یکساں نظام تعلیم کا نسخہ بے اثر کیوں؟


اگر آپ سڑک پر چلتے ہوئے کیلے کے چھلکے پر سے پھسل کر گر جائیں تو آپ ایسا کیا کریں گے کہ آئندہ پھسلنے سے بچا جا سکے؟ کیا آپ اس جگہ کو پیٹنا شروع کر دیں گے جہاں گرے تھے یا آپ ایک قدم پیچھے جائیں گے اور گرنے وجہ کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے؟ یقیناً آپ ایک قدم پیچھے جائیں گے اور کیلے کے چھلکے سے جان چھڑائیں گے، یعنی اسے راستے سے ہٹا دیں گے اور سب اس پر متفق ہوں گے کہ یہی ایک صحیح قدم ہے کیونکہ اس جگہ کو پیٹنا جہاں آپ گرے تھے ، کسی طور بھی اس امکان کو ختم نہیں کر سکتا کہ آپ دوبارہ نہ گریں۔

ہمارے تعلیمی نظام کے ساتھ بھی ایسا ہی مسئلہ ہے۔ ہم گاہے بگاہے نئی تعلیمی پالیسیاں متعارف کراتے رہتے ہیں لیکن اس سے ہمارا دہائیوں پرانا مسئلہ حل نہیں ہو رہا اور وہ یہ کہ آخر اتنے زیادہ نمبر لے کر یہ سارے نابغے جا کہاں رہے ہیں؟ سائنس و ٹیکنالوجی میں ہم کوئی خاطر خواہ کارکردگی کیوں نہیں دکھا رہے؟ آپ میں سے بہت سوں نے یہ دیکھا ہو گا اور بہت سوں نے شاید یہ کام خود بھی کیا ہو کہ جب کوئی بچہ زمین پر گرتا ہے تو اس کو دلاسا دینے کی خاطر ہم اس جگہ کو ہی دو چار چانٹے رسید کر دیتے ہیں جس سے بچہ خوش ہو جاتا ہے۔ ہر تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد حکومت کی طرف سے تعلیمی نظام میں کوئی نئی چیز لانا بالکل زمین کو چانٹے لگانے کے مترادف ہے اور ہم اس بچے کی طرح ہیں جو اس پر خوش ہو کر تالیاں بجانے لگتا ہے۔

کسی بھی مسئلے کو دو درجات میں دیکھا جا سکتا ہے ، ایک وہ جو ظاہراً سب کو نطر آ رہا ہوتا ہے اور دوسرا وہ جو اس مسئلے کی بنیاد ہوتا ہے۔ یہی اس مسئلے کا وہ درجہ ہے جہاں ساری پیچیدگیاں اور باریکیاں پائی جاتی ہیں۔

ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اسی ملک کے اندر وہ طلبا جو او یا اے لیول کرتے ہیں ، وہ ہمارے ان طلبا سے قدرے بہتر ہوتے ہیں جو رائج حکومتی تعلیمی نظام سے گزرتے ہیں۔ جو واضح چیز ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ کہ او یا اے لیول کرنے والے طلبا مختلف نصاب پڑھتے ہیں لہٰذا ان کی سائنسی فہم رائج نظام تعلیم سے گزرنے والے طلبا سے بہتر ہوتی ہے اور ہم میں سے ہر ایک فی الفور اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ تفہیم کا یہ مسئلہ مختلف نصاب کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے اور بالکل یہی کام ہماری حکومت کر رہی ہے۔ وہ ہمیں مختلف نصاب کا ٹیکہ ہی لگا رہی ہے۔

اب ذرا مسئلے کو تھوڑی گہرائی میں دیکھتے ہیں اور امید ہے ایسا کرنا ہمیں زمین کو پیٹنے کی بجائے ایک قدم پیچھے لے جائے گا اور یہ دکھا سکے گا کہ کیلے کے چھلکے کو اٹھا کر ایک طرف پھینکنا زیادہ مناسب عمل ہے اور اس سے مسئلہ مکمل نہیں تو کم از کم بہتر طور پر سلجھ سکتا ہے۔

میں یہاں دلائل دینے کے لیے سائنسی مضامین کو زیر بحث لاؤں گا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ ان دو نظاموں کے نصاب کتنے مختلف ہیں ۔ سائنس کو مثال کے طور پر لینا اس لیے بھی قرین عقل ہے کہ جو کچھ سائنس میں کالج یا یونیورسٹی تک پڑھایا جاتا ہے ، اس کو پڑھانے کا مقصد طالب علموں کو اس مضمون کی مبادیات سے روشناس کرانا ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کسی بھی کتاب میں ایک جیسا ہو گا۔

مثال کے طور پر نیوٹن کے قوانین جو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ اگر آپ کسی خاص رفتار سے سفر کریں تو اتنے وقت میں لاہور سے اسلام آباد پہنچ جائیں گے، کیمبرج کے نصاب کی کتابوں اور ہمارے ہاں پڑھائی جانے والی فزکس کی کتابوں میں یہ ایک جیسا ہی ہو گا۔ سائنس فطری عوامل کی وضاحت کرتی ہے اور فطری عوامل سب کے لیے ایک جیسے رہتے ہیں۔ اس لیے ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ قوانین دو مختلف کتابوں میں ایک جیسے نہ ہوں۔

