کی کوشش کی ہے، جو ان گزشتہ 74 سالوں میں کوئی نہیں کر سکا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ بہت حد تک اس کوشش میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ملک میں عوام کے سامنے فوج کا، حکومتیں بنانے والے اور گرانے والوں کا نام لینا اتنا آسان نہیں تھا۔ جتنا اب اس پی ڈی ایم کی مزاحمت نے عوام میں سلیکٹرز کو آشکار کر دیا ہے۔

اس کے نتیجے میں اب عوام ان لوگوں کے سیاسی کردار پر سرعام بغیر ڈرے بات کرتے ہیں۔ جو باتیں پہلے صرف ڈرائنگ روموں میں ہوتی تھیں۔ پی ڈی ایم ان کو اٹھا کر عوام میں لے آئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر پہلے شاید ہی کبھی اتنی بات کی گئی ہو جتنی اب عوام کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ اب یہ تحریک کامیاب ہو یا ناکام لیکن میں سمجھتا ہوں پی ڈی ایم کی یہ تحریک اپنا کردار ادا کر گئی ہے۔ اب کل کو اگر پی ڈی ایم کے نمائندے بھی حکومت میں آنے کے لیے بڑے گھر کی طرف دیکھیں گے تو عوام انہیں بھی نظر انداز کردیں گے۔

فوج کی سیاست میں مداخلت اور الیکشن پر اثر انداز ہونا کتنا برا اور قبیح فعل ہے، اس بارے میں لوگوں کے لیے مشعل راہ پی ڈی ایم کی ہی قیادت بنی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).