گورنمنٹ کالج لاہور کی آواز خاموش ہو گئی


دن۔ دن۔ ٹاتا۔ ٹاتا کی آوازیں طبلے کی تھاپ سے اچھل اچھل کر کمرے کو موسیقی سے معطر کر رہی ہیں۔ پاس ہی بیٹھا کوئی ہارمونیم بجا رہا ہے۔ طبلہ دو ماترے سے چار ماترے، آٹھ ماترے اور پھر سولہ ماترے پر خروشاں ہے۔ اتنے میں کسی نے سر اٹھایا، سرگم الاپی اور سر یہ کومل سے رکھب ہوا۔ سرگم، تان اور الاپ بلند ہوا ، ساتھ ہی طبلہ بجنا شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے بنسری بھی چہکی۔ اتنے میں دور کہیں، کمرے کے اک کونے سے اک پاٹ دار گونجیلی آواز بلند ہوئی کہ تھاپ آٹھ ماترے کی لگاؤ اور راگ تھوڑا اور اونچا لگاؤ۔

یہ راگ بھیروی ہے، راگ رام کلی کی طرح اس کی اٹھان بھی بلند ہے، اس کی امروہی میں دا اور سا پر زور ہے۔ یہ راگ درباری نہیں جو آہستہ لے سے بلند ہو۔ کمرے میں موجود طلبا کے لیے یہ آواز مانوس تھی۔ مگر کسی نئے کے لیے بالکل نو دمیدہ اور بہت حد تک طلسم کشا بھی۔ دل میں جاننے کے لیے اک تمنا نے، تشکیک کے مادے نے سر اٹھایا یہ کون ہے جو گونجا تھا؟ نظر مغنیوں اور سازندوں سے بھٹکتی ہوئی اک کونے میں جا کر ٹھہر گئی۔

کتابوں کے ڈھیر سے تھوڑی پرے کو مڑتی ہوئی، سگریٹ کے مرغولوں کو چیرتی ہوئی، پیر موسیقی، عالم موسیقی سے جا ٹکرائی۔ یہی وہ چشمہ تھا جہاں سے موسیقی کا آب زلال سلسبیل کی مانند بہا تھا۔ ادھر ہی سے تان اٹھی تھی جس نے کانوں میں شہد ٹپکایا تھا۔ کتابی چہرہ، موٹی موٹی آنکھیں، کشادہ پیشانی، چیٹے سے عارض، چوڑا دھان، مہین سے لب، ناک کا پھنگ اونچا سا۔ جھری زدہ چہرہ، سکوت میں ڈوبے ہوئے، صلہ و ستائش سے دور، نمکین سا رنگ، کراری اور گونج دار آواز، ابلقی مگر پھریرے بال، اکہرا بدن، خاموش طبع۔

یہ گورنمنٹ کالج، لاہور کی آواز، تان سین گورنمنٹ کالج لاہور، طارق فارانی صاحب تھے جو چپکے سے شہر خموشاں میں جا بسے۔ گورنمنٹ کالج پر کوہ غم ٹوٹا ہے۔ وحشت و دکھ گورنمنٹ کالج لاہور کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر یہ اندوہناک خبر اب تک سنا رہے ہیں کہ فارانی صاحب نہیں رہے۔ سب دکھ کی ردا میں لپٹے ہوئے ہیں۔ کالج کی فضا غم آلود، نم ناک اور متالم ہے، سب طلبا، گزشتہ و موجودہ، کے قلوب آشوب بھرے ہوئے ہیں اور پہلوئے دل میں فرقت و تنہائی کے کانٹے چھب رہے ہیں۔ دل آپ کی حکایتوں سے لب ریز اور پر شور ہے۔ واقعات حافظے کی لوح پر کوند رہے ہیں۔ زندگی پل بھر ہی کی تو ہے!

ایک بجنے والا ہے۔ کمرہ موسیقی میں تخت پہ بیٹھے ہوئے سازندے نے ڈھگے اور بائیں ( طبلہ) کو کسنا شروع کر دیا۔ ہارمونیم سے دھنیں بکھرنا شروع ہوئیں۔ سب نادرست چیزوں کو قرینے سے رکھا گیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ آوازیں بھی بلند ہوئیں کہ فارانی صاحب آتے ہی ہوں گے۔

اتنے میں جھروکے سے باہر کسی مغنی کی نظر پڑی کہ فارانی صاحب غلام گردشوں میں سبک رو، سبک رو چلے آ رہے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں سیڑھیاں چڑھیں، کمرے کا دروازہ کھولا، خشونت نگہی سے سب کو یکبارگی دیکھا اور اپنی کرسی پہ براجمان ہوئے۔ بیٹھتے ہی سگریٹ سلگایا۔

تاسف! دور صبوحی کا آخری جام آج چھلک گیا۔
گورنمنٹ کالج کے فصحا کا جب جب نام لیا جائے گا آپ کا نام اس میں سرفہرست ہو گا۔

گورنمنٹ کالج لاہور میں کوئی بھی پروگرام ہوتا، اس میں موسیقی کا انتظام و انصرام آپ ہی کے سپرد ہوتا۔ پکے روایتی انسان تھے۔ اس نخلستان میں کھلے مغنی آپ کو آج تک نہ بھولے۔ سب کے نام حافظے کے قرطاس پر مع سنین نقش اور اوراق دل پر کندہ تھے۔ خون جگر میں انگلیاں ڈبو کر یہ لکھنا پڑ رہا ہے خاک پارس، آبدار و درخشندہ تر موسیقی کا مولا اس آبادان کو ویراں کر گیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی موسیقی کی چلتی پھرتی تاریخ مٹ گئی۔

آپ بنسری کے رسیا تھے۔ بانسری ( بنسری) سے جب آپ سر بکھیرتے تو ایسا محسوس ہوتا بے تھوون ( Beethoven ) کی سمفنی بج رہی ہے۔ فریڈرک ہینڈل ( Frederick Handel) خود آ کر اپنی الوہی دھن، مسایا ( Messiah) بجا رہا ہے۔ موسیقی کی اس راہ پہ چل کر ان گنت لوگ اپنی منزل کو پہنچے۔ بنسری سے اٹھنے والے سر کی مانند آپ ایک طرف سے پھوٹے اور دوسری طرف سے بکھر کر ابدی نیند جا سوئے۔ رومی نے شاید آپ ایسی اجلی شخصیات ہی کے لیے کہا تھا:

بشنو از  نے چوں حکایت می کنند
از جدائی ها شکایت می کند
اور پھر فرمایا:
سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق
تا بگویم شرح درد اشتیاق

پارہ پارہ، شرحہ شرحہ عشق کا راگ چھیڑنے والا، زخمہ، زنبور موسیقی سب کو اداس ہی تو کر گیا ہے۔ گورنمنٹ کالج ہر طالب علم گھنگھرو باندھ کر اور بن گھنگھرو آپ کی اٹھائی گئی موسیقی پہ ناچا ہے۔ آپ کے چلے جانے سے دل بے حد مضطرب و بے قرار ہے۔ دل کا مضطرب ہونا بنتا ہے کہ کیونکہ گورنمنٹ کالج کی موسیقی کا رطل گراں کرچی کرچی ہو چکا ہے۔ ہمتوں کا عجائب خانہ ڈھے گیا ہے۔ خاموش ہو گیا چمن بولتا ہوا۔ طارق فارانی صاحب کی نغمہ و زمزمہ بار الوہی آواز گورنمنٹ کالج لاہور میں تا دیر گونجتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).