دوسری سب سے بڑی قومی ترجیح


میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ تہتر سالوں میں ہم اپنی قومی ترجیحات کا تعین نہیں کر سکے۔ ہوا تو بس یہ کہ قومی دفاع پر قوم، سیاسی جماعتیں اور دیگر ادارے متفق ہیں۔ اس کی وجہ بھی ہم سے کہیں زیادہ ہمارا دشمن ہے جس نے بار بار ہماری سلامتی پر حملہ کیا اور ہم مجبور ہو گئے کہ اپنے دفاع کو مضبوط بنائیں۔ بھارت نے ایٹم بم بنایا تو ہمیں بھی وسائل کی کمی کے باوجود، جوہری پروگرام کی راہ پر چلنا پڑا۔ یہ فیصلہ بڑی حد تک درست نکلا۔ اگر ہم مئی 1998 میں ایٹمی دھماکے نہ کرتے تو بھارت جیسا دشمن نہ جانے کیا کیا مہم جوئی کر گزرتا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ قومی زندگی کے کسی اور شعبے کے بارے میں نہ ہم کوئی حکمت عملی بنا سکے اور نہ ہی کسی کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔

ایک قاری نے میری تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ یہ درست نہیں۔ ہم قومی سطح پر ایک اور ترجیح بھی رکھتے ہیں جس پر کامل اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور ہم سب زور و شور سے اس ترجیح پر کام کرتے رہتے ہیں۔ اس ترجیح کا نام ہے ایک دوسرے کے منہ پر کالک ملنا، الزام لگانا، چور اور ڈاکو قرار دینا، کرپشن میں لت پت بتانا اور ساری دنیا کو باور کرانا کہ جس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، دراصل وہ لٹیروں، چوروں، ڈاکووں، فراڈیوں اور بد عنوانوں کا ملک ہے۔ دفاع وطن کے بعد یہ ہماری دوسری سب سے بڑی ترجیح ہے۔

ممکن ہے میرے قاری نے یہ بات مزاح یا طنز کے طور پر کی ہو لیکن غور کیا جائے تو یہ سو فیصد درست ہے۔ دائیں بائیں دیکھیں تو نہ جانے کیسے کیسے بھیانک مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔ غربت بڑھتی جا رہی ہے۔ مہنگائی نے متوسط گھرانوں کو بھی غربت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ سفید پوش لوگ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے لہٰذا وہ اس الجھن میں مبتلا رہتے ہیں کہ بچوں کی فیس ادا کریں، گھر کے اخراجات چلائیں، بجلی گیس کے بل ادا کریں یا پر لگا کر اوپر ہی اوپر جاتی قیمتوں والی ادویات خریدیں۔

صرف غربت اور مہنگائی پر نظر ڈالی جائے تو شاید ذمہ داروں کے پاس کچھ اور سوچنے یا کرنے کے لئے وقت ہی نہ بچے۔ لیکن یہ معاملہ ہماری ترجیحات سے خارج ہے۔ پولیس، بے رحم شکاریوں کا جتھا بنتی جا رہی ہے۔ اسلام آباد کے بعد فیصل آباد میں ایک شخص کو انتہائی بے رحمی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔ مقتول کی لاش کو ٹھڈے مارے جاتے رہے اور کئی گھنٹے بعد ، یہ یقین ہوتے ہوئے کہ وہ مر گیا ہے، اسے اٹھایا گیا۔ پولیس مقابلوں کی کہانی تو ہر روز ہی اخبارات کی زینت بنتی ہے۔

تھانے، خوف اور دہشت کے ٹھکانے بن چکے ہیں۔ جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم اس پر تو فخر کرتے ہیں کہ نوجوانوں کی تعداد کے حوالے سے ہم دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہیں۔ 15 سے 33 سال کی عمر والے افراد کی تعداد ہمارے ہاں 63 فی صد سے زیادہ ہے۔ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اس عمر کے نوجوانوں میں سے کتنے کالج اور یونیورسٹی سطح کی تعلیم سے باہر ہیں؟ یہ نہیں بتاتے کہ ان میں سے کتنے روزگار کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں؟ یہ نہیں بتاتے کہ کتنے اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں رکھتے ہوئے بھی کلرک یا نائب قاصد کی نوکری کے لئے ٹھوکریں کھا رہے ہیں؟

یہ سب کچھ ہماری ترجیحات سے خارج ہے۔ تعلیمی بجٹ مسلسل کم ہو رہا ہے۔ جامعات کے لئے تحقیقاتی اور سائنسی پروگراموں کو آگے بڑھانا تو کیا، روز مرہ کے اخراجات چلانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ آج ہی بی بی سی اردو نے خبر دی ہے کہ پشاور یونیورسٹی شدید مالی بحران کا شکار ہو چکی ہے۔ بحران اس انتہا کو پہنچ چکا ہے کہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین کو پوری تنخواہ بھی نہیں دی جا سکتی۔ خبر کے مطابق ”یونیورسٹی کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے جب ایک تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا ہے کہ جنوری کے مہینے کی تنخواہ، جو یکم فروری کو ملنی ہے، اس سے صرف بنیادی تنخواہ ادا کی جا سکے گی اور الاونسز وغیرہ نہیں ملیں گے“ ۔

