ایوان اِقتدار کا سدا بہار کھلاڑی بننے کے سنہری اصول



انسانی رشتوں میں وفاداری کو قابل قدر تصور کیا جاتا ہے۔ توتا چشمی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ نبھانا اور نبھاتے چلے جانے سے اعتبار قائم ہوتا ہے۔ جو دل میں ہے اسے زبان پر لے آنے کو راست گوئی سمجھا جاتا ہے۔ ایثار و قربانی سے تعلقات مستحکم ہوتے ہیں۔ یہ تمام اقدار ان کے لیے ہیں جو گوشہ نشینی کی زندگی کو منتخب کرتے ہیں البتہ جنہیں اقتدار کی غلام گردشوں میں گشت کرنا ہیں اور اقتدار کے سدا بہار کھلاڑی ہونے کا اعزاز حاصل کرنا ہے ان کے لیے بے وفائی گلے کا ہار ہے۔ کابینہ وزیراعظم الف کی ہو یا وزیراعظم ب کی ہو وہ ہر کابینہ کا جزو لاینفک ہوتے ہیں۔ اقتدار کے سدا بہار کھلاڑی محبت میں توحید کے قائل نہیں ہوتے ہیں۔

اقتدار کے سدا بہار کھلاڑیوں کا مطالعہ ان طلبہ و طالبات کے لئے ضروری ہے جو حصول اقتدار میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ عام آدمی بھی اگر اپنی بے بسی سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے ایوان اقتدار کے سدا بہار کھلاڑیوں کی عادات اور حکمت عملی کا بغور مطالعہ کرنا ہو گا۔ گھاس بن کر ہاتھی کو کچلنے کی دعوت دینے میں کوئی تقویٰ پوشیدہ نہیں ہے۔ ہاتھوں کی ہم رکابی احساس ذلت سے چھٹکارا پانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ آئیے آج اقتدار کے سدا بہار کھلاڑیوں کو محدب شیشے سے دیکھتے ہیں اور ان سے سیکھتے ہیں کہ وہ کیسے ہر صاحب اقتدار کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بن جاتے ہیں۔

اخلاقیات کی تمام کتب قول و فعل کے تضاد کو منافقت سے تعبیر کرتی ہیں لیکن اقتدار کے سدا بہار کھلاڑیوں کے لئے منافقت وہ ہلکا پتھر ہوتا ہے جیسے وہ بار بار اٹھاتے ہیں اور عقیدت کے ساتھ اپنے پے درپے بوسوں سے نوازتے ہیں تاکہ ان کے لیے اقتدار کی راہداریوں میں چلنا پھرنا آسان ہو جائے۔ جو ان کے دل میں ہوتا ہے وہ ان کی زبان پر نہیں ہوتا ہے اور جو ان کی زبان پر ہوتا ہے وہ ان کے دل میں نہیں ہوتا ہے۔ ان کے حسن اظہار کی چق کے پیچھے بے نور خالی پن ہوتا ہے۔

وہ انسانی نفسیات کو بخوبی سمجھتے ہیں اور اسی لیے وہ یہ جانتے ہیں کہ ہر انسان سچ سے آنکھیں ملانے سے گھبراتا ہے۔ اس لیے وہ صاحبان اقتدار کی انا کو گنے کا رس پلانے کے لیے ان کے کار ہائے نمایاں کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کی سعی و جہد کا ماحصل یہ ہوتا ہے کہ اہل اقتدار اپنے متعلق اچھا محسوس کریں۔ اہل اقتدار اپنے قریب ان لوگوں کو کرتے ہیں جو انہیں اپنے متعلق اچھا محسوس کروانے میں مدد دیتے ہیں اور یوں اقتدار کے سدا بہار کھلاڑی قیادت کے قرب سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔

اقتدار کے سدا بہار کھلاڑی ہمیشہ اقتدار کے دیوتا کے سائے میں رہتے ہیں۔ وہ خود سورج بننے کی نادانی نہیں کرتے اور چاند ہی بنے رہنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ وہ وزیر باتدبیر کی مانند جانتے ہیں کہ ہر بادشاہ سلامت احساس عدم تحفظ کا شکار ہوتا ہے اور ان تمام پرندوں کے پر کاٹنے میں دیر نہیں لگاتا جو اس سے بھی اونچا اڑنے کی جسارت کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔

اقتدار کے سدا بہار کھلاڑی حق کی فتح اور باطل کی پسپائی میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ انہیں حق ہمیشہ اقتدار کی آغوش میں بیٹھا ہوا نظر آتا ہے اور باطل ہارے ہوئے لوگوں کا ساتھی محسوس ہوتا ہے۔ اقتدار کے یہ کامیاب کھلاڑی اپنے سے زیادہ طاقتوروں کی قدم بوسی کرتے ہیں اور جو ان سے کمزور ہوتا ہے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ جگنو نہیں ہیں اس لیے ان کے دم سے دنیا کا اندھیرا دور ہونا ممکن نہیں ہے۔ وہ ظلمات سے نور تک کے سفر کو انقلابیوں کی زندگی کا نصب العین سمجھتے ہیں جب کہ ان کی اپنی زندگی کا ہدف تو حالات کو جوں کا توں رکھنا ہوتا ہے کیونکہ ان کا مفاد تاریخ کے بدلنے کو تو برداشت کر سکتا ہے۔ حالات کی تبدیلی ان کے مفادات کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتی ہے۔

