ہم پاکستان کے مالک اور وارث ہیں


وطن عزیز میں کچھ عزیزوں کو یہ زعم ہے کہ اگر یہ ملک انہوں نے صحیح راستے پر نہیں ڈالا تو اس کا چلنا مشکل ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی حقیقی معنوں میں قوم نہیں، ایک بے شعور ہجوم ہے، جن کو وہ مسلسل قومی سانچے میں ڈھال رہے ہیں، قوم کی رہنمائی کے جملہ حقوق انہی کو حاصل ہیں۔ اس لئے وہ اپنا حق رہنمائی گاہے بگاہے استعمال کرتے ہوئے، ملک کے قطب نما کی درستی کی خاطر وہ کچھ بھی کر گزرتے ہیں، جس سے قوم بالکل بھی متفق نہیں ہوتی۔

ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی وہم ہے کہ وہ رہنمائی نہیں کریں گے تو کوئی ناگہانی پیش آ سکتی ہے، ان کے ڈر اپنی جگہ، لیکن وہ زمینی حقائق کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہاں تک کہ یہ بھی نہیں، کہ ایٹمی طاقت اور عسکری ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ملک بائیس کروڑ ننگے بھوکے اور نیم خواندہ پاکستانیوں کی پدری جائیداد اور آخری مورچہ ہے، جس کا ایک ایک مرلہ ان کے نام انتقال شدہ ہے، اور اس ایک ایک مرلے کی خاطر وہ دس دس دفعہ مرنے اور سو سو دشمن مارنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔

یہ اور بات ہے کہ اس ملک کے چلانے میں ان کے مشورے، شراکت داری اور مرضی کو کسی نے بھی کبھی کوئی اہمیت نہیں دی۔ ان بدحال پاکستانیوں کے کہیں کسی اور ملک میں گھر ہیں، جائیدادیں ہیں، اولادیں یا روزگار، اور نہ ڈالر اور یورو اکاؤنٹ۔ جنہوں نے کبھی ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سے قرضے لیے ہیں نہ ملک لوٹا ہے، نہ کسی کے ساتھ تزویراتی اور نظریاتی مقاصد کے تحت شراکت داری کی ہے، نہ ترقی کے نام پر اور نہ اسلحے کے بدلے میں اس ملک کو گروی رکھا ہے۔

یہ خود امریکہ، برطانیہ اور یورپ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں پڑھے ہوئے ہیں نہ ان کے بچے وہاں پڑھتے ہیں، لیکن ٹوٹے ہوئے بنچوں اور بغیر بجلی کے سکولوں اور کالجوں میں، دنیا اور مافیہا سے بے خبر اساتذہ سے، پاک سٹڈیز اور خصوصی وضع کردہ جنگی اور فرقہ وارانہ اسلامیات کے رٹائے گئے اسباق لینے کے باوجود بھی، جب بھی موقع پاتے ہیں، تعلیمی آئیوڈین کے اثرات سے آزاد رہ کر ملک وقوم کی بہتری میں شاندار اور ناقابل یقین سیاسی فیصلے کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر الیکشن کے انعقاد کے بعد ان ”بندوبستیوں“ کی مایوسی قابل دید ہوتی ہے۔

جی ہاں ہم وہی ہیں جو مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں تو اپنے بھائیوں کے ساتھ صف میں کھڑے ہونے سے پہلے اپنی چپل گزشتہ تجربات کی روشنی میں اپنے سامنے رکھتے ہیں، لیکن نماز پڑھنا نہیں چھوڑتے۔ ہم وہی ہیں جو نیکی کی نیت سے ٹھنڈے پانی کا کولر سر بازار رکھیں تو چوری ہو جانے کی ڈر سے گلاس کو لوہے کی زنجیر سے باندھتے ہیں، لیکن ٹھنڈا پانی پلانا نہیں چھوڑتے، ہم وہی ہیں جب زلزلہ آ جائے تو ٹرک بھر بھر کر خوراک، گرم کپڑے اور بستر اپنے مصیبت زدہ بہن بھائیوں کو بھیجتے ہیں اگرچہ وہ راستے میں دوسرے لوگ لوٹ لیتے ہیں، پھر بھی ہم امداد سے ہاتھ نہیں اٹھاتے۔

