ہمارا طوطو


میں اور میری بیٹی ایک ماہ قبل جو طوطا خرید کر لائے تھے، وہ آج مر گیا تھا۔ طوطے کے مر جانے کی وجہ سے بیٹی نے صبح سے کچھ نہیں کھایا اور دکھی ہے۔ صبح کو وہ مرے ہوئے طوطے کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی، میں نے جب طوطے کو اٹھانے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو اس نے جھپٹ کر اسے اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا اور میرے مانگنے پر بھی نہیں دیا۔

آج صبح جب ہمیں طوطے کا خیال آیا تب میں آفس اور بیٹی اسکول جانے کے لئے تیار ہو رہے تھے۔ اس وقت ہم نے دھیان دیا تو طوطا ہمیں گھر میں نظر نہیں آیا۔ بیٹی نے اس کی غیر موجودگی کا مجھے بتایا۔ ہم مل کر اسے ڈھونڈنے لگے۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں اسے بلی نہ کھا گئی ہو۔ بیٹی طوطے کو ڈھونڈنے صحن میں چلی گئی اور اسے وہ وہاں دیوار پر پڑا ہوا دکھائی دیا۔ اس نے زور سے آواز : ”پپا طوطو دیوار پر ہے۔“ (وہ طوطے کو طوطو پکارتی تھی)

میں آواز کی طرف متوجہ ہوا، صحن میں جا کر دیکھا تو طوطو دیوار پر مرا پڑا تھا جبکہ کچھ اور طوطے اس کے ارد گرد خاموش بیٹھے تھے جیسے سوگ منا رہے ہوں۔

بیٹی بہت سارے طوطوں کو دیکھ کر پریشان ہو گئی اور مجھے کہنے لگی:

” پپا یہ اتنے سارے طوطے یہاں کیوں آئے ہیں۔ کیا سارے ہمارے طوطو کے رشتہ دار ہیں۔ لیکن ہمارا طوطو ایسے کیوں پڑا ہوا ہے۔ وہ تو ہر وقت بولتا اور ناچتا رہتا ہے لیکن آج کیوں چپ ہیں۔ کیا ہوا ہے اسے پپا؟“

” بیٹا ہمارا طوطو مر گیا ہے اور دوسرے طوطے اس کے مرنے پر آئے ہیں۔“ میں نے کہا۔

بیٹی طوطو کے مرنے کا سن کر رونے لگی۔ میرے بہت سمجھانے کے باوجود بھی وہ چپ نہیں ہو رہی تھی۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں اسے کیسے چپ کراؤں۔

وہ طوطو کو لے کر بہت جذباتی تھی۔ ایک ماہ میں وہ طوطو سے ایسے گھل مل گئی تھی کہ وہ اس کے بغیر ایک نوالہ تک نہیں کھاتی تھی۔ رات دیر تک وہ طوطو کو اپنے پاس بٹھائے رہتی جبکہ طوطو بھی اکثر اس کے کندھے پر بیٹھ جاتا۔

جب ہم طوطو کو گھر لائے تھے تب وہ اس سے بہت ڈر رہی تھی لیکن چند دنوں میں وہ دوست بن گئے۔ آج وہی میری بیٹی کا دوست طوطو مر گیا تھا۔

میں نے طوطو کو دیوار سے نیچے اتار لیا۔ مجھے دیوار پر چڑھتے ہوئے دیکھ کر دوسرے طوطے اڑ گئے اور میں نے طوطو کو کمرے میں لا کر ٹیبل پر رکھ دیا۔

مرے ہوئے طوطو کے ارد گرد گھر کے دیگر افراد بھی جمع ہو گئے۔ دوسروں کے لئے یہ عام بات تھی لیکن بیٹی کو ایسے لگ رہا تھا جیسے گھر کا کوئی فرد مر گیا ہو۔

ننھی بچی یہ سب مجھے کہہ تو نہ سکی لیکن یہ سوگ اس کے چہرے سے عیاں تھا۔

”بیٹا طوطو مر گیا ہے۔“ میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اس نے مجھے کہا:
” پپا جب کوئی مر جائے تو اس کا کیا کرتے ہیں۔“

اس کی آنکھوں سے خاموش آنسو جاری تھے۔ میں نے کہا ”اگر انسان مر جائے تو اسے دفن کیا جاتا ہے۔ یا جلایا جاتا ہے۔“

”پھر طوطو جیسے پرندے مریں تو ان کا کیا کیا جاتا ہے۔“ بیٹی نے پوچھا۔

مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں اسے کیا کہوں، میں خاموش ہو گیا۔ مجھے چپ دیکھ کر بیٹی نے پھر کہا کہ ”پپا طوطو مر گیا ہے تو اس کا کیا کریں گے۔“

میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ کچھ دیر بعد وہ وہاں سے اٹھی، اس نے پہلے اپنے آنسو پونچھے اور پھر طوطو کو اٹھا کر باہر صحن میں چلی گئی۔

بیٹی کے پیچھے پیچھے میں بھی باہر آ گیا۔ صحن میں جا کر اس نے ایک گڑھا کھودا اور اس میں طوطو کو دفن کر دیا۔

طوطو کو گڑھے میں دفن کرتے کرتے اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بوندیں بھی مٹی سے مل گئیں۔

ہم ابھی وہیں موجود تھے اور بیٹی طوطو کی قبر کو تکے جا رہی تھی کہ اتنے میں ایک طوطا اڑتا ہوا صحن کی دیوار پر آ کر بیٹھ گیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔

ابھی لمحہ نہیں گزرا تھا کہ طوطا ہمارے قریب آ گیا۔ نیا طوطا ہوبہو طوطو جیسا تھا، میں اس کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ پہلے مٹھو مٹھو بولنے لگا اور پھر ناچنے لگا ہمارے طوطو کی طرح۔

نئے طوطے کو دیکھ کر میں نے بیٹی سے کہا ”یہ دیکھو طوطو۔“

وہ نئے طوطے کو پہلے چپ چاپ دیکھتی رہی اور کچھ دیر بعد وہ ہنستے ہوئے کہنے لگی
” پپا کیا یہ ہمارا طوطو ہے۔ ؟ یہ تو مر گیا تھا؟ یہ واپس آ گیا ہے؟“

” یہی تو ہے ہمارا طوطو۔“ میں نے کہا۔
”لیکن میں نے تو طوطو کی قبر بنا دی ہے پھر یہ یہاں کیسے آ گیا؟“
” بیٹا یہ ہمارے طوطو کا دوسرا جنم ہے“ میں نے کہا۔

” اتنے میں طوطا بیٹی کے کندھے پر بیٹھ گیا اور وہ کھل کھلاتی ہوئی صحن سے اٹھ کر گھر کے اندر آ گئی اور میں اسے خوش دیکھ کر مسکراتا ہوا آفس چلا گیا۔

کوی شنکر
Latest posts by کوی شنکر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).