انسانی تہذیب کا ارتقاء


انسان نے جب اس لرزتی ہوئی زمین میں اپنا پہلا قدم رکھا تو اسی روز سے اس کے ذہنی، تہذیبی، سماجی اور معاشی ارتقاء کا سفر بھی شروع ہوا۔ آج انسان دیو مالائی ، طلسماتی اور افسانوی دنیا کے خطرناک اندھیروں کو چھوڑتا ہوا ایک سائنسی، جدید اور حقیقی دنیا میں داخل ہو چکا ہے۔

زندگی اور کائنات کے بارے میں انسان کے اعتقادات اور نظریات آج یکسر تبدیل ہو رہے ہیں۔ وہ ایک جادوئی اور افسانوی دنیا سے ایک حقیقی دنیا میں منتقل ہو رہا ہے۔ آخری برفانی زمانے کی وحشیانہ ثقافت بھی آج دم توڑ چکی ہے اور انسان ایک نئے ثقافتی اور تہذیبی ارتقاء کی طرف گامزن ہے۔ آج انسان دنیائے حیوانیت اور سفاکیت سے ترقی پا کر انسانیت کے مقام پر پہنچا ہے۔

اس سے پہلے انسان بھی دوسرے حیوانی گلوں کی طرح ننگے پیر زمین پر چرتا تھا۔ اس کا طرز عمل اور طرز زندگی دوسرے حیوانوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔ اس کی ذہنیت بھی حیوانوں جیسی ہوا کرتی تھی۔ نسل انسانی نے اپنے حیوانی اور پست وجود سے آگے بڑھ کر حیرت انگیز نشوونما کے مراحل کو طے کیا۔ وحشت اور حیوانیت سے انسانیت کا سفر ہزاروں برسوں پر محیط ہے۔ انسان نے یہ سفر بڑی مشکلوں اور تکالیف کا سامنا کرتے ہوئے طے کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ انسان نے بڑے حوصلے اور ہمت کے ساتھ دوسری خطرناک اور مہلک قوتوں کا مقابلہ کیا، جن کا تعلق انسان کی معاشی اور معاشرتی زندگی سے تھا۔ ان میں جہالت، جھوٹ ، حسد اور تکبر وغیرہ شامل ہیں۔ اس نے یہ ساری رفعتیں اپنی مسلسل کوششوں سے حاصل کیں۔ انسان نے آدمیت سے انسانیت کے سفر میں بے انتہا صعوبتیں برداشت کیں اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو پروان چڑھایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج انسان حق کی حمایت کرتا ہے۔ برائی کا مقابلہ بڑی دلیری اور جواں مردی سے کرتا ہے۔ سچائی کا حامی ہے۔

اسی طرح انسان نے اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کے ظہور کے لیے ہارڈ ورک کے بجائے سمارٹ ورک کو ترجیح دی۔ آج کا انسان جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے زمین اور آسمان کے راستوں میں محو پرواز ہے۔ لیکن یہ تمام مادی ترقی انسان کا سب سے بڑا کارنامہ ہرگز نہیں ہے۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انسان نے رفتہ رفتہ حیوانیت کی روش کو ترک کیا اور خود کو انسان کے مرتبے پر فائز کیا۔

اللہ تعالی قرآن مجید کے سورة دہر میں فرماتا ہے کہ ”کیا انسان پر عالم دہر میں وہ وقت نہیں گزرا جب وہ کوئی قابل ذکر چیز ہی نہ تھا“ ۔ یہ انسان کی اس ابتدائی حالت کا ذکر ہے جب وہ حیوانیت سے انسانیت کے مراحل کو طے کر رہا تھا۔ انسان نے اپنی درندگی کی روش کو ترک کرنے کے لئے خوب محنت کی۔ چونکہ انسان اندرونی طور پر نادر الوجود اور غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقاء کا سفر اسی آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ انسان آج بھی تہذیبی ترقی کی راہ پر پوری طرح گامزن ہے۔ اس کا تحقیقی اور تخلیقی کام برابر جاری ہے۔ وہ تہذیب جدید کی تولید میں مستقل طور پر مصرف عمل ہے۔ وہ تغیر اور انقلاب کی بلند فضا میں آج بھی محو پرواز ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).