آج ڈھائی بجے سے شریف حکومت ڈولنے لگے گی


\"\"

پنجاب میں آج بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کا انتخاب ہو رہا۔ چھتیس اضلاع میں سے بتیس اضلاع کی بلدیاتی قیادت کا انتخاب آج ہو گا۔ چار اضلاع میں پہلے ہی امیدواران بلا مقابلہ منتخب ہو چکے ہیں۔ پولنگ کا وقت دو بجے تک ہے۔ ڈھائی بج چکے ہوں گے جب ووٹوں کی گنتی شروع ہو گی۔ نتائج آئیں گے۔ دو تین اضلاع کو چھوڑ کر پنجاب بھر میں مسلم لیگ نون کا مقابلہ مسلم لیگ نون کے ساتھ ہی ہو رہا ہے۔

نوازشریف نے بلدیاتی اداروں کے سربراہان کا اتنخاب خود کیا تھا۔ اس انتخاب کا اعلان بلدیاتی الیکشن منعقد ہونے کے تقریباً ایک سال بعد ممکن ہو پایا۔ امیدواروں کے اعلان سے پہلے ایک گہری سوچ بچار کی گئی۔ تمام اضلاع کے حقائق معلوم کیے گئے۔ مقامی سیاسی دھڑوں کی طاقت کا اندازہ لگایا گیا۔ آئندہ عام انتخابات کو سامنے رکھ کر نامزدگیاں سوچی گئیں۔

بہت باریک بینی سے یہ جائزہ لیا گیا کہ کس امیدوار کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی سوچ لیا گیا تھا کہ اگر نظرانداز امیدوار بغاوت کرے تو کتنا نقصان پہنچائے گا۔ اس کی اصل طاقت کتنی ہے جب وہ ناراض ہو کر سامنے کھڑا ہو گا تو اپنی کتنی سیاسی طاقت برقرار رکھ پائے گا۔ آیا اس کی ناراضی کا اگلے الیکشن میں علاج کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مخالفت افورڈ کی جا سکتی ہے یا نہیں۔

نوازشریف نے اپنے پرانے ساتھی سردار ذوالفقار کھوسہ اور ان کے گروپ کو ڈی جی خان میں مکمل نظرانداز کیا۔ وہاں نامزدگیاں اس طرح کی گئی ہیں کہ سردار صاحب اگر مسلم لیگ نون چھوڑ بھی جائیں تو پارٹی کی سیاسی طاقت میں فرق نہیں آئے گا۔ یہ ایک مثال ہے کہ کھوسہ سردار کے متبادل کے طور پر انہی کے کزن پر ہاتھ رکھ دیا گیا ہے۔ جن کے سیاسی مسائل بھی کم ہیں اور عوامی رابطے بھی بہتر ہیں۔

مستقبل کی سیاست اور اگلا الیکشن، یہ سب سوچا گیا اور اس صورتحال کو جان کر میاں نوازشریف نے تقریبا سارے فیصلے خود کیے۔ انہوں نے یہ فیصلے اپنے آئندہ منصوبوں کو مدنظر رکھ کر کیے۔ ایسا کرتے ہوئے کسی کی پرواہ نہیں کی۔ جب فیصلوں کا اعلان ہو رہا تھا تو شہباز شریف لندن جا بیٹھے تھے۔ آپ اس سے جو مرضی نتیجہ نکالیں آپ کی مرضی۔

شہباز شریف کے قریبی ساتھی خواجہ حسان کو ایک سال سے لاہور کا میئر سمجھا جا رہا تھا۔ ان کی بجائے ایک بالکل نئے اور غیر معروف شخص کرنل مبشر کو لاہور کا میئر نامزد کر دیا گیا۔ وجہ دلچسپ ہے۔ نوازشریف نے لاہور میں اپنی کشمیری برادری کو پیچھے کر کے ارائیں برادری کو میئر کی سیٹ دے کر آن بورڈ لیا ہے۔ لاہور کی شہری سیاست اور اس کی برادری ڈائنامکس کو سمجھتے ہوئے برادریوں کی سیاسی طاقت میں توازن قائم کیا ہے۔ خود سے ایک لیبل ہٹانے کی کوشش کی ہے کہ وہ لاہور میں ہر جگہ کشمیری برادری کو ہی آگے لانے کی کوشش کرتے ہیں۔

راولپنڈی میں اہم پارٹی لیڈروں کے حمایتی ارب پتی امیدوار کو نظر انداز کر کے ایک کارکن کو میئر بنایا ہے۔ سردار نسیم مشرف دور میں درجنوں بار جیل گئے۔ کسی پارٹی ورکر کے لئے ان کی پارٹی وابستگی پر اعتراض کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس نامزدگی سے پنڈی میں مسلم لیگ نون کے ورکر اپنی پارٹی قیادت سے زیادہ جڑ بھی جائیں گے اور سرگرم بھی ہوں گے۔ یاد رہے کہ پنڈی ضلع سے کپتان، شیخ رشید اور غلام سرور خان نے مسلم لیگ نون کو تین قومی اسمبلی سیٹوں پر شکست دی تھی۔ یہ کارکردگی دہرانا پی ٹی آئی کے لئے اب بہت مشکل ہو جائے گا۔

