خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے



تخیل نے خدوخال ترتیب دیے تو جذبات نے اظہار کی اجازت چاہی۔ الفاظ نے سیاہی کا لباس پہنا تو احساسات نے بھی زندگی کی رمق کو محسوس کیا۔ آنکھ نے عکس کو محفوظ کیا تو صفحۂ دل پر بھی نشان باقی رہ گیا۔ یادوں کے بے ترتیب خاکوں سے گرد ہٹی تو مسکراہٹوں نے ان میں رنگوں کا جال بکھیرا۔ کانوں نے کسی کے قدموں کی چاپ سنی تو دل کی دھڑکن نے قدم سے قدم ملائے۔ ادھر ایک قدم اٹھا تو ادھر ایک دھڑکن پوری ہوئی۔

خیال کا وہ لمحہ کہ جسے دیکھ سکیں نہ چھو سکیں، اتنا معتبر کیسے ہو گیا کہ وقت سحر سا پاکیزہ ٹھہرا؟ اظہار جذبات احترام کے دائرے میں مقید ہوں تو فرشتے بھی اشرف المخلوقات ہونے کی آرزو کریں۔ الفاظ حدود آشنائی سیکھ لیں تو صحیفہ الہامی کی سی تقدیس حاصل کریں۔ احساسات کو باطن کی شہادت ملے تو موجودات سے مقدم ٹھہریں۔ عکس زلف یار کا ہو تو آنکھ کی تشنگی برقرار رہے۔ یادوں کے چراغ آنکھوں میں جگمگائیں تو آسمان کے ستارے بھی اس کی روشنی کو ترسیں اور دل کی دھڑکن کو ’ادائے لغزش پا‘ کی پہچان ہو جائے تو محبت بھی رشک کرے۔

خدا کے حکم ’کن‘ سے انسان نے شعور کی آنکھ کھولی تو گویا ایک کھوئے جہاں کا سراغ اس کے ہاتھ لگ گیا۔ کاتب تقدیر نے راستے بنائے تو ان پر چلنے کا اختیار انسان کو یہ کہہ کر دیا کہ انا ہدیۡناہ السبیۡل۔ زیست کے خاکے خود تخلیق کیے لیکن رنگوں کا اختیار فیصلہ انسانی پر یہ کہہ کر چھوڑا کہ اِما شاکراً و اما کفوراً۔ جانوروں کے برعکس اس کو سوچنے کی صلاحیت دی تو سوچنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ فالھمھا فجورہا و تقواھا کہہ کر اس کی آزمائش کی۔ مشاہدات مہیا کیے، دلائل کے انبار لگا دیے، خیر و شر کا ازلی شعور اس کی فطرت میں ودیعت کیا اور پھر قد افلح من زکاھا کہہ کر اس پر نتیجے کی مہر لگائی۔

قدرت کا یہ اصول ازلی و ابدی ہے۔ یہ ایسے ہی متعین ہے جیسے خود انسان کا اپنا وجود۔ یہی وہ قانون ہے کہ جس نے اسے وہ شرف عطا کیا کہ ملائک نے اس کی تعظیم کی۔ شعور محض حقیقت کا ادراک نہیں، باطل کی پہچان بھی اسی کا خاصہ ہے۔

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے
مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی سوز نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے
نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں
نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشم سرمہ سا کیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).