ہم وہی ہیں کہ جب سیلاب اور فوجی آپریشنز کی وجہ سے ہمارے ہم وطن بے گھر ہو جائیں تو ہم اپنے گھروں سے بیٹے کی تعلیم، بیٹی کے جہیز، یا بڑھاپے کی خاطر پس انداز کی گئی رقم، مصیبت زدہ بھائیوں میں تقسیم کرنے پہنچ جاتے ہیں، اگرچہ اس میں بھی اکثر اشیا مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں لیکن ہم اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ ایدھی ہو یا عمران، مسیحا ہو یا دجال، ہم سے جب بھی اللہ کے نام، انسانیت کی خاطر یا قوم اور وطن کی بہتری کے لیے مانگا گیا، ہم نے اپنا پیٹ کاٹ کر دیا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کورونا میں بائیس کروڑ محصور لوگوں کو حکومت نے کتنی سرکاری امداد دی تھی، جس کی بین الاقوامی اسناد وہ ہمیں دکھاتی پھرتی ہے؟ وہ ہم تھے جس نے ایک روٹی کھائی اور دوسری اپنے ہمسایہ کے گھر بھیجی۔ این ڈی ایم اے یا باہر کی دنیا خاک جانتی ہے؟ ہم ہی ٹائیگر ہیں اور ہم ہی فورس۔

پچھلے سال کے لاک ڈاؤن کے دوران، فلیٹ کی گھنٹی رات گئے بجی، میں نے دروازہ کھولا، تو ایک عام پاکستانی کھڑا تھا، ساتھ میری دہلیز پر آٹے کی بوری، گھی کے کنستر، چینی سے بھرے ہوئے دو شاپر، پتی کے پیکٹس، سرف اور صابن پڑا تھا، میں نے پوچھا، یہ کیا ہے؟ اس نے کہا، آپ کا حصہ۔ میں نے انکار کیا کہ کسی ضرورت مند کو دے دیں، میں تو برسر روزگار ہوں۔ اس نے جواب دیا، سب کو دے دیا ہے، آپ اپنے علاقے سے دور ہیں اور ہم سب مقیم، اس لئے یہ آپ کا حصہ ہے۔ خود کو اکیلا نہ سمجھیں۔ (یہ پنجاب کی کہانی ہے)

ہم مزدور ہیں، اپنے گھر بھی چلاتے ہیں، بچوں کو تعلیم بھی دلاتے ہیں، ان کو قوم کی حفاظت کے لیے فوج اور پولیس میں بھرتی ہونے کے لیے بھی بھیجتے ہیں اور ٹیکس کی سکت نہ رکھنے کے باوجود، استعمال کرنے والی ہر چیز پر ٹیکس دے دے کر حکومت کا سفید ہاتھی بھی پالتے ہیں۔ ہم نہ کم ہیں نہ کمزور، لیکن وطن کے معاملات میں ہماری مداخلت، شراکت، حق ملکیت اور مرضی روز بروز کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ ہم سب کچھ سے لاتعلق ہوتے جا رہے ہیں بلکہ اب سب کچھ کا مذاق اڑانے لگے ہیں۔

کوئی کسی ائیرپورٹ پر ہمارے وزیراعظم کی توہین کرے، کسی ملک میں، اس قرض میں، ہمارا جہاز پکڑا جائے جو ہم نے کبھی لیا ہی نہ ہو، ہماری ایمبیسی کا اکاؤنٹ فریز ہو جائے، ہمارا ہوٹل پکڑا جائے، یا کچھ اور، تو اب ہم اس پر افسوس نہیں کرتے، ہم اس کو اپنا نقصان، اپنی توہین نہیں سمجھتے، بلکہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ نفسیات کے علما بے بسی اور مایوسی کی آخری سرحد پر پہنچے ہوئے فرد کی خود فراموشی کی حالت میں اپنے آپ پر ہنسنے کی بات بہت پہلے کر چکے ہیں۔