نوازشریف نے جتنی نامزدگیاں کیں ان سب میں ایک بات بہت اہم تھی۔ ہر نامزدگی میں ترجیح اس امیدوار کو دی گئی جو یا تو ممبران قومی اسمبلی کے کسی دھڑے کا قائد تھا یا ان کا نامزد کردہ تھا۔ صوبائی اسمبلی کے ممبران کی ان نامزدگیوں میں زیادہ پروا نہیں کی گئی۔

فیصل آباد میں صوبائی وزیر رانا ثنا اللہ کے گروپ کو فوقیت دی گئی تھی۔ یہ فوقیت نوازشریف نے اپنے قریبی عزیز چوھدری شیر علی کو نظر انداز کرتے ہوئے دی تھی۔ اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ چھ ممبران قومی اسمبلی کی حمایت رانا ثنا اللہ کو حاصل تھی۔ چیئرمین ضلع کونسل کے لئے نوازشریف نے اپنے قریبی ساتھی میاں فاروق کے بیٹے کو نامزد کیا تھا۔

اب الیکشن سے کچھ گھنٹے پہلے فیصل آباد کی شہری حکومتوں کے انتخابات کو اوپن کر دیا گیا ہے۔ نامزدگیاں واپس لے لی گئی ہیں۔ اس سے پہلے گجرانوالہ میں نامزد امیدوار تبدیل کر دیے گئے تھے۔

نوازشریف بہت اہم جگہوں پر اپنے کیے گئے فیصلوں کو برقرار نہیں رکھ سکے۔ دس کے قریب اضلاع ایسے ہیں جہاں انہوں نے اپنے فیصلے تبدیل کیے ہیں۔ مد مقابل امیدواروں کا تعلق مسلم لیگ نون سے ہی ہے۔ کوئی بھی جیتے مسلم لیگ نون ہی جیتے گی۔ بظاہر یہی دکھائی دے گا کہ مسلم لیگ نون نے میدان مار لیا ہے۔

یہ مگر پورا سچ نہیں ہے۔

جو بھی جیتے گا وہ یہ سمجھے گا کہ اس کی جیت اس کی اپنی سیاست طاقت کے بل بوتے پر ہے۔ ہارنے والا بھی خوش نہیں ہو گا۔ وہ اپنی پارٹی قیادت کو ذمہ دار سمجھے گا۔ اب الیکشن تک مسلم لیگ نون کے لئے ان دھڑوں میں توازن قائم رکھنا ہی اصل کام ہو گا۔ مسلم لیگ نون سیاسی طور پر ایک مشکل کا شکار ہونے جا رہی ہے۔ فیصل آباد میں پکی سیٹ والے چوھدری زاہد نذیر نے نوازشریف کا فیصلہ تبدیل کرا کے بہت کچھ بدل دیا ہے۔

اہم سیاسی کھلاڑی واضح طور پر جان گئے ہیں کہ اگر وہ اپنی سیاسی حمایت شو کر سکتے ہیں تو پھر نوازشریف سے بھی ان کے فیصلے بدلوائے جا سکتے ہیں۔ یہ سوچ نوازشریف کے لئے نئے سیاسی چیلنج لے کر آئے گی۔ اگر ان کے سیاسی مخالفین کو صورتحال کی سمجھ آ گئی تو نوازشریف کی مشکلات کئی گنا بڑھ جائیں گی۔

یہ سب کچھ ہو بھی ان اضلاع میں رہا جو گنجان اباد ہیں۔ جہاں ایک ایک ضلع میں قومی اسمبلی کی پانچ پانچ سیٹیں ہیں۔ مسلم لیگ نون حلقہ جاتی سیاست کی ماہر پارٹی ہے۔ طاقتور سیاسی دھڑوں کو ساتھ ملانا جانتی ہے۔ سیاسی عہدوں اور طاقت کی تقسیم کی تجربہ کار گرو اور کھلاڑی جماعت ہے۔ ان مشکلات پر کسی نہ کسی طرح قابو پا ہی لے گی۔

مشکل بھی کوئی ایک ہو تو اس کا علاج سمجھ آئے۔ مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں بھی تو ہونی ہیں۔ پرانے سیاسی کھلاڑیوں کی طاقت تقسیم ہو گی پرانا تجربہ بھی اتنے کام کا نہیں رہے گا جب نئے حالات سامنے آئیں گے۔ ویسے تو یہ حلقہ بندیاں بھی صوبائی حکومتوں نے ہی کرنی ہیں۔ پر حلقہ بندیاں جیسی مرضی کر لیں ناراض اور غیر مطمئین سیاسی کھلاڑیوں کے ہجوم سامنے آئیں گے۔ یہ ایک موقع ہو گا کپتان کے لئے جو نوازشریف کو ان کی پاور بیس پنجاب سے بیدخل کرنے کے لئے روڈ پر پھر رہا ہے۔

بائیس دسمبر دن ڈھائی بجے سے شریف سیاست نظر نہ آنے والی مشکلات کے مدار میں داخل ہونے جا رہی ہے۔ یہ بات کوئی جائے اور جا کر کپتان کو بتا دے جس کی سیاست کے مستقل بارہ بجے رہتے ہیں۔ وہ اب عقل کو ہاتھ مارے اور شریفوں کے بارہ بجنے دے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments