جو بچ گیا وہ بھینسا ہے


پاکستان بننے کے شروع دنوں کی بات ہے کہ اخبار میں خبر آئی کہ ایک بھینسے کی ٹکر سے کسی آدمی کا انتقال ہو گیا۔ کسی نے اس پر اخبار میں یہ تبصرہ کیا۔

ایک بھینسے اور انسان کی ٹکر میں یہ راز پنہاں ہے
جو بچ جائے وہ بھینسا ہے جو مر جائے وہ انساں ہے

گزشتہ دنوں کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے گیارہ افراد کو نہایت بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ ہمارے ملک میں بدامنی اور خوف کی یہ کیفیت گزشتہ کئی سال سے جاری ہے اور خصوصاً اقلیتیں اس کا ہر کچھ عرصہ کے بعد شکار ہوتی جاتی ہیں۔ پتہ نہیں مارنے والوں کا کیا ایجنڈا ہے اور چند غریب مزدور لوگوں کو بہیمانہ قتل کر کے ان کا کون سا ایجنڈا پورا ہوتا ہے۔

ہمارا ملک جس مذہب کی بنیاد پر آزاد ہوا تھا اس کا تو مطلب ہی سلامتی ہے اور اس میں تو تعلیم ہی یہ ہے کہ اگر کوئی کسی بے گناہ کو قتل کرے تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا۔ مگر ہمارے یہاں ہر چند روز کے بعد کوئی نہ کوئی ایسی خبر سامنے آتی ہے جس سے شرفاء کے دل خون کے آنسو رونے لگتے ہیں اور سمجھ نہیں آتی کہ ہم کس راستے پر چل پڑے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران جب جرمنوں اور اتحادیوں میں شدید جنگ جاری تھی اور لاکھوں انسان بے وجہ لقمہٴ اجل بن رہے تھے تو گجرات کے ایک مشہور شاعر امام دین گجراتی نے جو گلابی اردو میں بڑے دلچسپ شعر کہا کرتے تھے۔ ایک نظم لکھی جو کچھ یوں تھی۔

ہٹلر کا والد یاماں ”سپ“ رہا ہے
جو خلق خدا کو وہ یوں ”کپ“ رہا ہے
نہ کوئی اس کو روکتا ہے نہ ”نپ“ رہا ہے

مونجی کی کٹائی کے سیزن میں بچپن میں ہم شاٹ گن لے کر ان شیلرز کی طرف نکل جاتے تھے جہاں مونجی خرید کر سوکھنے کے لیے بچھائی ہوتی تھی۔ اس مونجی پر ہزاروں چڑیاں دانہ چگنے میں مصروف ہوتی تھیں اور آٹھ نمبر کے ایک کارتوس سے سو سو چڑیوں کا شکار کیا جاتا تھا۔ ایک فائر کے بعد باقی چڑیاں اڑ جاتی تھیں۔ مگر کچھ ہی دیر کے بعد دوبارہ ہزاروں چڑیاں دانہ چگنے کے لیے واپس آ جاتی تھیں۔

ہمارے ملک کو پچھلے کئی سال سے یہ صورت حال در پیش ہے ۔ ہر چند روز بعد چند معصوموں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ لوگ کچھ عرصہ احتجاج کرتے ہیں۔ اخبار خبریں چلاتے ہیں اور زندگی پھر اس ڈھب پر رواں دواں ہو جاتی ہے۔

جون ایلیا نے کہا تھا:
وہ جو اپنی جاں سے گزر گئے انہیں کیا خبر ہے کہ شہر میں
کسی جانثار کا ذکر کیا، کوئی سوگوار بھی اب نہیں

یہ نفسیاتی کیفیت کسی بھی ملک اور قوم کی تباہی کا نقطہٴ آغاز ہوتی ہے۔ جب تک معاشرہ مشکلات اور تکالیف میں گھرے ہوئے اپنے بھائیوں کے دکھ درد میں شریک ہو کر ان کی تکالیف مل کر دور کرنے کی نیک نیتی سے کوشش نہ کرے ، اس وقت تک ترقی کی باتیں دیوانے کی بڑ سے زیادہ نہیں۔

ساحر لدھیانوی نے کہا تھا:

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لئے اے شریف انسانو! جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
برتری کے ثبوت کی خاطر خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے
گھر کی تاریکیاں مٹانے کو گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے

جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں صرف میدان کشت و خوں ہی نہیں
حاصل زندگی خرد بھی ہے حاصل زندگی جنوں ہی نہیں
آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں فکر کی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے ایسی جنگوں کا اہتمام کریں
جنگ وحشت سے بربریت سے امن تہذیب و ارتقا کے لئے
جنگ مرگ آفریں سیاست سے امن انسان کی بقا کے لیے
جنگ سرمائے کے تسلط سے امن جمہور کی خوشی کے لیے
جنگ جنگوں کے فلسفے کے خلاف امن پر امن زندگی کے لئے

قمر سلیمان
Latest posts by قمر سلیمان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).