لفظوں کی رنگا رنگ کائنات


زمانہ قدیم میں کسی بزرگ کے وعظ و نصیحت کو سننے سے جو اثر ہوتا تھا ویسا ہی کچھ اثر لفظوں سے ہوتا ہے۔ لفظ سننے میں میٹھے، شیریں، کرخت، کڑوے، ذائقہ دار اور بے مزہ ہوتے ہیں۔ زبان سے نکلے ہوئے بعض الفاظ تیر کی طرح کسی کے سینے میں لگ کر اس کا بلڈ پریشر بڑھانے کی قدرت رکھتے ہیں اور بعض لفظوں کے سننے سے مزاج شریف میں طغیانی آنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔

بعض لفظ کانٹوں کی طرح چبھتے ہیں۔ ان نوکیلے لفظوں کے اثر سے بچنے کے لیے خلوت کی ڈھال کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ورنہ ایسے الفاظ کانوں میں زہر گھول کر دل پر منفی اثر کرتے ہیں۔ ایسے الفاظ کی بھی کمی نہیں جو انسان کو برہم کرتے ہیں، اشتعال دیتے ہیں، قتل کرنے یا قتل ہونے جیسے جذبات کو ابھارتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر انسان کا دھیان اگر بٹ نہ جائے تو بڑی انہونی ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

بعض لفظ سن کر تو انسان وہم اور شک میں مبتلا ہوتا ہے اور بعض لفظ ڈر اور خوف کو ابھارتے ہیں۔ بعض لفظوں سے انسان پر اتنا اثر ہوتا ہے کہ وہ سنگین سے سنگین جرم کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ یہ لفظوں کی ہی کرامت ہے کہ انسان جان عزیز تک دینے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ لفظ ہی انسان کو بگاڑتے ہیں، تباہ و برباد کرتے ہیں اور اسفل حرکات کراتے ہیں۔ لفظوں کے اثر سے انسان خون خوار درندہ بن سکتا ہے اور دوسروں کا جینا دوبھر کر سکتا ہے۔

کچھ لفظ منحوس ہوتے ہیں ، ان شانتی پھیلاتے ہیں۔ گمراہی کا سبب بنتے ہیں۔ لفظ ہی کسی شخصیت پر کیچڑ اچھالنے اور پگڑی گرانے کے سبب بنتے ہیں۔ کسی کو دکھ دینے، بے قرار کرنے، پریشان کرنے، پیشمان کرنے، بکھیرنے، توڑنے، مجروح کرنے، گھائل کرنے، چین و سکون غارت کرنے کے لیے زبان سے نکلے چند ہی لفظ کافی ہیں۔

لفظوں میں بلا کی تاثیر ہوتی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کہ الفاظ مزاج شریف میں صرف ہلچل پیدا کرتے ہیں بلکہ کچھ ایسے بھی الفاظ ہیں جن کو سن کر دل باغ باغ ہوتا ہے۔ خوشی جھوم جھوم کر قریب آتی ہے۔ انسان کے سبھاؤ اور مزاج میں بہتری آتی ہے۔ زندگی میں چین و سکون آتا ہے۔ انسان ہر وقت انبساط کی کیفیت میں ہوتا ہے۔ یہ لفظوں کی ہی کرامت ہے کہ انسان ہر لمحہ حسین خوابوں میں پڑا رہتا ہے۔ جھومتا، گاتا اور ناچتا رہتا ہے۔

لفظوں میں یہ صلاحیت ہے کہ یہ ایک انسان کے عادات ، اطوار اور کردار میں بدلاؤ لاتے ہیں۔ لفظ انسان کو رذیل اور اسفل عادتوں کی غلامی سے نجات دے کر اچھی اور بہترین عادات کی مسند پر بٹھا دیتے ہیں۔ دکھ کے خزاں رسیدہ باغ لفظوں کے اثر سے ہی سکھ کے حسین و جمیل باغ میں تبدیل ہو جاتے ہیں، جہاں سکھ کے پھول ہرے بھرے اور آب و تاب کے ساتھ اپنی خوشبو بکھیرتے رہتے ہیں۔

لفظوں میں پوری زندگی کو بدلنے کی طاقت اور قوت ہے۔ لفظ مردہ جسم میں جان اور توانائی بھر سکتے ہیں۔ نا امید میں امید کی کرن جگا سکتے ہیں۔ کم حوصلہ کو حوصلہ عطا کر سکتے ہیں ، ہار کو جیت میں بدل سکتے ہیں۔ شکست خوردہ کو فتح کے سنگھاسن پر بٹھا سکتے ہیں۔ لفظوں میں اتنی طاقت اور قوت ہے کہ یہ بے اختیار کو با اختیار بنا سکتے ہیں۔

لفظ کیا اثر کرتے ہیں ، اس کا مدار اس پر بھی ہے کہ لفظ کس کی زبان سے ادا ہو رہے ہیں۔ کسی حسینہ گل اندام کے دہن مبارک سے تعریفوں کے دو بول سننے سے طبعیت میں نکھار آتا ہے اور امنگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دل میں رواں ہونے لگتا ہے جس میں ارمانوں کی کشتیاں چلتی رہتی ہیں۔

کسی دوست کی زبان سے مذاق مذاق میں نکلے ہوئے الفاظ بعض دفعہ گالی کی بھیانک صورت میں سامنے آتے ہیں اور کوئی حسینہ گل اندام جب تیغ بے نیام بن کر گالی دینے آتی ہیں تو وہ مذاق بن جاتا ہے۔ اول اول محبت کے نشے میں محبوبہ کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ تبرک اور شفا بخش اثر رکھتا ہے لیکن جب بعد میں اسی محبوبہ سے شادی ہو جائے تو اس کے الفاظ سانپ بن کر ڈسنے لگتے ہیں۔

لفظ مختلف موقعوں کی مناسبت سے مختلف اثر کرتے ہیں۔ بادشاہ خوشی کی انتہا پر ہو تو گالی بھی اس کے کانوں میں رس گھولتی ہے ، وہی بادشاہ پریشان ہو تو تعریفیں بھی ناگوار اور طبیعت پر گراں گزرتی ہیں۔ بہرحال لفظ جیسے بھی ہوں اثر رکھتے ہیں۔ ہر اس شخص کو جس کے منہ میں گوشت کا لوتھڑا (زبان) ہے ، الفاظ کا استعمال اور انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے ۔ اسی میں سب کی بھلائی اور سلامتی ہے کیونکہ لفظ ہی مائل کرتے ہیں اور لفظ ہی گھائل کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).