20 فروری 1921: گرودوارہ جنم استھان میں قتل عام کا سانحہ


خدا نے بندوں میں تقسیم کے لیے ایک ہی پیمانہ متعارف کروایا اور وہ تھا ظالم اور مظلوم۔ ہم صرف اسی ایک کسوٹی پہ انسانوں اور گروہوں کو تول سکتے ہیں۔ ہر مظلوم خدا کا حمایت یافتہ جبکہ ہر ظالم کی جنگ اپنے خالق سے ہے۔ خود فریبی نے جب اپنے پنکھ پھیلائے تو انسان نے اس اعلی ترین پیمانہ کو ترک کر کے تقسیم کے کئی دیگر معیار بھی بنا لیے۔ جن میں سے ایک مذہب کی بنیاد پہ انسان کو انسان کا پرکھنا بھی تھا۔ اس تقسیم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مذہب کی آڑ میں خود احتسابی کا عمل اپنا تسلسل برقرار نہ رکھ سکا۔ اپنا ہم مذہب جیسا بھی تھا اس کے جرائم پہ مذہب کا پردہ پڑنے لگا۔ اعتدال کا دامن ہاتھ سے سرکا تو ہم نے ان مظلوم گروہوں کے دکھ کو محسوس کرنا چھوڑ دیا جن کا مذہبی نظریہ ہم سے مختلف تھا۔

برطانوی استعمار نے جہاں اس معاملے میں ہندوستانی آب و ہوا کو مذہبی کشیدگی سے آلودہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہیں پہ یہاں کی اقوام نے بھی دوسروں پہ ہونے والے مظالم سے طوطا چشمی برتنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا نہیں رکھی۔ امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں برطانوی گولی بلا تفریق مذہب سب پہ یکساں چلی لیکن تقسیم ہند کے بعد بارڈر کے اس پار ہونے کے باعث ہمارے ہاں اسے تاریخی ورثے میں جگہ نہ مل سکی۔ اسی طرح قتل و غارتگری کی ایک بڑی واردات 20 فروری 1921 کو ننکانہ صاحب میں انگریزی پشت پناہی میں سر انجام دی گئی۔ جس میں 120 پر امن اور نہتے سکھ یاتری اس وقت اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جب وہ اپنے گرود وارے میں مذہبی رسومات میں مشغول تھے۔ لیکن ہماری قومی یاداشت دھرتی کے سینے پہ ہوئے اس ظلم پہ اپنا وزن مظلوم کے پلڑے میں ڈالنے میں ناکام رہی ہے۔

برصغیر میں مغلیہ دور کے زمانہ عروج میں سیاسی مخالفت کی بنا پہ سکھ مذہب کو بہت سے مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص کر اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں سکھوں پہ کافی کڑا وقت تھا۔ کیونکہ سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو نے اورنگ زیب کی بجائے شہزادہ خسرو کی حمایت کی۔ اورنگ زیب کے زمانے میں سکھ ریاستی ظلم و زیادتی کے باعث اپنے گھر بار چھوڑ کر جنگلوں، پہاڑوں اور صحراوں میں روپوش ہو گئے۔ اس دوران سکھوں کے مذہبی عقیدت کے حامل مقامات اور گرودوارے خالی ہو گئے تو ان کی نگہداشت کی ذمہ داری ہندو مہانتوں نے اٹھا لی۔ پھر وقت کا پہیہ کچھ یوں گھوما کہ پنجاب میں انیسیویں صدی کے آغاز میں ہی سکھ اقتدار قائم ہو گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے لاہور کو دارالحکومت بنا کر وسیع عریض حکومت قائم کی۔ رنجیت سنگھ کی توجہ گرودواروں کی خستہ حالی کی طرف گئی تو بڑی بڑی جاگیریں ان کے ساتھ منسلک کردیں۔ جس سے گرودوارے خوشحال ہونے لگے۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بعد سکھ اقتدار اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا اور انگریزوں نے پنجاب پہ بھی قبضہ کر لیا۔ پنجاب میں سکھوں کو سیاسی طور پہ کمزور رکھنے کے لیے ہندو مہانتوں کی انگریزوں نے کھل کر حمایت کیا۔ کیونکہ گرودوارے سکھوں کے اتحاد کے مراکز بن سکتے تھے۔ انگریزوں کے پاؤں مضبوط ہوتے ہی مہانتوں نے گرو دواروں کو عیاشی کے اڈے بنا دیا۔ جہاں شراب نوشی، رقص کی محفلیں اور زنا سمیت دیگر اخلاق سے گری سرگرمیاں روز انہ کا معمول بن گئی۔ مذہبی مقامات کی تذلیل کو لے کر سکھوں میں کئی تحریکوں نے جنم لیا۔ جن کے ذریعے مہانتوں کو اپنے طور طریقوں میں سدھار لانے کے لیے کہا گیا۔ لیکن پیسے کی ریل پیل اور انگریز پشت پناہی نے مہانتوں کی رعونت میں اضافہ کر دیا۔

ننکانہ صاحب میں واقعہ گرودوارہ جنم استھان کا مہانت نرائن داس مرکزی حیثیت کا حامل تھا کیونکہ اس گرودوارے کے ساتھ 19 ہزار ایکڑ زمین منسلک تھی۔ گرودوارا ریفارمز کمیٹی نے 5 اکتوبر 1920 کو سیالکوٹ میں گرودوارہ بابے دی بیر، اکال تخت اور گرودوارہ دربار صاحب کا کنٹرول حاصل کر لیا تو مرکزی گرودوارے کے حصول کی جد جہد اور بھی تیز ہو گئی۔ اس مقصد کے لیے سردار لچھمن سنگھ، سردار قہر سنگھ اور کرتار سنگھ ورک المعروف کرتار سنگھ جھبر نمایاں شخصیات کے طورپہ سامنے آئے۔

مہانت نرائن داس انتہائی شاطر انسان تھا جوایک ہی وقت میں انگریز سرکار کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھا اور گردوارہ ریفارم کمیٹی کو بھی تسلی دیے ہوئے تھا۔ اس نے 14 فروری 1921 کی ایک میٹنگ میں انگریز انتظامیہ کے ساتھ مل کر 5 مارچ 1921 کو متحرک سکھ سراروں کو قتل کر کے گرودوارہ واگزار کروانے کی تحریک کو کچلنے کا پلان ترتیب دیا۔ لیکن جلیانوالہ باغ کے واقعہ کے بعد بین الاقوامی دبائو کے پیش نظر برطانوی حکومت خود سے کسی قتل و غارت میں ملوث ہونے سے گریزاں تھی۔ اس لیے مہانت نے 400 کے قریب غنڈے اور کرائے کے قاتل بھرتی کیے جنہیں انگریز اسلحہ ڈپو سے اسلحہ فراہم کیا گیا تاکہ اس واردات کو سر انجام دیا جا سکے۔

17 فروری 1921 کو پربندھک کمیٹی کی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ سکھوں کے دو جتھے سردار لچھمن سنگھ اور کرتار سنگھ جھبر کی سربراہی میں مہانت سے جا کر ملیں گے اور گرودوارے کی حوالگی کا مطالبہ کریں گے۔ دونوں جتھوں نے 19 فروری 1921 کو چندر کوٹ کے مقام پہ مل کر 20 فروری 1921 کو آگے گرودوارہ جنم استھان جانا تھا۔ 19 فروری 1921 کو مہانت نرائن داس کی جانب سے کی جانے والی تیاریاں جب پربندھک کمیٹی کے علم میں آئیں تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ جتھوں کو روک کر مناسب تیاری کے ساتھ دوبارہ بھیجا جائے۔ پربندھک کمیٹی کا خط جب کرتار سنگھ جھبر کو ملا تو وہ اپنے جتھے ساتھ واپس ہو گئے لیکن 150 پرامن اور غیر مسلح لوگوں کا جتھہ لے کر سردار لچھمن سنگھ 19 فروری 1921 کو چندر کوٹ پہنچے۔ اور ننکانہ صاحب روانہ ہو گئے۔

جب سکھوں کے جتھے گرودوارہ کے صحن میں بیٹھ گئے تو مہانت نے اپنے آدمیوں کو پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت اشارہ کیا۔ جب حملہ شروع ہوا تو سکھ مقدس تسبیح کا ورد کر رہے تھے۔ ملحقہ عمارت کی چھت سے ان پر گولیوں کی بے رحمی سے بارش کی گئی۔ سردار لچھمن سنگھ کو گرو گرنتھ صاحب کی حاضری پر بیٹھے ہوئے گولی ماری گئی۔ صحن میں ان گولیوں سے چھبیس سکھ شہید ہو گئے جبکہ دربار صاحب کے اندر بیٹھے ساٹھ لوگ گولیوں کا نشانہ بنے۔ جب مہانت کے آدمیوں نے کسی کو حرکت کرتے نہیں دیکھا تو وہ تلواریں اور برچھیاں لے کر نیچے آئے۔ جس بھی سکھ کو انہوں نے سانس لیتے دیکھا ٹکڑوں میں کاٹ دیا۔ سردار لچھمن سنگھ کو زندہ زخمی حالت جنڈ کے درخت کے ساتھ لٹکا کر آگ لگا دی گئی۔ وہ جنڈ آج بھی گردوارہ میں سکھ شہیدی کے طور پہ موجود ہے۔

جب یہ خبر پنجاب کے دیگر علاقوں تک پہنچی تو عوامی ردعمل کو کنٹرول کرنے کے لیے مہانت سمیت 20 پٹھانوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ جنہیں مہانت نے قتل و غارت کے لیے بھرتی کیا تھا۔ گرو دوارہ کو تالا لگا دیا گیا اور شہر کو فوج کے حوالے کر دیا۔ سردار کرتار سنگھ جھبر 21 فروری کو اپنے جتھے کے ساتھ آئے تو کمشنر لاہور مسٹر کنگ نے انہیں آگاہ کیا کہ اگر انہوں نے اپنے جتھے کے ساتھ شہر میں داخل ہونے کی کوشش کی تو فوج فائرنگ کر دے گی۔ کرتار سنگھ جھبر اور ان کے بائیس سو سکھوں کے جتھے نے کمشنر کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور شہر کی طرف بڑھتے رہے۔ آخر میں ڈپٹی کمشنر لاہورمسٹر کورے نے سکھ جتھے کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور گرودوارہ کی چابیاں سردار کرتار سنگھ جھبر کے حوالے کردیں۔

مولانا ظفر علی خان نے اپنے اخبار زمیندار میں 23 فروری 1921 کے اداریہ میں اس واردات پہ مسلمانوں کے رویے کے بارے لکھا ”مسلمانوں کی بے شرمی کے اس سے زیادہ اور کیا ثبوت درکار ہوں گے کہ انہوں نے مہانت کی مدد کی ہے۔ اے بے شرم مسلمان! کیا تیری بے شرمی اور بے راہ روی کا جام ابھی تک نہیں بھرا ہے؟ تم نے اپنی بندوقیں اور تلواریں ان لوگوں کے خلاف استعمال کیں جو مذہبی فرائض کی انجام دہی کے لئے ننکانہ صاحب گئے تھے۔ آپ کو مسلمان کہلانے کے قابل نہیں ہیں۔ آپ کافروں سے بھی بدتر ہیں۔“

اب اس واقعہ کو سو برس ہو گئے ہیں لیکن ہم اس قتل و غارت کی واردات کو اپنی دھرتی کا ورثہ نہیں بنا سکے۔ ہم ظالم اور مظلوم میں سے کس کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنا چاہتے یہ واضح نہیں کر سکے۔ بلاشبہ اللہ کے ہاں بندوں کی تقسیم ظالم اور مظلوم کے درجوں میں ہے۔ ہم قومی سطح پہ ان مظلوموں کو خراج عقیدت پیش کر کے اپنے آپ کو مظلوم کے ساتھ کھڑا کر سکتے ہیں۔ بے شک بحیثیت مسلمان ہمیں یہی زیب دیتا ہے کہ ہم دیر آید درست آید کے مصداق بن کر سوگوار خاندانوں کو سو سال بعد ہی اپنی تعزیت پہنچا دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).