مصنوعی پنیریوں اور نرسریوں کے ذریعے قومیں بنتی ہیں نہ پنپتی ہیں۔ اگر مصنوعی ذرائع یا قلمی کاشت کاری یا زور زبردستی سے قومیں بنائی جا سکتیں، تو روس جیسی فوجی اور ماضی کی صنعتی طاقت، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، کرغیزستان اور ازبکستان کے نام، زبان، مذہب اور کلچر کو بالکل ختم کر چکی ہوتی۔ خالی خولی مبہم نظریات سے قومیں بنتیں تو یوگو سلاویہ آج کروشیا، سلووینیا، مسوڈونیا، بوسنیا، ہرزیگوینا اور سربیا میں تقسیم نہ ہوتا۔

ممالک اور اقوام کی مضبوط بنیادوں اور دیرپا عمارت کے لیے جمہوری اقدار، برابری، قانون کی عملداری، غیر مبہم اور متفقہ آئینی بندوبست، حکومتی معاملات میں عوام کی مرضی سے ان کی شمولیت، ان کی زبان، عقائد، کلچر، تاریخ، روایات اور ہیروز کو مطلوبہ مقام اور اہمیت دینا، ملکی وسائل اور دولت میں ان کو نہ صرف حصہ دار بنانا بلکہ ان کو اس کی ملکیت کا احساس دلانا بہت ضروری ہوتا ہے۔

حملہ آوروں کی تاریخ، عربی کلچر، غیر ملکی ہیروز، اقلیت کی زبان، سارے کے سارے بہت نازک سہارے ہیں۔ سرکاری پنیری میں اگائے گئے سیاسی بونے اور فرقوں، مذہبوں اور مولویوں کے ذریعے تقسیم کردہ قوم جس کا نعرہ لا الہ الا اللہ ہو، لیکن جو ایک ساتھ ایک دن روزہ رکھ سکتی ہو نہ عید کر سکتی ہو، ان کے لئے افسانوی تاریخ اور الوہی نظریات کی بجائے، بہت گہری اور مضبوط حقیقی بنیادوں کی ضرورت ہے۔

اردو زبان میں ملکی زبانوں کے الفاظ، ضرب الامثال نئے قواعد و ضوابط کی شمولیت پر میں نے 23 جنوری 2021 کو شائع شدہ اپنے کالم ”اردو زبان اور اس سے جڑے ہوئے مسائل“ میں مختصر بات کی ہے، ان اصولوں کو مدنظر رکھ کر اردو زبان کو پاکستانی زبان کا نام دیا جاسکتا ہے، لیکن یہ سب 73 سال پہلے ہونا چاہیے تھا، جب اردو کو پاکستان میں قومی زبان بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اگر ملک کو مزید نسلی لسانی علاقائی مذہبی اور فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنا مقصود نہ ہو اور قوم کو حقیقی معنوں میں پاکستانی بنانے کا ارادہ ہو تو یہاں پر رہائش پذیر سب اقوام کو برابری کی سطح پر تسلیم کرتے ہوئے ان کی زبانوں کو قومی زبانیں مان لیا جائے۔

ایک سو 33 زبانیں بولنے والے انڈیا میں آٹھ قومی زبانیں ہیں تو ہم اپنی چار پانچ زبانیں برابری کی بنیاد پر قومی زبانیں کیوں تسلیم نہیں کر سکتے؟ ہر صوبہ سالانہ دس دس ہزار کی تعداد میں قابل بچے دوسرے صوبوں میں سرکاری سرپرستی میں حصول تعلیم کے لئے بھیجے اور خود دوسرے صوبوں کے قابل بچے قبول کرے، ان سارے بچوں کو سرکاری خرچے پر آٹھویں سے گریجویشن تک بہترین اساتذہ کی نگرانی میں تعلیم دلائی جائے، جس میں ”متفقہ قومی نصاب“ کے ساتھ ساتھ، اس صوبے کی زبان میں، اسی صوبے کی عوامی تاریخ، کلچر، روایات، ہیروز اور ادب پر مشتمل کتاب میں، اعلیٰ درجے کی کامیابی کو لازمی کر دیا جائے۔

