انگریزی کا غرور یا گورا کمپلیکس



ہمارے سابقہ آفس میں ایک خاتون تھیں، بھاری تنخواہ لیتی تھیں، موبائل کا ماڈل ہمیشہ نیا ہوتا تھا، جینز اور شرٹ میں ہوتی تھیں، ہاں جب چلتی تھی تو چپلوں کے شور سے پتہ چلتا تھا اور دو پٹوں والی چپل ہوتی تھی جسے دیسی زبان میں ہوائی چپل بھی کہتے ہیں۔ بڑینڈڈ گھڑی استعمال کرتی تھیں ، ہاں البتہ جب کچھ بولتیں تو کمال فر فر بولتیں اور بولتے ہوئے ان کی ناک اور بھنویں بھی تنی ہوتی تھیں ۔ وہ صرف انگریزی بولتی تھیں، البتہ آفس بوائے سے بڑی مشکل سے بول پاتیں کہ ’’میرے لیے کولڈ کوک لے آئیے گا یا پھر جب باہر جائیں تو روٹی لے آئیے گا۔‘‘

اچھا، وہ انگریز نہیں تھیں نہ ان کے خاندان میں کوئی انگریز تھا مگر ان میں گورا کمپلیکس بہت تھا۔ بات جو بتانی ہے ، وہ اپنی انگریزی پر بہت نازاں تھیں اور اردو بولنے والوں سے فاصلہ رکھتی تھیں ، اگر ان کے شدید انگریزی والے سوال پر کوئی اردو میں جواب دے دے تو ایسا لگتا ہے کہ کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہو۔

مزید آگے بڑھنے سے پہلے یہ جان لیجیے کہ اس تحریر کا مقصد انگریزی پر تبرا کرنا نہیں نہ انگریزی بولنے والوں پر طنز کرنا ہے اور نہ ان دونوں زبانوں کا موازنہ کرنا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ انگریزی وقت کی ضرورت ہے اور یہ بین الاقوامی رابطہ کی زبان ہے ، اس کو اہمیت دینی چاہیے تاکہ دنیا کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل ہو سکے۔

مگر بات بہت آسان ہے وہ یہ کہ انگریزی زبان ہماری مادری زبان نہیں ہے ، کسی کو اگر دو زبانیں یا اس سے زیادہ زبانیں آتی ہیں تو یہ اچھی بات ہے لیکن اگر کسی کو دوسری زبان نہ آتی ہو تو اس سے اس کی قابلیت پر شک نہیں کیا جا سکتا ہے۔ شاید اس کا ماحول ایسا نہ ہو، شاید اس کی بنیاد ایسی نہ ہو کہ وہ اچھے اسکول جا سکتا، شاید اس کو ایسا ماحول نہ مل پایا ہو جہاں انگریزی رائج ہو۔ ممکن ہے کہ وہ انگریزی سیکھنا چاہتا ہو یا چاہتی ہو مگر اس کو یہ موقع ہی نہ ملا ہو۔

ہر انسان کی زندگی اور اسے ملنے والے مواقع مختلف ہوتے ہیں، اس لیے ہر انسان کی تربیت بھی اسی انداز میں ہوتی ہے۔ اب یہ اردو اور انگریزی کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ جس گھر میں انگریزی بولی جاتی ہے وہاں پر بچہ سیکھتا ہی انگریزی ہے اور اس کی بنیاد انگریزی ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ اسے اردو سے کراہت بھی سکھائی جاتی ہے اور پھر ایلیٹ کلاس میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنہیں شاید اردو زبان بولنا پسند نہیں کیونکہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں برینڈز کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کے لیے انگریزی بھی تو برینڈ ہے۔

قوموں کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ اپنی مادری زبان کو ترجیح دی جائے اور اسی میں تعلیم و تربیت کی جائے۔ ایک بولنے کی زبان ہوتی ہے اور ایک سوچنے کی، بولنے کی زبان علاقوں کی مناسبت سے تبدیل ہو جاتی ہے مگر سوچنے کی زبان دنیا کے ہر کونے میں ایک ہی رہے گی۔ انسان کی صلاحیت اسی وقت باہر آتی ہے جب وہ اپنی سوچ میں آزاد ہو ، جب وہ سوچ میں آزاد ہو گا تو اسی زبان میں بولے گا۔ ہماری سوچ کی زبان مادری زبان ہوتی ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں انگریزی نہیں بلکہ وہاں کی قومی زبان پوری طرح سے رائج ہے اور وہاں تعلیم و تربیت اسی ملک کی مادری زبان میں دی جاتی ہے اور یہی ان ملکوں کی ترقی کا راز بھی ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ اردو کو جس دن پوری طرح نافذ کر دیا گیا ، اس دن انگریزی کے خوف کا شکار بچے اپنا خوف بھلا کر کھل کر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں گے۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر بننے سے بہتر ہے ہم اپنی زبان میں ہی تعلیم و تربیت کا آغاز کریں اور زبان کو قابلیت کا معیار نہ سمجھا جائے ، کسی کی بھی کارکردگی اس کی زبان سے مشروط نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).