میرے استاد ڈاکٹر اظہر کی خودکشی


یہ سن 2011 کے اوائل کی بات ہے۔ نشتر میڈیکل کالج کا لیکچر ہال ایک کلاس کے ختم ہونے سے لے کر دوسری کلاس شروع ہونے تک کے وقفے میں سرگوشیوں کے مسلسل شور، جو کبھی کبھی کسی قہقہے سے ٹوٹتا، سے گونج رہا تھا۔

ایک شخص کلاس میں داخل ہوا ہے اور ایک بارعب آواز کلاس سے مخاطب ہوئی۔ شور دھیما پڑتے پڑتے ایک گہری خاموشی میں بالکل ایسے ہی بدل گیا جیسے کہ چاندنی رات میں بادل آہستہ آہستہ چاند کو تحویل میں لیں اور آخر کار بالکل اندھیرا چھا جائے۔ عموماً ایسی خاموشی آنے والے کے خوف سے چھا جایا کرتی تھی مگر آج کی خاموشی محض خوف کی وجہ سے معلوم نہیں پڑتی تھی۔ کلاس سے مخاطب شخص جو کہ یقیناً وجیہ دکھتا تھا، جس کا سوا چھے فٹ کا قد، ہلکا فربہی مائل جسم اور اس پر زیب تن ڈھیلا ڈھالا ”سفاری سوٹ“ اس کی شخصیت کو بارعب بناتا تھا، اپنے اندر ایک عجب کشش لیے ہوئے تھا۔

ایک ایسی کشش جس نے کلاس میں موجود تمام لوگوں کا انہماک بہت آسانی سے جیت لیا تھا۔ اس کشش کی وجہ اس کے چھرے پر مسلسل پھیلی ایک جاذب مسکان تھی، ایک متوازن اور ٹھہری ہوئی آواز جس سے اطمینان ٹپکتا تھا یا پھر اس کی آنکھوں میں دکھتی عجیب سی چمک جو عموماً اس عمر میں مفقود ہو چکتی ہے، نہیں معلوم، مگر یہ کشش اب پوری کلاس کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی جو محو ہو کر لیکچر سننے میں مصروف تھی۔ بعد میں پوچھنے پر معلوم پڑا کہ لیکچر دینے والے ملتان کے مشہور ماہر دماغی امراض ڈاکٹر اظہر تھے۔ یہ میرا ان سے پہلا اور واحد تعارف تھا۔

وقت کا پہیہ گھومتا رہا۔ نشتر اور ملتان دونوں ماضی کے دھندلکوں میں کہیں گم ہو گئے۔ میں پاکستان سے امریکہ آ کر خود دماغی اور ذہنی امراض کے علاج سے منسلک ہو گیا۔

یہ گزشتہ جمعہ کا دن تھا جب کچھ پرانے دوستوں سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر اظہر وفات پا گئے ہیں۔ پھر کچھ دیر بعد پتا چلا کی یہ واقعہ خود کشی کے نتیجے میں پیش آیا اور اس سے پہلے انھوں نے اپنی اکلوتی بیٹی کو بھی گو لی ماری جو طبی امداد کے با وجود جانبر نہ ہو سکی۔ یہ دلخراش خبر سن کر میں کچھ عرصے کے لئے سکتے میں آ گیا۔ کمرے کی کھڑکی سے باہر لان میں لگے درختوں کی ٹہنیاں جو نیو یارک کی یخ بستہ سردی میں اپنے تمام پتے کھو دینے کے باوجود کچھ دیر پہلے تک ہوا سے ہل ہل کر اپنے زندہ ہونے کا احساس دلا رہی تھی اب اچانک ساکت ہو گئی تھیں۔

میرا کافی میکر جو عام طور کافی بناتے ہوئے تقریباً گھگیانے لگتا ہے، آج بالکل خاموشی سے کافی کے قطروں کو نچوڑ کر نیچے موجود شیشے کے برتن میں ڈال رہا تھا۔ ٹی وی پر چلتی ”چوپن“ کی ”Nocturne 20“ پہلے بالکل دھیمی پڑی اور پھر اگلے ہی لمحے جیسے اس کی دکھ بھری ٹیون نے پورے ماحول کو اپنی گرفت میں لے لیا۔