دوسرے صوبوں سے وہاں کی زبان کے ماہرین خاص تعداد میں اپنے صوبے میں اساتذہ اور لیکچررز کے طور پر بھرتی کیے جائیں، اور اپنی زبان کے ماہرین اساتذہ کے طور پر دوسرے صوبوں میں بھیجے جائیں، جو بقایا رہ جانے والے بچوں کو آٹھویں سے گریجویشن تک، مذکورہ اساتذہ کی مادری زبان میں تیار کردہ عوامی ادبی اور ثقافتی تاریخ اپنے علاقے میں پڑھائیں۔ اس طرح ایک صوبے کے زبانی اور تاریخی ماہرین کو دوسرے صوبے میں نہ صرف روزگار مل جائے گا بلکہ ثقافتی، نسلی اور لسانی حدبندیاں بھی ختم ہونا شروع ہو جائیں گی۔

ایک دوسرے کے صوبوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے مستقبل میں نہ صرف یہ کہ اپنے صوبوں میں دوسرے صوبوں کی زبان، تاریخ اور ثقافت کے ماہرین شمار ہوں گے بلکہ ان کو اپنے صوبے میں دوسرے صوبے کی زبان و ثقافت پڑھانے کے مواقع بھی میسر ہوں گے، ساتھ ساتھ وہ دوسرے صوبوں میں جا کر وہاں بھی اساتذہ کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس طرح آنے والے بیس سال میں ہم لاکھوں ایسے پنجابی، سندھی، بلوچ، پختون اور سرائیکی پاکستانی تیار کرنے کے قابل ہو جائیں گے جو پنجابی سے پنجابی، بلوچ سے بلوچی، پختون سے پشتو، سرائیکی سے سرائیکی اور سندھی سے سندھی زبان میں بات چیت کرنے، نصاب پڑھانے اور روزگار کرنے کے قابل ہوں گے ۔

ایک دوسرے کی زبان سیکھنے اور اس میں اپنا مدعا بیان کرنے سے بہت ساری دیدہ اور نادیدہ دیواریں گرائی جا سکتی ہیں، جھوٹ، نفرت، پروپیگنڈے، غلط سلط روایات، توہین آمیز لطیفوں، برخود غلط تعلی، تنگ نظری، نسل پرستی، علاقائی اور فرقہ وارانہ تعصبات کے خاتمے کے علاوہ ففتھ جنریشن تو کیا اس طرح ہر جنریشن کی جنگ وجدل کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ غداری کے تمغے دینا فوجداری قوانین کے تحت قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔ فتویٰ گردی بھی دہشت گردی کی طرح قابل دست اندازی پولیس قرار دی جائے۔

ہم میں سے غالب اکثریت اس ملک کے قدیم باشندے ہیں، ہمیں کسی نے فتح کر کے اس ملک میں زبردستی شامل کیا ہے نہ ہم کوئی مقبوضہ کالونی ہے، ہم اپنی مرضی سے اپنی زمین پر آباد ہیں۔ قانون کی عملداری، آئین کی پاسداری، برابری، معاشی انصاف، جمہوری طرز حکومت اور انسانی سیاسی حقوق کی حفاظت اور فراہمی ریاست کی اولین ترجیحات میں شامل ہو تو کوئی موہوم اور کتابی نظریہ ہو یا نہ ہو، ہم رہیں گے اور یہ ملک بھی ہو گا۔ ڈرنے کی کوئی بات نہیں، کیونکہ یہ ہمارا پہلا اور آخری ملک ہے، دنیا کا کوئی بھی ملک ہم عام پاکستانی کو ویزہ دینے کا روادار نہیں، انڈہ ٹوٹ کر آملیٹ بنے تو پھر اس سے انڈہ نہیں بن سکتا۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani