پاکستانی فلمی صنعت کا ایک معتبر نام موسیقار موسیقار بخشی وزیر


وہ 2017 کا کوئی مہینہ ہو گا۔ میں روزنامہ نوائے وقت کے صفحہ فن و ثقافت کے لئے پاکستان کے نامور موسیقاروں پر لکھ رہا تھا۔ گاہے بگاہے انٹر نیٹ سے بھی استفادہ کیا۔ لیکن جب موسیقار بخشی وزیر پر کام شروع کیا تو راستے محدود ہو گئے۔ لیکن مزید معلومات کے لئے جستجو جاری رہی۔ پھر خوش قسمتی سے 2020 میں حضرت تنویرؔ نقوی کے بیٹے شہباز کی معرفت وزیر حسین صاحب کے بیٹے نعیم وزیر تک رسائی ہوئی۔ اور ایک لمبی نشست ان کے اسٹوڈیو میں ہوئی۔ اس کے کچھ دلچسپ حصے آپ کے لئے حاضر ہیں :

نعیم وزیر سے بات چیت:

” میرے لئے بڑی سعادت کی بات ہے کہ آج اس ہستی کے بارے میں بولنا ہے جس کی وجہ سے میں آج ہوں۔ وہ میرے اتالیق، استاد میرے باپ ہیں جن کی حوصلہ افزائی سے میں نے زندگی میں بہت کچھ سیکھا۔ آج جہاں بھی ہوں ان ہی کی تربیت کا صدقہ ہے۔ بہت سے لوگوں نے اپنی زندگی میں میوزک کیا لیکن یا وہ اتفاقیہ کیا یا ان کو ماحول ایسا ملا کہ وہ میوزک میں آ گئے۔ لیکن میں یہ بڑے وثوق سے یہ بات کروں گا کہ موسیقار جوڑی بخشی وزیر کے وزیر صاحب اس میوزک اندسٹری میں وہ واحد انسان ہیں جو میوزک کے لئے باقاعدہ ڈیزائن کیے گئے!

ہماری سات نسلوں میں کلاسیکل گانا رائج تھا۔ میرے والد وزیر حسین، ان کے والد غلام محمد صاحب، ان کے والد صاحب علی بخش، ان کے والد صاحب نبی بخش اور ان کے والد صاحب میراں بخش۔ یہ سب لوگ اپنے دور کے کلاسیکل گلوکار تھے۔ مغل دربار شاہی قلعہ میں جا کر گا تے تھے۔ یہ گھرانا بارود خانہ کے علاقہ میں ’۔ نیویں‘ گلی میں رہتا تھا۔ بعد میں یہ ’محلہ سمیاں‘ میں منتقل ہو گئے“ ۔

” میرے چھوٹے دادا، استاد عاشق علی خان صاحب کلاسیکل سنگر تھے۔ شروع کچھ اس طرح ہے کہ میرے والد وزیر حسین صاحب کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا۔ جب انہوں نے پانچویں جماعت کا امتحان پاس کیا اور سرٹیفیکیٹ لے کر گھر آئے اور میرے دادا سے چھٹی کلاس میں داخلہ لینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہاں کیا بات ہوئی اس سے پہلے میں آپ کو ماضی میں لے کر جاؤں گا۔ 1945 کا واقعہ ہے ایک دن دادا شاہی قلعے گئے اور اس کو دیکھ رہے تھے کہ اتنے میں ایک انگریز کی سواری آئی۔

اس کے آگے گارڈ نے دادا کو پیچھے ہٹ جا نے کا کہا۔ یہ دادا کو اچھا نہیں لگا اور کچھ بحث بھی ہوئی جس میں دادا نے گارڈ کوبتایا کہ یہ انگریز کی جگہ نہیں یہ ہمارے بہادر شاہ ظفر کی جگہ تھی ان کے پاس ہمارے بڑے آتے تھے۔ ان کے ساتھ محفلیں گا تے تھے۔ میں اس قلعے کو شوق سے دیکھنے نہیں بلکہ باز گشت سننے آیا ہوں۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ تم گوروں مقابلہ نہیں کر سکتے اور دادا کو دھکا دیاجس سے وہ گر گئے۔ تب انہوں نے کہا کہ میں ایک فنکار آدمی ہوں یاد رکھنا کہ انگریزوں نے ہمارے ملک پر قبضہ کیا ہے۔

میں محمد ﷺ کا ماننے والا ہوں تم نے آج ان کے غلام کو دھکا دیا ہے۔ محمد ﷺ کی مدد کے لئے علی [ آتا ہے۔ اور یہ میں تمہیں کہہ کے جا رہا ہوں کہ تمہارے انگریزوں کا جوخاتمہ کو کرے گا وہ محمد اور علی ہو گا۔ اور تم نے مجھے کہا کہ میں کیا کر سکتا ہوں؟ میں ایک حسین پیدا کروں گا جو پوری دنیا کو بتائے گا کہ ہاں! ہماری نسل میں میوزک تھا۔ ایک دن پوری دنیا اس کو مانے گی۔ اسی واقعے کی وجہ سے ان کو اپنی نسل سے ایک بچے کو سکھانا تھا جو اس کام کے لئے موزوں ہو۔

دادا نے شاید وہیں کھڑے کھڑے یہ طے کر لیا تھا کہ یہ کام میرا وزیر حسین ہی کر سکتا ہے۔ محمد علی جناح رحمۃا اللہ علیہ کی تحریک پاکستان بڑے زوروں پر رہی۔ دادا نے سیاست پر بھی نظر رکھی۔ اس کے ساتھ ساتھ خود اپنی محنت پر بھی نظر رکھی۔ دادا کو پتا تھا کہ محمد علی جناح رحمۃا اللہ علیہ یہاں سے انگریزوں کو نکالیں گے۔ اور وزیر حسین وہ انسان ہیں جو پھر ان کو بتائے گا کہ میں ایک فنکار کی اولاد ہوں اور ایک فنکار کی تضحیک کا بدلا وہ اپنے فن سے لے گا اور پوری دنیا اس کو مانے گی“ ۔

باپ بیٹے کا عہد:

” اب واپس وہاں چلتے ہیں جہاں پانچویں جماعت پاس کر کے میرے والد میرے دادا سے چھٹی جماعت کے داخلے کی بات کرنے آئے تھے۔ تو دادا نے کہا کہ نہیں تمہیں اب مزید نہیں پڑھنا! تمہیں اپنے خاندان کا وقار واپس لانا ہے۔ میں زبان دے چکا ہوں۔ اس قول کو اب تم نے نبھانا ہے۔ دادا نے کچھ اس طرح کی جذباتی باتیں کیں جس سے وہ بچہ اس چھوٹی عمر میں اپنے باپ کی بات کو سمجھ گیا۔ اس نے جواب دیا کہ بابا آپ بے فکر رہیں۔ انشاء اللہ! آپ میرے ساتھ ہیں تو میں ایسا میوزک کروں گا کہ جو سرحدوں کو بھی عبور کر جائے گا اور میوزک کے ذریعے سرحد پر یہ جنگ ضرور جیتوں گا“ ۔

اس سلسلے میں ایک بات لکھتا چلوں۔ 1972 میں بھارت میں فلم ”موم کی گڑیا“ بنی۔ اس کے گیت نگار آنند بخشی اور موسیقار لکشمی کانت پیارے لال صاحبان تھے۔ آنند بخشی کو گلوکاری کا شوق تھا لیکن گیت نگار بن گئے۔ بہرحال مذکورہ فلم میں موصوف نے لتا منگیشکر کے ساتھ اپنا ہی لکھا یہ دوگانا ریکارڈ کیا:

؂ باغوں میں بہار آئی ہونٹوں پہ پکار آئی آ جا میری رانی
رت بے قرار آئی ڈولی میں سوار آئی آجا میرے راجا

اس گیت کے پورے کے پورے انترے اور سنچائی، طرز کے لحاظ سے پاکستانی پنجابی فلم ”ات خدا دا ویر“ کے گیت: ”جدوں ہولی جئی لینا میرا ناں میں تھاں مر جانیاں۔“ کا ہو بہو چربہ ہیں۔ مذکورہ گیت حضرت تنویرؔ نقوی نے لکھا، موسیقی بخشی وزیر صاحبان کی اور آواز نورجہاں کی تھی۔ یہ فلم 9 اکتوبر 1970 کو نمائش کے لئے پیش ہوئی یعنی ”موم کی گڑیا“ سے دو سال پہلے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے نعیم وزیر نے بتایا : ”اس کے بعد دو تین اور موسیقاروں نے ان کی دھنوں کو نقل کیا۔ پھر انہوں نے فلم“ شہنائی ”( 1987 ) کے لئے ایک گانا بنایا: ’مہندی لا کے گہنے پا کے آپ رو کے سب نوں روا کے۔‘ اس گانے کو بھارت میں حقیقی موسیقار بھائیوں ’جیتن پنڈت‘ اور ’للت پنڈت‘ المعروف جیتن للت اور گیت نگار سمیر نے فلم“ کچھ کچھ ہوتا ہے ”( 1998 ) میں نقل کیا۔ خود میری تربیت بھی والد نے بڑے جذباتی انداز سے کی تھی۔ جب میں نے والد صاحب سے یہ بات کی تو انہوں نے بتایا کہ میں اپنا گانا بنا کر ’مقفل‘ کر دیتا ہوں۔ کوئی میرے گانے کو کھول نہیں سکتا۔ اگر چھیڑے گا تو خراب کرے گا۔ نقل کرنے والا بھی صاحب عقل ہوتا ہے اس لئے وہ اسے خراب نہیں کرتا“ ۔

” دادا سے والد نے سارنگی سیکھی پھر ہارمونیم کی تعلیم دی گئی۔ یہ تو قدرت کی طرف سے میوزیشن ڈیزائن کیے گئے تھے لہٰذا جلد ان دونوں آلات موسیقی پر دسترس حاصل ہو گئی۔ پھر طے ہوا کہ انہیں کلاسیکل گائیکی کی تعلیم دی جائے کیوں کہ وہ خاندانی ورثہ تھا جس کا منتقل ہونا بھی بہت ضروری تھا۔ اس کے لئے انہیں استاد چھوٹے عاشق علی خان جو ہمارے چھوٹے دادا تھے / والد کے چچا تھے، ان کی تربیت میں بھیجا گیا۔ انہوں نے کلاسیکیل گانا سکھایا۔ تین چیزیں سیکھنے کے بعد انسان جب اپنے ہاتھ سے راگ نکالنا شروع کر دیتا ہے تو دل میں سارے راگ آ جاتے ہیں“ ۔

” بادشاہوں کے چلے جانے کے بعد آرٹسٹوں اور عوام کی تفریح کے لئے دو ہی متبادل رہ گئے۔ کلاسیکل گائیک اور رقاصائیں / مغنیاں۔ تب ان رقاصاؤں اور کلاسیکل گانے والوں نے بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ چوں کہ دونوں کا شعبہ ایک ہے تو کیوں نہ مل جائیں۔ گانے والیوں کو اچھے استاد درکار تھے اور اچھے استادوں کا اپنا فن سکھانا تھا۔ یوں گانے والیوں کے بڑے بڑے نام پیدا ہوئے۔ بازار حسن میں ڈانس سے نکل کے گانے کا ماحول پیدا ہوا۔ لوگ بڑی دور دور سے یہ گانا سننے آتے۔ ان میں نواب، جاگیردار اور وہ لوگ جو کبھی بادشاہوں کے دوست تھے جن کو گانا سننے کا ذوق تھا۔ انہوں نے گانا سننا پروان چڑھانا شروع کیا۔ میڈیا، ریڈیو یا ٹی وی نہیں تھا جہاں یہ لوگ جا کر کام کرتے۔ اب اندرون شہر میں یہ چیز ہر ایک آرٹسٹ کو میسر تھی“ ۔

اختر حسین اکھیاں اور وزیر حسین:

” دادا کے ساتھ ہارمونیم پر کام شروع کیا۔ اس وقت کا ایک بڑا نام لینا چاہوں گا جسے میرے والد بھی بڑے اساتذہ میں شمار کرتے تھے، اختر حسین اکھیاں صاحب! اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔ یہ 1997 میں میرے والد صاحب کے انتقال پر ہمارے گھر آئے تو روتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ چھوٹا سا بچہ جب بازار حسن میں ہمارے پاس آیا اور کام کیا تو ہم لوگ اس سے بہت متاثر ہوئے۔ یہ کام بھی اچھا کرتا تھا اور اس کی یادداشت حیرت انگیز تیز تھی۔

ہم اس وقت کام کرنے والے بڑے اور اہم لوگ اس بچے کو انڈین فلمیں دکھانے سنیما میں لے کر جاتے تھے۔ اس بچے میں ماشا ء اللہ اتنی زبردست صلاحیت تھی کہ یہ ایک دفعہ فلم دیکھتا تھا تو اس کو پوری فلم کے گانے استھائی انترے، انٹروڈکشن، بار، پیس اور کاؤنٹر تک یاد ہو جاتے تھے۔ فلم دیکھنے کے بعد یہ بچہ ہارمونیم لے کے ہم دس بارہ لوگوں کو سامنے بٹھا لیتا۔ ہم وہ سارے گانے، ان کے کاؤنٹرز، انٹرول پیس اور باریں اس سے یاد کرتے تھے۔ پھر جا کر اپنی شاگردوں کو سکھاتے تھے۔ بازار حسن میں ایک مدت تک یہی سلسلہ چلتا رہا۔ کہ یہ بچہ ہمیں یاد کرائے گا اور ہم آگے جائیں گے“ ۔

وزیر حسین کا فلمی موسیقار بننے کا قصہ:

۔ ”پھر چھوٹے دادا کے ساتھ ریڈیو پر ان کے پروگرام ہونے لگے اور استاد چھوٹے عاشق علی خان اور وزیر حسین کی جوڑی بن گئی جیسے استاد سلامت علی خان اور استاد نزاکت علی خان، استاد امانت علی خان اور استاد فتح علی خان اور دیگر لوگ گاتے تھے۔ میرے والد اور ان کے چچا کی جوڑی اچھی جا رہی تھی کہ ایک دن یہ گھر سے نکلے تو چائے کے کھوکھے پر ایک ریڈیو سے کوئی کلاسیکل گانا نشر ہو رہا تھا اور کچھ لوگ چائے پی رہے تھے۔ یہ دونوں رک کر سننے لگے۔

اتنے میں وہاں موجود ایک شخص اونچی آواز میں بولا کہ کیا بھاں بھاں لگا رکھی ہے۔ انڈیا کا اسٹیشن لگاؤ کوئی رفیع یا لتا سنیں! یہ میرے والد کے لئے ایک زور دار جھٹکا تھا۔ ایک لمحہ میں ان کو اندازہ ہو گیا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ بالکل قابل قبول نہیں رہا۔ یہ پبلک تو وہ چیز چاہتی ہی نہیں ہے جو میں کر رہا ہوں۔ انہوں نے سوچا کہ میں تو اپنا وقت ضائع کر رہا ہوں۔ یہ ہی والد صاحب کی زندگی کا وہ یاد گار موڑ ہے جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ کرنا چاہیے جو پبلک چاہتی ہے۔ وہیں کھڑے کھڑے انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب میں فلمی موسیقار بنوں گا۔ خاندان میں پہلے کوئی فلمی موسیقار تھا نہیں لہٰذا ان کے اس فیصلے کی بہت مخالفت ہوئی جس کو انہوں نے خندہ پیشانی سے جھیلا۔ اور فلم لائن اختیار کرنے کی ٹھان لی“ ۔

” ان کی ایک پھوپھو زاد بہن کے میاں، بخشی صاحب تھے جو اسکول کے زمانے سے ہی نعتیں پڑھتے آ رہے تھے اور بچپن سے میرے والد اور بخشی صاحب کی دوستی تھی۔ بخشی صاحب کو میرے والد ہارمونیم پر نعتیں یاد کرواتے تھے۔ ان کی آواز بڑی اچھی تھی۔ جس وقت میرے والد صاحب نے فلموں میں موسیقار بننے کی ٹھانی اس وقت بخشی صاحب موسیقار طالب جعفری صاحب کے اسسٹنٹ میوزک ڈائریکٹر تھے۔ لہٰذا والد کو یہ راستہ آسان لگا کہ ایک دوست پہلے ہی فلم انڈسٹری میں اسسٹنٹ میوزک ڈائرکٹر کام کر رہا ہے اس سے بات کرنا چاہیے۔

وہ بخشی صاحب سے ملے اور اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ میں اپنی کلاسیکل گائیکی چھوڑ کر تمہارے ساتھ فلم انڈسٹری میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ اس پر بخشی صاحب نے کہا کہ تمہاری لائن ہی یہ تھی لیکن تم اپنی خاندانی روایات کو برقرار رکھنے کی کوشش میں لگے رہے۔ پھر میرے والد اور بخشی صاحب نے مل کر کام شروع کر دیا۔ کوئی چار پانچ فلمیں کیں لیکن کوئی اچھی پذیرائی نہ مل سکی۔ ان میں

فلم ”فیشن“ ( 1965 ) ، ”چغل خور“ ( 1966 ) وغیرہ ہیں۔ پھر انہوں نے ایک فلم موسیقار طفیل فاروقی صاحب کے ساتھ بھی کی جس میں صرف ایک گانا طفیل صاحب کا تھا لیکن اخباری اشتہارات میں صرف طفیل فاروقی صاحب ہی کا نام دیا گیا۔ انہوں نے سخت جدوجہد کی پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو عروج بھی دیا ”۔

” اپنے اس زمانے کے بارے میں انہوں نے مجھے بتایا کہ پے در پے ناکامیوں کی وجہ سے شاہ نور اسٹوڈیو میں پریشان کھڑا تھا کہ سامنے سے رشید عطرے (م) آئے اور پوچھا کیا ہوا؟ میں نے کہا کام نہیں مل رہا اور گھر سے بھی بہت دباؤ ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کروں؟ اس پر رشید عطرے صاحب نے ایک بڑی اچھی بات کہی کہ دیکھو! تمہارے سامنے پہاڑ جیسے لوگ کھڑے ہیں جیسے ماسٹر عنایت حسین، خواجہ خورشید انور، میں اور فیروز نظامی۔

اب ہم میں سے نکل کر جانا بڑا مشکل کام ہے۔ تم ابھی نووارد ہو۔ جب کہ ہمارے کام میں اتنی پختگی ہے کہ اس کو لانے کے لئے ایک عمر درکار ہو گی۔ اگر تم مایوس ہو گئے تو بات نہیں بنے گی۔ میں تمہیں ایک بات کہتا ہوں جو میں نے اپنے ساتھیوں سے بھی کہی ہے کہ اس پوری پود میں اگر کوئی شخص ان پہاڑوں میں سوراخ بنا کے نکل جائے گا تو وہ تم ہی ہو“ ۔

” تم کوشش کرتے رہو، راستہ ضرور ملے گا۔ تمہیں میری دعا بھی ہے۔ یہ سننا تھا کہ وہ کہتے ہیں کہ میرے اندر تو جیسے جان آ گئی۔ مجھے اتنا حوصلہ ملا کہ کام میں دل لگ گیا اور کام بھی ملنا شروع ہو گیا۔ جب میرا پہلا گانا ہٹ ہوا تو رشید عطرے صاحب نے گلے لگایا۔ میں نے کہا کہ بھائی جی یہ صرف آپ کی حوصلہ افزائی تھی۔ اس کے بعد پھر سلسلہ شروع ہو گیا“ ۔

کامیابی دستک دیتی ہے :

” میری والدہ بتاتی ہیں کہ میں ابھی پالنے میں ہی تھا جب فلم“ ات خدا دا ویر ”کے ریلیز کا دن آن پہنچا۔ اس وقت تک والد صاحب کی کوئی فلم ہٹ نہیں ہوئی تھی۔ میرے والد بہت پریشان تھے۔ انہوں نے اس فلم پر بے حد محنت کی تھی۔ پھر اس میں تنویرؔ نقوی جیسے نام بھی تھے، اللہ ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ کہنے لگے کہ چلو میری تو کوئی بات نہیں لیکن میں نے اتنے بڑے گیت نگار کا کام اپنے نام کے ساتھ لگایا ہے اب اگر فلم ہٹ نہ ہوئی اور ان کا نام ڈوب گیا تو یہ بہت شرمندگی کی بات ہو گی۔

تین بجے وہ فلم لگی۔ گھر میں عجیب سا سناٹا تھا۔ والدہ اس وقت کو بیان کرتی ہیں کہ میں تم کو گود میں لئے بیٹھی اور مسلسل تمہارے والد پر نظر تھی۔ وہ بے حد پریشان تھے۔ کبھی وہ زمین پر بیٹھ رہے ہیں کبھی چار پائی پر تو کبھی کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع ہو جاتے جیسے کسی کا انتظار ہو۔ تقریباً ساڑھے چھ بجے ہمارے گھر کے عین نیچے باہر سے سے ایک ’بڑک‘ لگائی گئی۔ وہ مرحوم مظہر شاہ صاحب تھے۔ ’او آ جا یار! تیری فلم سپر ہٹ ہو گئی ہے‘ ۔

پھر والد صاحب کو تیار کروا کر اپنے ساتھ سنیما میں لے گئے۔ والدہ بتاتی ہیں کہ جب چھ سے نو والا شو ختم ہوا اور وہ گھر آئے تو پھولوں اور نوٹوں کے ہاروں کی بہتات سے ان کا چہرہ نظر نہیں آتا تھا۔ یہ وزیر حسین اور بخشی صاحب کے خاندان کی پہلی خصوصی خوشی تھی جس کو دھوم دھام سے منایا گیا۔ میری پیدائش کو رحمت قرار دیا گیا“ ۔

دس دن میں گانے اور بیک گراؤنڈ تیار:

” اس کے بعد پھر پے در پے کامیابیوں کے سلسلے شروع ہو گئے۔ پاکستان کی پہلی فلم جو 125 ہفتے چلی وہ بھٹی پکچرز کی“ ظلم دا بدلا ”( 1972 ) ہے۔ یہ بھی اپنی نوعیت کی واحد فلم ہے۔ وہ ایسے کی یہ فلم 28 دن کے اندر مکمل کرنا تھی۔ یہ علم نہیں کہ ایسا کیوں تھا شاید وہ کوئی ریکارڈ بنانا چاہتے تھے جو پھر انہوں نے بنایا بھی۔ ان کو موزوں کہانی مل رہی تھی نہ میوزک۔ بھٹی پکچرز کے کفایت حسین بھٹی المعروف کیفی صاحب اور عنایت حسین بھٹی (م) بہت پریشان تھے۔

کسی نے میرے والد سے کہا کہ کیا آپ دس دنوں میں اس فلم میں معیاری میوزک بنا سکتے ہیں؟ اس پر والد صاحب نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ میں تین دن میں سارا میوزک بنا سکتا ہوں۔ پھر پوچھا گیا کہ بیک گراؤنڈ میوزک کا کیا ہو گا؟ تو والد نے جواب دیا کہ ایک ہفتے میں بنا دوں گا۔ یہ حقیقت ہے کہ اس فلم کے گانے اور بیک گراؤند دونون صرف دس دن میں تیار ہو گئے۔ بیک گراؤنڈ کی بھی دلچسپ کہانی ہے۔ جتنی ریلیں شوٹ ہوتیں وہ ہاتھ کے ہاتھ ڈویلپ اور ایڈیٹ ہو کر ’رف‘ آ جاتی تھیں۔ ساتھ ساتھ بیک گراؤنڈ چل رہے تھے۔ چار چار ریلیں آ رہی ہیں اور تیز رفتاری سے بیک گراؤنڈ ہو رہا ہے۔ اس وقت دستیاب موسیقاروں میں بہت کم ایسے تھے جو اپنی ارینجمینٹ جانتے تھے۔ یہ پہلی پاکستانی فلم تھی جو 28 دن میں مکمل ہو کر سنیماؤں میں لگ گئی اور سپپر ہٹ بھی ہو گئی“ ۔

ایک سیچو ایشن چار گانے :

” گو کہ“ ظلم دا بدلا ”بہت جلدی میں بنی لیکن اس میں ایک سے بڑھ کر ایک مشکل کام کیے گئے۔ مصنف نے اس فلم میں ایک ’سچو ایشن‘ پر چار گانے رکھے ہوئے تھے۔ پہلا گانا جب ولن ایک لڑکی کو بے عزت کر کے چوک میں لاتا ہے۔ دوسرا جب ہیرو ولن کو چوک میں باندھتا ہے۔ تیسرا جب ولن ہیرو اور ہیروین کو اسی چوک میں لا کر باندھتا ہے۔ اور اسی طرح کا کوئی چوتھا بھی۔ یہ چاروں گانے سپر ہٹ ہوئے ’لیکھاں آگے نییوں تیرا زور چلنا۔

‘ ، ’رج رج کے دھمالاں پاواں تے ویریاں دے مان ٹٹ گئے‘ اور ’ملے گا ظلم دا بدلا‘ ۔ اس فلم کا سارا میوزک سپر ہٹ ہوا۔ پھر بھٹی پکچر ز کے ساتھ ان کا ایسا میل اور رابطہ ہوا کہ سلور جوبلی فلم“ الٹی میٹم ”( 1976 ) ،“ صدقے تیری موت توں ”( 1977 ) ، پلاٹینم جوبلی“ جگا گجر ”( 1976 ) اور بہت ساری فلمیں ان کے ساتھ کیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور انہوں نے تقریباً ڈھائی سو فلموں کا میوزک دیا“ ۔

” ہمارے خاندان میں بہت پابندیاں تھیں کہ بچے فلم اسٹوڈیو نہیں جائیں گے۔ وہ صرف اسکول جائیں گے۔ ہم نے اپنے گھر میں موسیقی کا ماحول نہیں دیکھا۔ میں اپنے تایا جان، منظور حسین صاحب جنہوں نے میرے والد کو ہارمونیم سکھایا تھا، ان کے ساتھ اسٹوڈیو جاتا تھا۔ وہ بھی بحیثیت میوزیشن والد صاحب کے ساتھ کام کرتے تھے۔ اسٹوڈیو میں جو میں نے اپنے والد کو کام کرتے دیکھا تو وہ ایک اور شخصیت لگے۔ ان کا اسٹائل یہ تھا کہ سردیوں میں پینٹ کوٹ سوٹ، ہائی نیک پہنتے تھے اور گرمیوں میں وہ سوتی شلوار قمیض یا پھر کاٹن/ ململ / بوسکی کا کرتا اور لٹھے کی شلوار“ ۔

اسٹیج فنکار عابد خان (م) کا عجیب ماجرا:

” تو بچپن میں جب انہیں اسٹوڈیو میں دیکھا تو تھری پیس سوٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور گانے کی ریکارڈنگ چل رہی ہے۔ وہ پہلے میوزک لکھواتے پھر سارا میوزک چیک کر نے کے بعد میوزیشنوں کو اپنے اپنے پیس یاد کرواتے تھے۔ یہ صبح سے شروع ہو جاتا۔ شام تک ’ٹریک‘ مکمل ہوتا تھا۔ اس کے بعد وہ سارا گانا بغور سنتے۔ تب میڈم نورجہاں آجاتیں۔ والد کا میوزیشنوں کے ساتھ برتاؤ بالکل اپنے بچوں کا سا تھا۔ ابو کی سب سے خوبصورت بات یہ دیکھی کہ جو اس ریکارڈنگ میں آ گیا خواہ انہوں نے اس میوزیشن کو بلایا بھی نہ ہو اس کو ریکارڈنگ میں بٹھا لیتے۔

ایک ایسا ہی واقعہ اسٹیج کے نامور فنکار ’عابد خان‘ نے پی ٹی وی کے کسی پروگرام میں خود بتا یا۔ وہ پرویز مہدی صاحب کے بڑے اچھے دوست تھے۔ ان کو بھی گانے کا شوق تھا۔ پرویز مہدی صاحب کو گولڈن جوبلی فلم“ بنارسی ٹھگ ”( 1973 ) میں کسی گانے کے لئے والد صاحب نے بلوایا۔ عابد خان بھی ان کے ساتھ ہارمونیم اٹھا کر آ گئے۔ والد صاحب نے عابد خان کو صرف دیکھا اور اس کی اندرونی حالت سمجھ گئے۔ پرویز مہدی سے پوچھا کہ یہ کیا کرتا ہے۔

اس نے کہا کہ یہ بہت اچھا گاتاہے۔ یہ سنتے ہی والد صاحب نے کہا کہ سب کام بند کرو جب کہ وہ میوزشنوں کو پیس یاد کروا رہے تھے۔ میوزشن پریشان ہو گئے اور پوچھا کہ کیا ہوا؟ اتنے میں نوٹیشن کرنے والے محبوب صاحب کو بلایا۔ اللہ بخشے پاکستان فلم انڈسٹری کے بڑے اچھے وائلنسٹ تھے۔ اور کہا کہ اب یہ گانا ’کورس‘ ہو گا۔ وہ کہنے لگے کہ بھائی جی یہ تو آپ نے ’سولو‘ رکھا تھا۔ کہنے لگے اس بچے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بہت اچھا گائے گا۔

میں اس سے کورس کرواؤں گا۔ یوں اس سولو گانے کو کورس میں تبدیل کر دیا۔ عابد خان بتاتے ہیں کہ ریکارڈنگ کے مجھے 300 روپے ملے۔ اس دور میں کورس والوں کو 50 روپے ملتے تھے۔ میں وہاں سے بھاگا اور سیدھا داتا دربار آیا۔ یہاں میں نے کپڑے ڈرائی کلین کو دیے ہوئے تھے اور تین ماہ سے لئے نہیں تھے کیوں کہ میرے پاس تو کھانے کے لئے بھی پیسے نہیں تھے۔ میں نہایا کپڑے بدلے اور تیار ہو کر سیدھا گوجر انوالا پہنچا۔ جب اپنے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو میری ماں نے دروازہ کھولا اور چیخ مار کے روئی۔ اور کہا کہ عابد! میں تو سمجھی کہ تو مر گیا ہو گا! میں نے کہا کہ ماں ایک شخص وزیر حسین ہے، بخشی وزیر اسے دعا دے کیوں کہ وہ نہ ہوتا تو تیرا بیٹا مر ہی گیا تھا۔ اس ٹی وی پروگرام میں عابد خان (م) نے بتایا کہ میں وزیر حسین کا یہ احسان ساری زندگی نہیں بھول سکتا“ ۔

وزیر حسین کی اختراع:

پاکستان کی پہلی رنگین پنجابی فلم ”پنج دریا“ ( 1968 ) ایک فلم کا گانا ریکارڈ ہونا تھا۔ اتنے میں تایا بخشی نے میرے والد سے کہا کہ ایک شخص آیا ہے لیکن کوئی گنجائش ہی نہیں۔ انہوں نے کہا بخشی یار ہو سکتا ہے! چلو سوچتے ہیں۔ انہوں نے ایک مائیک لگوایا اور واش روم سے پانی کا ٹب اور ڈبا منگوا کر آنے والے سے کہا کہ تو اس ’ٹیمپو‘ یعنی چال میں مگے سے پانی نکال کر واپس ٹب میں ڈالتا جا۔ وہاں موجود فلم کے ڈائریکٹر نے پوچھا کہ وزیر صاحب یہ کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ آپ نے بتایا ہے کہ ہیروئن پانی نکالتے ہوئے گانا گا رہی ہے۔ اب اس ٹب میں پانی گرنے کی آواز سے اصل کوئیں سے پانی نکالنے کا تاثر ملے گا۔ اس پر ڈائریکٹر نے کہا واہ وزیر صاحب کیا اختراع ہے! حالاں کہ یہ صرف اس شخص کو کام دینے کے لئے کیا تھا ”۔

کامیابی کا ایک کلیہ:

” میں نے والد صاحب سے پوچھا کہ آپ کے پانچوں بیٹے سیٹ ہو گئے ہیں ماشاء اللہ جب کے تقریباً ہر ایک موسیقار کا ایک آدھ بچہ نشہ کرتا ہوا ضرورنظر آیا یا کوئی نالائق بچہ ضرور پیدا ہوا۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ سوال میں نے اس لئے پوچھا کیوں کہ ہم وہاں رہتے تھے اور سب ہی موسیقاروں کو جانتے تھے۔ جواب میں انہوں نے کہا کہ بیٹا دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ میری ریکارڈنگ میں جو بھی آیا میں اس کو بٹھا لیتا تھا کہ کوئی بات نہیں تو ’خنجری‘ پکڑ لے۔

تو گھنگھرو پکڑ لے۔“ پہلی وجہ جو بھی آیا اسے کسی نہ کسی طرح کام دلوایا۔ اور جواب میں ڈھیروں دعائیں وصول کیں۔ دوسری یہ کہ میں نے اپنے پیشے سے بے ایمانی نہیں کی۔ میں نے فلم، ریڈیو یا ٹی وی تینوں کے گانوں میں ایک ہی جیسی محنت کی ہے۔ جس شخص نے اپنے فن سے ایمان داری کی چاہے وہ آرٹسٹ، موچی یا مزدور ہو تو اس ایمان دار شخص کا بچہ لائق ہو گا۔ اگر کسی نے کسی کا حق مارا ہے یا بے ایمانی کی ہے اس کی اولاد نالائق ہو گی ”۔

بخشی وزیر کی دریا دلی:

” کئی دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ ہم فلم کا گانا کر کے فارغ ہوئے تو فلمساز نے کہا کہ میری آپ سے اتنے بجٹ کی بات ہوئی تھی اب یہ بجٹ زیادہ ہو گیا۔ تو میں اور بخشی نے اپنے پیسے ان لوگوں کو دے دیے۔ ان کے اسسٹنٹ باقر حسین (جو بخشی صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں ) نے بتایا کہ ایک دفعہ ہم فلم کا گانا کر کے آ رہے تھے۔ بخشی اور وزیر دونوں اپنے پیسے میوزشنوں میں بانٹ آئے۔ بخشی صاحب اسٹوڈیو کے باہر کہہ رہے ہیں کہ یار یہ تم نے کیا کیا؟ اب ہمارا کیا ہو گا؟ وزیر صاحب نے کہا کہ بخشی تیرے گھر روٹی پکی ہوئی تھی؟ جواب دیا کہ ہاں! انہوں نے کہا میرے گھر میں بھی پکی ہوئی ہے۔ یار ہمارے پیسوں سے میوزشنوں کے گھر روٹی پک جائے گی! ہمیں کیا فرق پڑ ے گا“ ۔

60 پیسے او ر تین مسافر:

۔ ”ویگن میں بیٹھے ہیں اور داتا دربار اترنا تھا۔ بخشی صاحب کا گھر داتا صاحب کے ساتھ تھا اور ان کا ٹکسالی کے اندرسمیاں محلے میں۔ سردیوں کے دن ہیں اوریہ دونوں تھری پیس سوٹ پہنے، ٹائیاں اور پرفیوم لگے ہوئے اور ہاتھ میں ’ڈن ہل‘ اور ’گولڈ لیو‘ سیگریٹ کی ڈبیاں ہیں۔ لیکن پیسے نہیں ہیں۔ اب تین آدمیوں کاکرایہ شاہ نور اسٹوڈیوز سے داتا داربار 75 پیسے جبکہ اس وقت صرف 60 پیسے ہی پاس ہیں۔ ان کے اسسٹنٹ نے ویگن کے کنڈکٹر سے کہا کہ پیچھے جو دو سوٹ والے ہیں ان سے کرایہ نہ لینا کیوں کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ بس ہم تینوں کے پاس یہی ساٹھ پیسے ہیں“ ۔

75 وائلنوں میں د و بے سرے وائلن کی نشاندہی کرنا:

” بات کہیں کی کہیں نکل گئی اب میں واپس ریکارڈنگ پر آتا ہوں۔ میں نے دیکھا اور میں بہت حیران بھی ہوا کیوں کہ ایسا ہوتا نہ میں نے کبھی دیکھا نہ کسی سے سنا۔ اس وقت میوزشنوں کے ’بییج‘ ہوتے تھے جیسے ’اے‘ ’بی‘ وغیرہ۔ پچاس سے سو میوزشنوں کی ایک ٹیم تھی جس میں سارے ہی ساز ہوتے۔ ریکارڈنگ میں تقریباً 75 وائلن والے بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے والد ’ٹاک بیک‘ پر بیٹھے۔ ٹریک چلا تو انہوں نے کہا کہ تیسری قطار میں جو دائیں طرف 25 واں وائلن ہے وہ بے سرا ہے۔

اسے کہو ٹیون کرے۔ وہاں موجود سب میوزیشن حیران رہ گئے کہ بھائی جی آپ کو کیسے پتا لگا؟ کہا بتاتا ہوں لیکن دوسری لائن میں ساتویں وائلن کی نیچے والی ایک تار بے سری ہے۔ اوپر کی تین ٹھیک ہیں۔ اس سے ٹھیک ٹیون نہ ہو سکی۔ اسسٹنٹ نے ہارمونیم پکڑا باہر لے کر گئے اور اس سے وہ تار ٹیون کروائی۔ یہ واحد میوزک ڈائریکٹر تھے جو سارے ساز خود ٹیون کراتے تھے۔ ظفر صاحب اللہ بخشے پاکستان کے بہت بڑے ڈھولک پلیئر ہوئے ہیں۔ رفیق صاحب اللہ بخشے وہ بھی بڑے نال پلیئر تھے۔ استاد گو گا طبلہ پلیئر تھے۔ اور بالا بھائی جو ظفر صاحب کے بیٹے تھے، میرے والد خود بیٹھ کر ان کے ساز ٹیون کراتے تھے۔ پھر گانا ریکارڈ کرنے سے پہلے اپنے ہارمونیم کے ساتھ ملا کر تمام سازوں کی ٹیونگ کرتے تھے“ ۔

نصرت فتح علی خان اور وزیر حسین کا ٹاکرہ:

” ایک مثال دوں گا۔ اس واقعہ کا میں خود چشم دید گواہ ہوں۔ نصرت فتح علی خان، پاکستان کا بڑا نام ہے۔ فلم“ شاہ پال ”کے لئے قوالی ریکارڈ ہو رہی تھی : ’بھاگ جگائے در تیرا، کرم کماوے دیر نہ لاوے اے سخیاں دا ڈیرہ‘ ۔ ٹریک بن گیا اب نصرت صاحب سنگر روم میں تھے۔ والد صاحب اسٹوڈیو میں بے حد فعال اور سرگرم ہوتے حالاں کہ گھر میں اٹھ کر پانی بھی نہیں پیتے تھے۔ خیر اب نصرت صاحب سے وہ گانا نہیں گایا جا رہا تھا۔ وہ والد صاحب کی بڑے بھائیوں کی طرح سے عزت کرتے تھے۔

اکثر آ کر میرے ابو سے گانے سنتے تھے۔ والد صاحب کے غصہ آنے کا بھی اسٹائل تھا۔ ویسے بہت نرم مزاج تھے۔ پہلے ان کا کوٹ اترتا تھا اسے پیچھے کرسی پہ ڈالا اس کے بعد اپنی آستین چڑھاتے اور ٹائی ڈھیلی کرتے۔ سمجھا رہے ہیں کہ بیٹا نصرت ایسے کہو۔ چوں کہ خود کلاسیکل گائک تھے اس لئے گا کر بتاتے تھے۔ وہ استھائی نصرت خان صاحب کے قابو میں نہیں آ رہی تھے۔ پھر وہ ایک دم اٹھے اور سنگر کا دروازہ کھول کر کہا کہ تم کتنی سرگمیں کرتے ہو اب ایک سیدھی استھائی نہیں کہی جا رہی۔

نصرت خان صاحب نے کہا جی میں کرتا ہوں۔ دروازہ بند کیا اور واپس آ کر سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگے کہ غلطی ہو گئی۔ اللہ نے اسے اتنی عزت دی ہے مجھے اس سے اس طرح بات نہیں کرنا چاہیے تھی۔ اگلے ہی لمحے بالکل نرم ہو گئے۔ ٹاک بیک پر کہا کہ میرے بیٹے جیسے کہہ رہا ہے ویسے ہی کہہ جا۔ پھر بڑے پیار سے وہ ریکارڈنگ کروائی۔ اور بعد میں اسے گلے لگایا“ ۔

بخشی اور وزیر لازم و ملزوم:

” بخشی اور وزیر دونوں لازم و ملزوم تھے۔ بخشی صاحب زبردست منتظم تھے۔ وزیر صاحب بہت اچھے آرٹسٹ۔ راگوں، سروں کی ترکیب اور ان کا انتظام بہت اچھا کرتے لیکن کسی سے پیسہ لینا، ریٹ طے کرنا ان کے بس میں نہیں تھا، وہ استاد آدمی تو تھے لیکن ’استادی‘ نہیں آتی تھی۔ وزیر صاحب کی زندگی میں بخشی صاحب کا بہت کردار تھا۔ پیسے کا حساب کتاب، اکاؤنٹ یہ سب بخشی صاحب کرتے تھے۔ میوزک میں بخشی صاحب کا کردار یہ ہوتا کہ جو میوزک تیار ہوتا اس میں وہ بڑی اچھی رائے اور تجاویز دیتے۔

جو بھی دھن بنتی تو دونوں باہم بیٹھ کر اس کو فائنل کرتے۔ اس سلسلے میں ان میں لڑائیاں بھی ہوتیں۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ رات کو گھر میں بیٹھے ہوئے کام ہو رہا ہے کہ لڑائی ہو گئی۔ اور تایا بخشی ناراض ہو کر چلے گئے۔ اور صبح آٹھ بجے پھر آئے ہوئے ہیں۔ والدہ سے کہتے ہیں کہ وزیر کو جگا دو۔ وہ کہتی ہیں رات تو بہت لڑائی ہوئی تھی۔ کہنے لگے کوئی نہیں! ادھر سے والد کہتے کہ چل یار میں آ رہا ہوں۔ یہ تعلق بھائیوں سے زیادہ، باپ بیٹے سے بھی زیادہ بلکہ دونوں کا تعلق تھا کیسا یہ کوئی نہیں جانتا۔ ہمیں بھی نہیں پتا تھا کہ ایک دوسرے سے کتنے جڑے ہوئے یا وابستہ تھے“ ۔

” بخشی صاحب نے اپنے دو بھائی اسسٹنٹ ساتھ رکھے ہوئے تھے۔ میرے ابو نے بڑے بھائی منظور صاحب کو ’پرکشنز‘ پر اور چھوٹے بھائی چچا رشید کو بطور اسسٹنٹ رکھا ہوا تھا۔ باقر حسین تایا بخشی کے بھائی اور میرے چچا رشید ساری زندگی ان کے اسسٹنٹ چلے“ ۔

” جی ہاں! دونوں گھر پر توجہ دینے والوں میں سے تھے۔ تایا بخشی نے تمام عمر اپنے خاندان کا خیال رکھا۔ بہن بھائیوں میں بڑے تھے، پورے گھر کو سنبھالا۔ بعض حلقوں کی جانب سے اعتراض اٹھایا بھی گیا کہ تایا بخشی کے نام کو اپنے نام سے ہٹا دیں جس پر میرے ابو نے صاف کہا کہ میں بخشی کے بغیر کام نہیں کر سکتا“ ۔

” ہمارے ساتھ ابو کا بالکل دوستانہ ماحول تھا۔ گھر میں ہر ایک چیز کی معافی تھی لیکن اسکول سے ناغے کی بالکل نہیں۔ اگر ایک چھٹی کر لی ہے تو اتنی دفعہ انکوائری کرتے تھے کہ ہم کہتے کہ چلے ہی جائیں تو بہتر ہو گا“ ۔

پھاڑنا اپنی تقرری کے خط کو:

” بینظیر دور میں ( 1989 ) مجھے 14 گریڈ کی سینیئر آڈیٹر کی ملازمت مل گئی۔ تین لاکھ لوگوں نے امتحان دیا ان میں تین سو پاس ہوئے۔ پھر انٹرویو میں تیس پاس ہوئے۔ پھر ان میں سے صرف سات عدد منتخب ہوئے۔ میں ان سات میں شامل تھا۔ جوائنگ لیٹر بھی آ گیا کہ جہلم پوسٹنگ میں رپورٹ کرو۔ میں اپنا سفری بیگ لے کر نکلنے لگا تھا کہ ابو نے کہا کہ بیٹھو۔ والدہ بھی موجود تھیں۔ کہنے لگے کہ جس کام پر تم جا رہے ہو وہاں ایک مہینہ میں کوٹھی اور گاڑی خرید لی جاتی ہے۔ تو یہ سب کچھ کر لے گا لیکن میری نسل میں حرام آ جائے گا۔ میں نے ایمان داری سے تمہیں پالا ہے۔ میری اگلی نسل میں رشوت آ گئی تو میری نسل خراب ہو جائے گی۔ مولا تجھے گاڑیاں کوٹھیاں دے گا اس نوکری پہ نہ جا اور رونا شروع کر دیا۔ پھر میں نے اپنا تقرری کا خط پھاڑ دیا۔ ماشاء اللہ مالک نے سب ہی کچھ دے دیا“ ۔

آرٹسٹ نہیں میلوڈی ہٹ ہو تی ہے :

” فلم انڈسٹری میں ایسا بھی وقت آیا کہ چند لوگوں کی اجارہ داری ہو گئی۔ کچھ گلوکار اپنے آپ کو سمجھتے تھے کہ بس ہم ہی ہیں۔ پھر وہ صرف اپنے مطلب کے لوگوں کو ریکارڈنگ کا وقت دیتے تھے۔ تایا بخشی اور ابو نے سوچا کہ کیوں نہ ہم کسی اور کو موقع دیں۔ دیگر موسیقار نئی آوازوں کو سامنے لانے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تھے۔ میرے ابو اس نظریہ پر یقین رکھتے تھے کہ میلوڈی ہٹ ہوتی ہے سنگر نہیں۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے افشاں کو متعارف کروایا۔

فلم“ اکھڑ ”( 1976 ) اس کی پہلی فلم ہے۔ اس کے سارے ہی گیت مقبول ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے ایک اور تجربہ کیا۔ اس کی کہانی یہ ہے کہ خواجہ خورشید انور نے فلم انڈسٹری چھوڑ رکھی تھی۔ اعجاز درانی ان کے پاس اپنی فلم“ میرا ناں پاٹے خان ”( 1975 ) کا میوزک بنوانے گئے۔ خواجہ صاحب نے انکار کر دیا۔ تب اعجاز صاحب نے پوچھا کہ پھر میں کس سے میوزک کرواؤں؟ انہوں نے کہا جاؤ بخشی وزیر سے کام کرواؤ۔ اس فلم میں ایک گانے کے لئے مہناز کو کراچی سے بلوایا۔ جس کو پنجابی بولنا نہیں آتی تھی۔ اس کو گانا گوا کر سپر ہٹ کروا دیا“ ۔

” انہوں نے نسیم بیگم، آئیرین پروین، غلام علی سے کام لیا اور پرویز مہدی کا پہلا گانا انہوں نے کروایا۔ صبیحہ خانم سے بھی فلمی گانا کروایا۔ سنتوش، میرے والد صاحب اور مظہر شاہ کے آپس میں بھائیوں والے تعلقات تھے۔ صبیحہ خانم نے ابو سے خواہش کا اظہار کیا کہ میں اچھی سنگر ہوں۔ ایک فلمی گانا ریکارٖ کرانا چاہتی ہوں۔ ابو نے گانا بنایا ’سوہنیا وے مکھ تیرا سجری سویرے۔‘ جو سپر ہٹ ہو گیا۔ اس وقت کی نامور خاتون گلوکاروں نے حیرت کا اظہار کیا۔ اس پر ابو نے کہا کہ موسیقار کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ دیکھ لو ایک اداکارہ سے گانا کروا لیا وہ بھی ہٹ! وہ کہتے تھے کہ فن کسی کی اجارہ داری نہیں۔ کوئی کسی کی وجہ سے کامیاب یا ناکام نہیں ہوتا“ ۔

” ایک مرتبہ انہوں نے کہا کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر اگر یہ دیکھنا چاہو کہ ہمارے باپ نے ہمیں کیا دیا تو اس عہد کے موسیقاروں کے بچوں سے اپنے آپ کا موازنہ کر لینا۔ یہ بات سولہ آنے درست ہے۔ ہم پانچ بھائی تھے۔ بڑے حاجی تنویر صاحب۔ ہمارے گھر میں ان کا کردار پچاس فی صد باپ کا رہا۔ امتیازی نمبروں کے ساتھ میٹرک کیا۔ ڈاکٹر بننا چاہتے تھے۔ والد صاحب نے کہا کہ بیٹا میری فلم انڈسٹری میں کام ختم ہو گیا ہے۔ اگر تو پڑھتا رہا تو یہ تیرے سارے بہن بھائی ٹھوکریں کھاتے پھریں گے۔

تم نے ہی اب انہیں سنبھالنا ہے۔ بھائی الیکٹرانکس میں ڈپلومہ کر کے سعودیہ چلا گیا۔ والد صاحب کے برے وقت میں ان تھک محنت کر کے خاندان کو سنبھالا دیا۔ وہ نہ ہوتا تو نہ ہم پڑھتے نہ کسی قابل ہوتے۔ ان سے چھوٹے طارق وزیر نے گریجو ایشن کی۔ اسے ردھم کا بڑا شوق تھا۔ ایک دن ابو اس کو اسٹوڈیو لے گئے۔ وہاں بیک گراؤنڈ ہو رہا تھا۔ طارق نے کبھی کسی ساز کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ ابو نے اس کے سامنے ’کانگو‘ رکھ دیا۔

منجھے ہوئے میوزشنوں کے ساتھ اس نے پوری شفٹ میں کانگو بجایا۔ ان کو پھر ماسٹر عنایت حسین کے بیٹے راحت کا شاگرد کرایا جہاں سے اس نے ڈرم سیکھا۔ پھر انہوں نے اپنا میوزیکل گروپ بنا کر ایک عالم میں نام روشن کیا۔ طارق، نیلام گھر کے پروگرام میں ڈرم بجاتے رہے ہیں۔ مجھ سے چھوٹا بوبی تھا۔ یہ کم سنی ہی میں دھنیں بنا لیتا تھا۔ یوں والد صاحب نے بوبی کو ہارمونیم سکھایا۔ وہ سبق دے کر عالمی دورے پر چلے گئے۔ واپسی پر ایک کی بورڈ لے کر آئے۔ بوبی نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا لگا کہ میں یہ بھی بجا سکتا ہوں۔ جواب دیا کہ مجھے پتا تھا کہ جیسے میں نے محنت کی تھی ویسی ہی تو نے بھی کی ہو گی۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ وہ پہلے ہی کرایہ پر کی بورڈ لے کر طارق کے ساتھ شو کرتا تھا“ ۔

میڈم نورجہاں کا ایک عجیب واقعہ:

” پی ٹی وی لاہور مرکز کا پروگرام“ ترنم ”کے تمام پروگراموں میں بوبی نے کی بورڈ بجایا ہے۔ وہ اس وقت چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ اس پروگرام میں ایک عجیب واقعہ ہو گیا۔ استاد نذر حسین کی موسیقی میں کلیمؔ عثمانی کی غزل ’رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح، چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح‘ شاہ نور اسٹوڈیو میں ٹریک ریکارڈ ہو رہی تھی۔ ایک دم میڈم نے کہا کہ بند کرو۔ سب بند ہو گئے۔ کہنے لگیں کہ میوزک شو کرنے والے بچے یہاں غزل ریکارڈنگ میں لے آئے ہو۔ اتنی اچھی غزل کا بیڑا غرق کر دیا۔ اسٹوڈیو بھی میڈم کا، اسٹاف بھی میڈم کا۔ استاد نذر حسین سمیت اب میڈم کے آگے کون بولے! بوبی نے کہا ایک منٹ میڈم اور ساتھ ہی استاد نذر حسین سے کہا ذرا میرے کی بورڈ کی آ واز کھولیں۔ بوبی کا کی بورڈ کھول دیا گیا۔ پھر استاد صاحب سے

پوچھا کہ آپ نے غزل اسی راگ میں بنائی ہے؟ اور راگ بجا کر دکھایا۔ کیا اس راگ میں یہ سر نہیں لگتا؟ پھر کہا کہ ٹریک چلاؤ۔ ٹریک چلا تو پوچھا کہ میڈم یہی سر لگا ہے؟ میڈم نے کہا ہاں۔ تب بوبی نے نہایت اعتماد کے ساتھ کہا کہ میڈم اگر اس راگ میں یہ سر نہ لگے تو یہ راگ ہی نہیں رہتا۔ آپ نے کیسے کہہ دیا کہ میں نے غلط بجایا؟ میڈم نے کہا کہ یہ بچہ کون ہے؟ ماسٹر صادق صاحب کے بیٹے بیس گٹارسٹ اسد صاحب نے کہا کہ چاچا وزیر کا بیٹا۔ پوچھا کون چاچا وزیر؟ اسد صاحب نے جواب دیا بخشی وزیر۔ میڈم کا غصہ کافور ہو گیا اور کہا کہ خانصاحب کی اولاد ہے نا! بوبی نے میڈم سے کہا کہ آپ بتائیں کہ یہ سر چاہیے؟ انہوں نے کہا نہیں چاہیے۔ تو بہ احسن و خوبی بات ختم ہو گئی ”۔

” رات کو میں نے ابو سے کہا کہ دیکھیں اس بچے کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ میڈم نورجہاں سے بحث کر لی۔ ابو نے پوچھا کیوں کیا ہوا؟ بوبی نے واقعہ سنایا تو ابو نے کہا بہت اچھا کیا۔ اگر آج چپ کر جاتا تو ساری زندگی کے لئے ڈر جاتا۔ ادھر میڈم نے پیغام بھیجا کہ وزیر صاحب سے کہو مجھ سے ملیں۔ اسٹوڈیو میں ملاقات ہوئی۔ میڈم نے کہا کہ خان صاحب آپ سے درخواست کرنا ہے کہ اس بچے کو موسیقار ضرور بنانا۔ میں نے اس میں آپ جیسا ’کرنٹ‘ دیکھا ہے۔ ورنہ کسی میں اتنی جرات ہے کہ مجھ سے بحث کرے“ ۔

” ابو انتقال سے کچھ عرصے پہلے مجھ سے کہنے لگے کہ نام بھی ہو گیا، صحت بھی ٹھیک ہے، اولاد بھی سیٹ ہو گئی، تین بیٹوں کی شادی بھی کر دی، پیسہ بھی آ رہا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ اب کیا کروں؟ میں نے کہا کہ امی کو ساتھ لے جا کر حج کر آئیں! کہنے لگے کہ یار حج پر بڑا رش ہوتا ہے۔ میں نے کہا عمرے پر چلے جائیں۔ کہنے لگے کہ ہاں یہ ٹھیک ہے“ ۔

اظہار تشکر:

” ایک دن میرے ساتھ موٹر سائیکل پر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے سامنے سے جا رہے تھے۔ وہاں ایک ٹریفک کے لال اشارے پر میں رک گیا جبکہ میرے علاوہ شاید ہی کوئی دوسرا رکا ہو۔ اشارہ کھلا تو کہنے لگے ذرا سائڈ پر لگاؤ۔ میں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جی سی کی دیوار کے آگے موٹر سائیکل لگائی۔ اتر کر میرا منہ چوما اور کہا مجھے فخر ہو ا کہ میرے پیسے اور تیرا وقت ضائع نہیں ہوا“ ۔

باتوں باتوں میں حالت کی سختی کا ذکر آیا تو نعیم نے بتایا: ”ایک وہ وقت بھی آیا کہ وہ شخص جسے دنیا جانتی تھی وہ ہارمونیم پلیئر کی حیثیت سے حامد علی خان اور اسد امانت علی خان کے ساتھ بجانا شروع ہو گیا۔ انہوں نے بدترین حالات کا بھی مقابلہ کیا۔ اس میں میری والدہ کا بھی ہاتھ تھا“ ۔

تایا بخشی اور وزیر حسین:

” تایا بخشی میں وہ ساری چیزیں تھیں جو والد میں تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ دونوں ایک ساتھ تخلیق کیے گئے تھے۔ ابو کو میں نے گرم ہوتے دیکھا ہے وہ بخشی صاحب پر بھی ہو جاتے تھے۔ ایک دفعہ تایا کو دھکے مار کے نکال دیا لیکن صبح کو جب تایا بخشی آئے تو پہلے کی طرح گرم جوشی سے ملے۔ البتہ تایا بخشی بہت ٹھنڈی طبیعت و الے تھے۔ میرے والد 1997 میں انتقال کر گئے۔ ان کی فات کا تایا بخشی کو بہت صدمہ تھا۔ جب وہ آئے تو یہی کہہ رہے تھے کہ وزیر یہ کیا کر گئے یار! ان کو ایسا لگا جیسے خود ان کے اندر سے روح نکل گئی ہے۔ اس کے بعد وہ صرف اپنے دوستوں میں بیٹھتے یا گھر میں ہوتے تھے۔ ابو کے بعد وہ فلم انڈسٹری سے کنارہ کر گئے کہ وزیر کے بغیر بخشی وزیر کیسے چلے گا! 2003 میں تایا بخشی بھی والد کے پیچھے پیچھے اللہ کے حضورچلے گئے“ ۔

آہ بوبی وزیر:

اس بات چیت کے کچھ ہی دن بعد نعیم وزیر کے سب سے چھوٹے بھائی اور نہایت ہی باصلاحیت فنکار بوبی اکتوبر 2020 کو انتقال کر گیا۔ میں اس کے انتقال کے بعد نعیم سے ملنے اور تعزیت کرنے اس کے اسٹوڈیو گیا۔ یہاں میں نے بوبی کا وہ کام دیکھا اور سنا جو وہ انتقال سے قبل کر رہا تھا۔ واقعی وہ با صلاحیت موسیقار تھا۔ میں نے اس کے کام میں بخشی وزیر کی خوشبو دیکھی۔ ماشاء اللہ وزیر صاحب کا گھرانا فنکار گھرانا ہے۔ نعیم کے بھتیجے تیمور سے میری تیسری ملاقات تھی۔ اس نے اپنے نعیم چچا کی کمپوزیشن میں کیا غضب کے وائلن بجوائے اور ارینج کیے کہ اس کے دادا بے ساختہ یاد آ گئے جو کہا کرتے تھے کہ وائلنوں کے بغیر سنیما کا پردہ خالی ہے۔

۔ ۔
اختتام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).