پرائے پروں سے اڑان کی کوشش ناکام


دنیا کی پانچ ہزار سالہ تسلیم شدہ تاریخ میں ایک بھی قوم ایسی نہیں کہ جس نے کسی دوسرے کی زبان میں تعلیم حاصل کی ہو اور ترقی یافتہ کہلائی ہو۔ آپ بدیسی زبان میں سیکھ تو سکتے ہیں لیکن آپ کسی اور کی زبان میں قوت تخلیق سے محروم ہو جاتے ہیں۔

علم نفسیات کے ماہرین کے مطابق انسان کی قوت اظہار اور خود اعتمادی 30 فیصد تک گر جاتی ہے جب ہم کسی دوسرے کی زبان کا سہارا لیتے ہیں۔ ہم اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کر کے بھی انگریزی میں اپنے فہم و فراست کا 70 فیصد حصہ ہی استعمال کر سکتے ہیں لیکن اپنے تئیں اس احساس کمتری کا شکار ضرور رہتے ہیں کہ ہم اپنا ما فی الضمیر اپنے مخاطب تک مکمل طور پر پہنچا بھی سکے ہیں ہیں یا نہیں۔ ہم سوچتے اردو میں ہیں، خواب اردو میں دیکھتے ہیں۔ کیوں، اسی لیے کہ پنگھوڑے سے کانوں میں اردو ہی کی آواز گونجتی ہے۔ ہم انگریزی بول اور لکھ تو سکتے ہیں مگر انگریزی میں برجستگی اور بے ساختہ پن پیدا نہیں کر سکتے۔

تاریخ گواہ ہے کے صرف دو قوموں نے انقلابی ترقی کی اور انہی ادوار ان کی تاریخ کے سنگ میل قرار پائے۔ عربوں نے اور انگریزوں نے۔ عربوں کے پاس صرف چھ سات قصیدے تھے جو خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکا رکھے تھے۔ فلسفہ نہ طب، فن نہ معاشرت۔ تیس ہزار دینار تنخواہ تھی اس مترجم کی جو خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں ترجمہ کیا کرتا تھا۔ جب دنیا کا تمام علم انہوں نے اپنی زبان میں محفوظ کر لیا تو پھر دنیا کے ہر تخت پر مسلمان براجمان تھے۔

اسی طرح انگریزوں کے پاس شیکسپیئر اور چند رومانوی شاعروں کے علاوہ اور تھا بھی کیا؟ لیکن رات کو فرانس میں کتاب شائع ہوتی اور صبح بیٹھ کر انگریزی میں ترجمہ ہوا کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بو علی سینا عربی میں نہیں انگریزی میں ملتا ہے، پاسکل فرانسیسی میں نہیں انگریزی میں ملتا ہے، ارشمیدس ہمیں یونانی میں نہیں بلکہ انگریزی میں ملتا ہے۔ اسی طرح ہزاروں سائنسدان، فلسفی، حکیم جن کا اپنی زبان میں نام و نشان تک باقی نہیں، ہمیں انگریزی میں ملتے ہیں۔

ہمیں ہمیشہ یہ باور کرایا جاتا ہے کہ انگریزی تمہارا مسئلہ ہے۔ کوئی چین کو کیوں نہیں کہتا، فرانس کو کیوں نہیں کہتا، روس کو کیوں نہیں کہتا، جرمنی کو کیوں نہیں کہتا۔ سی ایس ایس کے امتحان میں آدھے امیدوار انگریزی کے ناکافی علم کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ اس قوم کے لیے انگریزی کو ’احساس کمتری‘ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم منافق ہیں۔ ہماری عدالتی بحث اور جرح اردو میں ہوتی ہے لیکن حتمی قانونی فیصلہ انگریزی میں ہمارے ہاتھ میں تھمایا جاتا ہے۔ ہماری نوکر شاہی کا یہ عالم ہے کہ درخواست انگریزی میں مانگتے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں ”جی اردو میں بتائیے چاہتے کیا ہیں؟“ اسی طرح جب ہمارے حکمران بین الاقوامی مجالس میں لہک لہک کر انگریزی میں تقریریں جھاڑتے ہیں تو یہ قوم داد دیتے نہیں تھکتی۔ ہم نے برف کا خاطر خواہ مشاہدہ نہیں کیا ہوتا لیکن ’سنو وائٹ‘ کو ہم خوب جانتے ہیں۔ ہماری نظر سے ’کرسمس ٹری‘ کبھی نہیں گزرا لیکن ہمارے ہاں ’سانتا کلاز‘ کے خوب چرچے ہیں۔

ترکوں نے سو سال تک ’غیروں‘ کی طرح کا لباس پہنا، ان کے جیسی بودوباش اختیار کی، ان کی طرح عربی رسم الخط چھوڑا۔ ان کی طرح ’بے ہودہ‘ ڈرامے فلمیں بنائیں۔ ہر وہ کام کیا جس کا تصور بھی یورپ میں ہو سکتا تھا۔ مگر جب یورپین یونین میں شمولیت کی درخواست دی تو جواب ملا، ’خبردار، تمہاری اور ہماری مثال بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کی طرح ہیں جو مل تو سکتے ہیں لیکن ضم کبھی نہیں ہو سکتے‘ ۔ کیا عظیم لوگ تھے ترک، قسطنطنیہ (موجودہ دور کا استنبول) دنیائے اسلام کا قلب تھا۔ لیکن جب مغرب کے سحر میں مبتلا ہوئے تو آج کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ آج وہ اپنی شناخت کو ترستے پھر رہے ہیں۔

قومیں معاشی استحکام اور تکنیکی ترقی سے نہیں بلکہ قومیں نظریات، شعور اور وقار سے نمو پاتی ہیں۔ کوئی آپ کی عزت نہیں کرے گا جب تک آپ خود اپنی عزت نہ کروانا چاہیں۔ کوئی کیوں ہماری زبان سیکھنا چاہے گا اگر ہمارے ریاستی ادارے ہی اس کی قدر و قیمت سے نا آشنا ہیں۔ ایک تنے کو کہیں سے اٹھا کر زمین میں گاڑا اور ٹکایا تو جا سکتا ہے مگر اسے نشوونما دینا نا ممکن ہے۔ ایک درخت اتنا ہی مضبوط ہوتا ہے کہ جتنی اس کی جڑ گہری اور مضبوط ہوتی ہے۔

انگریزی کی مثال ہمارے معاشرے میں اسی جبری طور پر گاڑے ہوئے درخت کی مانند ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی روایات کی قدر اور وقعت کو تسلیم کریں۔ ورنہ آج سے کچھ عرصہ بعد ہم بھی ترکوں کی طرح نہ تین میں ہوں گے نہ تیرہ میں۔ ہمارے پاس بھی ’سلطان احمد مسجد‘ کی طرح کے اسلامی فن تعمیر کے شاندار نمونے تو شاید ہوں گے لیکن اپنے رہن سہن سے بالکل ثابت نہ ہو گا کہ یہی ہماری میراث ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).