اقتدار کے سدا بہار کھلاڑی جذباتی رد عمل سے ہمیشہ اپنا دامن محفوظ رکھتے ہیں۔ اہل اقتدار کی قربت حاصل کرنے کے لیے وہ ان کی جانب سے ڈانٹ ڈپٹ کو بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اقتدار کی سیڑھی پر چڑھنے کے لیے اہل اقتدار کی تلون مزاجی کو بخوشی قبول کیا جاتا ہے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ جذبات کی سرخ آندھی جب اپنے جوبن پر ہو تو کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کرنا چاہیے اور اپنے سے زیادہ طاقتوروں کی حکم عدولی سے پرہیز کرنا چاہیے۔

اقتدار کے سدا بہار کھلاڑی اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے، البتہ اپنے اصول پلک جھپکتے ہی تبدیل کر لیتے ہیں۔ وہ اپنے مفادات کو مقدم جانتے ہیں اور اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر ہی معاملات پر اپنا موقف مرتب کرتے ہیں۔ وہ ہوا کارخ دیکھ کر اپنی حکمت عملی کو متواتر بدلتے رہتے ہیں۔ وفاداری بشرط استواری اور مستقبل مزاجی وہ ٹشو پیپرز ہیں جنہیں اقتدار کے سدا بہار کھلاڑی استعمال کر کے ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیتے ہیں۔

اقتدار کے سدا بہار کھلاڑی شکست کو دل پر نہیں لیتے ہیں۔ وہ ادھر ڈوبتے ہیں اور ادھر نکلتے ہیں۔ ان کے امیدوار اگر خدانخواستہ شکست کا شکار بھی ہو جائیں تو وہ ان امیدواروں کے حلقۂ احباب میں شامل ہو جاتے ہیں جو فتح سے ہمکنار ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ان دوستوں کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر دیتے ہیں جو ناکام ہو چکے ہوں۔ ناکامی ان کی سوتیلی ماں ہوتی ہے جس پر نفرین بھیجے بغیر ان کا دن ڈھلتا نہیں ہے۔ کامیابی اور کامیاب لوگوں کی قربت سے ان کے دل کو سرور ملتا ہے۔ وہ پرندوں کی مانند آسمانوں پر اڑنے کے آرزومند ہوتے ہیں اور زمین پر رینگنے والے کیڑے انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتے ہیں۔

اقتدار کے سدا بہار کھلاڑی خود اعتمادی میں اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔ وہ خود اعتمادی کے ساتھ لوگوں کو سبز باغ دکھاتے ہیں۔ وہ حصول اقتدار کے لیے ریگستان کو گل و گلزار بنانے کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں اور اقتدار ملنے کے بعد حالات کے اندر مثبت تبدیلی لانے کی ذمہ داری ادا کرنے سے عملاً انکار کر دیتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں وہ اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتے ہیں۔ جب بھی ان کے اردگرد گھیرا تنگ ہونا شروع ہوتا ہے تو وہ کسی نہ کسی کو یا پھر حالات کو مورد الزام ٹھہرا کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ وہ کمال مہارت کے ساتھ کسی کے بھی گلے میں قصور کا پھندا ڈال کر اپنی بے گناہی کو ثابت کر دیتے ہیں۔

اقتدار کے سدا بہار کھلاڑیوں کو اپنا ڈھول خود پیٹنے کا فن خوب آتا ہے۔ وہ انگلی کٹا کے شہیدوں میں شمار ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے اخلاص کا ایسا ڈھونگ رچاتے ہیں کہ سادہ لوح عوام ان کے وعدوں پر اعتبار کر بیٹھتے ہیں۔ سادہ لوح عوام چونکہ عموماً مومنین کی صفات کے حامل نہیں ہوتے ہیں ، اسی لیے ایک ہی بِل سے بار بار ڈسے جاتے ہیں۔ بھولے بھولے عوام بھی اتنے سیانے ضرور ہوتے ہیں کہ اپنے مسائل کے حل کے لیے اقتدار کے سدا بہار کھلاڑیوں کے حق میں ہی اپنا ووٹ ڈالتے ہیں کیونکہ جن کے اقتدار میں آنے کا یقین نہ ہو ان کے لیے اپنا ووٹ ضائع کرنے کی حماقت کا ارتکاب نہیں کیا جاتا ہے۔ اقتدار کے سدا بہار کھلاڑی کیونکہ کامیابی کا ثابت شدہ ریکارڈ رکھتے ہیں اسی لیے وہ عوام کا انتخاب ٹھہرتے ہیں۔

ہر انسان کامیابی کے سائے میں زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔ وہ ناکام لوگوں کو کوڑھ کے مریض سمجھتا ہے اور ان سے دور رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے۔ اہل دنیا کامیابی کی ناجائز اولاد بننے سے بھی نہیں گھبراتے کیونکہ وہ ناکامی اور ناکام لوگوں کو آسیب کا سایہ سمجھتے ہیں اور نیند میں چلتے ہوئے بھی اقتدار کے ناکام کھلاڑیوں کو گھاس نہیں ڈالتے ہیں۔ کامیابی کے متعدد باپ فی الفور بن جاتے ہیں جب کہ ناکامی یتیم رہ جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).