اب جب یہ بھی واضح ہو گیا کہ جو کچھ ان دو مختلف نظام تعلیم کی کتابوں میں لکھا ہے وہ بھی قریب قریب ایک جیسا ہے۔ میں یہاں قریب قریب اس لیے کہہ رہا ہوں کیوں کہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ہمارے ہاں دستیاب سائنسی کتب میں بعض تصورات کافی مبہم ہیں اور ان میں غلطی کی گنجائش بھی رہتی ہے لیکن بڑے پیمانے پر دونوں جانب کی کتب ایک جیسے سائنسی تصور پیش کرتی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک جیسے تصورات پڑھ کر بھی جب دونوں نظاموں کے طلبا کا موازنہ کیا جائے تو فرق کافی زیادہ اور واضح ہوتا ہے؟

ایک چیز جو ہم نے اب تک نظر انداز کی ہے وہ امتحانی طریقہ کار ہے۔ میرے خیال سے یہ وہ چیز ہے جو فرق ڈالتی ہے۔شاید آپ کو یہ لگے کہ صرف ایک امتحان سے کیا فرق پڑ سکتا ہے لیکن تھوڑا سا غور کرنے سے نظر آنے لگتا ہے کہ ایک امتحان کا طریقہ کار ہی سارے کا سارا فرق پیدا کر دیتا ہے کہ ایک طالب علم جب کتاب پڑھے گا تو وہ ان تصورات کو کیسے سمجھے گا جو کتاب میں درج ہیں۔

یہاں یہ ضروری ہے کہ میں تھوڑا سا اس چیز پر روشنی ڈال دوں کہ ان دونوں نظاموں میں امتحان میں جو سوال پوچھے جاتے ہیں، وہ کس طرز کے ہوتے ہیں۔ میں یہاں پر ریاضی اور فزکس کی مثال لوں گا کیوں کہ ان کو سمجھنا آسان ہے۔ ریاضی اور فزکس میں ہماری کتب میں پہلے کچھ تصورات سمجھائے جاتے ہیں اور چونکہ یہ ریاضیاتی مضامین ہیں تو ان تصورات کے ساتھ کچھ مثالیں دی جاتی ہیں تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ ان تصورات کو ہم حقیقی نظام (یا اگر آپ چاہیں تو کہہ لیں کہ روزمرہ کی زندگی) میں کیسے لاگو کر سکتے ہیں۔

اور پھر ہر باب کے آخر پر کچھ اور مشقی سوالات حل کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ مقصود یہ ہوتا ہے کہ طالب علم ان تصورات کو سمجھے اور پھر ان کا اطلاق حقیقی مسائل پر کرنے کے قابل ہو سکے۔ کیمبرج کے نصاب میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہی ایک طریقہ کار ہے جو رائج ہے سائنس سکھانے کا۔ تو اگر سارا کچھ ایک جیسا ہے تو فرق کہاں ہے؟

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو سوال کتاب کے آخر میں پریکٹس کے طور پر دیے ہوتے ہیں ،امتحان میں وہی پوچھے جاتے ہیں۔ ان سوالوں کا اصل مقصد پریکٹس ہی ہوتا ہے تاکہ ایک طالب علم اچھے طریقے سے پڑھے ہوئے تصورات کا اطلاق سیکھ سکے۔ لیکن جب وہی آٹھ یا دس سوالات آپ امتحان میں پوچھیں گے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ طالب علم سائنسی تصورات کو سمجھنے کی بجائے ان کو یاد کرنا یا رٹا لگانا شروع کر دیں گے اور یہ ہمیں نطر آ رہا ہے۔

دسویں کے طالب علم 505 میں سے 504 نمبر لے رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ سائنسی فہم میں بھی تنزلی آ رہی ہے۔ اے لیول پڑھنے والے طلبا بھی وہی سائنسی تصورات پڑھتے ہیں لیکن ان سے امتحان میں سوال مختلف طرح سے پوچھے جاتے ہیں۔ وہاں کوئی دس بارہ سوالات کتاب کے آخر پر نہیں دیے ہوتے جن کو وہ رٹا لگا لیں۔ بلکہ وہ کسی بھی عنوان کے لیے کسی بھی کتاب سے پڑھ سکتے ہیں۔

اب چوں کہ ان کو یہ معلوم ہے کہ جو سوال پوچھا جائے گا اس کو حل کرنے کے لیے ان کا کسی بھی تصور کو باریک بینی میں سمجھنا بہت ضروری ہے تو پھر ان کا انہی تصورات کو سمجھنا اور ان پر سوچنے کا طریقہ کار ہی بدل جاتا ہے اور اس طرح غیرارادی طور پر وہ اس تصور پر غور کر رہے ہوتے ہیں نہ کہ اس کو رٹا لگا رہے ہوتے ہیں۔

محض ایک جیسا نصاب دے دینے سے مجھے نہیں لگتا ہم اصل مسئلے کو حل کر پائیں گے۔ ہم اسی نصاب اور نظام میں رہ کر ہی اگر یہ روایت توڑ دیں کہ امتحان میں وہ سوال آئیں گے جو کچھ کتاب میں درج ہیں تو نتائج بہت واضح ہوں گے۔ یہی وہ چیز ہے جس نے طلبا کو رٹا لگانے والی مشین بنا دیا ہے، تعلیم کا مقصد زیادہ نمبر لینا یا بہت سارے مواد کو یاد کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد سوچنا اور مسائل کے حل تلاش کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).