کچھ دیر کوئی سوچ ذہن میں نہیں آئی۔آخر کو میرا ان سے تعلق ہی کتنا تھا۔ ایم بی بی ایس کے دوسرے سال میں کچھ کلاسیں ہی تو لی تھیں انھوں نے۔ دن ایسے ہی گزر گیا۔ مختلف لوگوں کے میسج آتے رہے۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کی آرا دیکھی۔ لیکن کسی وجہ سے نیند تھی کے کوسوں دور محسوس ہو رہی تھی۔ دل کو ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ وہ یاد جو ذہن پر عکس تھی، وہ مسکان جو آج بھی 10 سال پہلے ہی کی طرح تازہ تھی، مجھے کسی وجہ سے بیدار رکھے تھی۔

سوچا کہ چلیے اپنی ڈائری میں کچھ لکھا جائے کہ عموماً بکھری اور الجھی سوچوں کو سلجھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ سوچا کہ کچھ لوگوں کی جو رائے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے کہ اگر ماہر نفسانی علاج ہی خودکشی سے نہیں بچ پائے تو شاید یہ علم خاص افادیت نہیں رکھتا، لکھوں کہ ایسے تو بہت سے دیگر امراض کے ماہرین بھی اپنے علاج کنندہ امراض سے چل بستے ہیں تو پھر محض دماغی امراض کے بارے میں ہماری یہ رائے کیوں۔

پھر سوچا کہ اپنے ان مریضوں کے بارے میں لکھوں کہ جن کو میں نے بارہا اس خدشے کے ساتھ اپنے دفتر سے رخصت کیا کہ شاید میں دوبارہ ان سے کبھی نہ مل پاؤں اور وہ خود کشی کے اندھیرے غار میں اپنے ذہنی عارضوں اور معاشرتی مصائب کو چھپانے کی کوشش میں اس دنیا سے روپوش ہو جائیں گے۔

پھر سوچا کہ اس پر لکھوں کہ ایک معالج اور اس سے بھی بڑھ کر ایک انسان کے طور پر ایک غیر یقینی موت کو ایک یقین کے ساتھ ہر روز آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں نا آپ کے ذہن پر کیا اثرات چھوڑتا ہے۔

پھر سوچا کہ اس پر لکھوں کہ ذہنی امراض کے معالجوں میں ڈپریشن کا مرض کس قدر عام ہے اور جانتے بوجھتے اپنی زندگی اس شعبے کے نام کرنا کس قدر مشکل۔ سوچا تو یہ بھی کہ میں لکھوں کہ کیسے موجودہ ذہنی امراض کی سائنس میں خودکشی کو ڈپریشن سے الگ ایک بیماری کے طور پر تشخیص کیے جانے کے لئے تحاریک چل رہی ہیں۔ کہ یہ کیفیت Acute suicidal affective disorder (ASAD) کہلاتی ہے جس کے دوران انسان کی ذہنی صلاحیتیں کچھ عرصہ کے لئے مفقود ہو جاتی ہیں اور اسے اپنی صورت حال سے نکلنے کا واحد راستہ اپنی اور دوسروں کی جان لینا لگتا ہے اور کیسے کسی قابل اعتماد معالج کی مدد سے وہ اس گھری سرنگ کے آخر میں روشنی دیکھ سکنے کے قابل ہو سکتا ہے۔

لیکن پھر سوچا کہ ہر اس بار کی طرح جب کسی گہرے جذبے یا کیفیت کو بیان کرنا چاہا، اس مرتبہ بھی میری یہ کوشش زبان پر اپنی گرفت نہ ہونے کے ادراک اور جذبات کے سامنے الفاظ کی کم مائیگی کے احساس کے علاوہ کچھ ثابت نہ ہو گی تو بہتر یہی ہے کہ اس بھرپور انسان کی دلکش شخصیت اور جاذب مسکان کو بس یاد کر لیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).