کس کس مسئلے کا ذکر کیا جائے لیکن ان میں سے کوئی مسئلہ بھی ہمارے لئے توجہ طلب نہیں ہے۔ البتہ میرے قاری کی اس بات میں بہت وزن پایا جاتا ہے کہ ایک دوسرے کو بدنام اور کرپٹ قرار دینا ایک ایسی قومی ترجیح بن چکی ہے جس پر حکومت، اپوزیشن، میڈیا، دانشور، مبصر سب پورے جوش و جذبے کے ساتھ شریک ہیں۔ اس ترجیح پر اپنی پوری توانائیاں صرف کر دینے کے نتائج اب پوری دنیا میں مرتب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہماری صبح شام کی اجتماعی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کو واقعی بد عنوان اور بے اعتبار لوگوں کی سر زمین خیال کیا جانے لگا ہے۔

آج جو کچھ ہمارے ساتھ ہو وہا ہے وہ شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک کے ساتھ ہوا ہو۔ کہنے کو ہم 22 کروڑ انسانوں کی آبادی رکھنے والا ایک ایٹمی ملک ہیں لیکن ذرا حالت دیکھیے۔ کوئی ملک اٹھتا ہے اور ہمارے طیارے پر قبضہ کر لیتا ہے۔ پاکستانی، اپنے طیارے سے باہر نکال دیے جاتے ہیں۔ کئی دن بعد وہ مصائب اور مشکلات سہتے ہوئے وطن پہنچتے ہیں۔ پتہ چلتا ہے کہ پاکستان نے لیز پر لیے گئے طیارے کی قسطیں ادا نہیں کیں۔

ایک دو نمبر والی فراڈ اور دیوالیہ کمپنی ہم سے چھ سات ارب روپے مانگ لیتی ہے اور ہم چپ چاپ، اس کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ اس کمپنی سے تعلق کا دعویٰ کرنے والا ایک اور شخص ہم سے 15 لاکھ ڈالر اڑا لے جاتا ہے اور ہمیں یہ تک اندازہ نہیں ہوتا کہ اس کا مذکورہ کمپنی سے کیا تعلق ہے۔ یورپ اور کئی دوسرے ممالک ہمارے طیاروں کو اپنی فضا اور ہوائی اڈوں میں داخل نہیں ہونے دے رہے۔ کل ہی اقوام متحدہ نے اپنے تمام ذیلی اداروں کے ملازمین کے لئے سفری ہدایت جاری کی ہے کہ وہ پی۔

آئی۔ اے یا پاکستان کی کسی بھی دوسری ائر لائن پر سفر نہ کریں۔ کیوں کہ ان کے پائلٹس ناقابل اعتبار ہیں۔ ایک اور خبر بھی چل رہی ہے کہ نیو یارک میں واقع ہمارا روز ویلٹ ہوٹل بھی ریکوڈک تنازعے کی نذر ہونے والا ہے۔ براڈ شیٹ کے حوالے سے یہ خبر بھی ملی کہ ایک وقت ہماری کرکٹ ٹیم کو بطور یرغمال ضبط کرنے کی بات چلی تھی جب وہ برطانیہ کے دورے پر تھی۔ متحدہ عرب امارات نے ہمارے ویزے بند کر رکھے ہیں اور دوست ممالک دباو ڈال رہے ہیں کہ ہمارے پیسے واپس کرو۔

بیرونی دنیا میں ہماری یہ حالت اس لئے ہو گئی ہے کہ جب ہم نے ایک دوسرے کے منہ پر کالک تھوپنے کو ترجیح بنا لیا تو دنیا کو یقین ہو گیا کہ ہم واقعی چوروں اور ٹھگوں کی سر زمین ہیں۔ سو دنیا نے بھی پاکستان کے چہرے پر کالک تھوپنے کو مشن بنا لیا۔ ہمارا پاسپورٹ دو کوڑی کا ہو چکا۔ کسی بھی ملک جائیں، کاؤنٹر پر سبز پاسپورٹ دیکھتے ہی ہمیں شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ پہلے تو اس لیے کہ ہم پر دہشت گردی کا الزام ہے اور پھر اس لیے کہ ہم چوروں، ڈاکووں اور لٹیروں کے ملک سے آئے ہیں۔

مجھے نہیں معلوم کہ ایسا کرنے سے ہم باہر کے بنکوں میں پڑی کتنی دولت وطن واپس لا سکے ہیں لیکن یہ تو اب پتہ چل گیا کہ اس کھیل میں مجموعی طور پر ہم نے کوئی دس ارب روپیہ دوسروں کو دے دیا۔ وہ دس ارب تو پاکستان کے غریب اور نادار لوگوں کے خون پسینے کی کمائی تھی۔ لیکن اب بھی دوسروں پر الزام تھوپنا اور پاکستان کو کرپٹ لوگوں کا وطن ظاہر کرنا، ہماری سب سے بڑی ترجیح ہے۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).