عربی کی تعلیم اور بھولی سینیٹ


خبروں کے مطابق سینیٹ اجلاس کے دوران مسلم لیگ نون کے سینیٹر جاوید عباسی کی جانب سے پیش کیا گیا تعلیمی اداروں میں عربی زبان کی لازمی تعلیم کا بل منظور کر لیا گیا۔ بل کے مطابق پہلی سے پانچویں جماعت تک عربی پڑھائی جائے اور چھٹی جماعت سے گیارہویں جماعت تک عربی گرامر پڑھائی جائے۔ متعلقہ وزیر چھے ماہ میں اس بل پر عمل درآمد یقینی بنائے گا۔

سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ قرآن پاک سمجھیں تو ہم ان مسائل سے نہ گزریں جن سے ہم گزر رہے ہیں۔ ہمیں اپنی آخرت کو سدھارنا ہے تو اس زبان پر عبور حاصل کرنا ہو گا۔ ہمارے لوگوں کو عربی زبان آئے تو مشرق وسطیٰ کے ممالک میں زیادہ پاکستانیوں کو نوکری ملے گی۔

مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں 19 اپریل 2017 کو وزیر مملکت برائے وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت محمد بلیغ الرحمٰن نے قومی اسمبلی میں ”قرآن پاک کی لازمی تعلیم بل 2017“ پیش کیا جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ اس بل کے مطابق اسلام آباد اور فاٹا سمیت صوبائی حکومتوں کے ماتحت آنے والے تمام نجی و سرکاری تعلیمی اداروں کے لیے مسلمان طالب علموں کو جماعت اول تا پنجم قرآن کی ناظرہ تعلیم جبکہ چھٹی جماعت سے بارہویں جماعت تک قرآن کی مترجم تعلیم دینا ضروری قرار پایا۔

یعنی اگر دونوں بلوں پر کبھی واقعی عمل ہو گیا تو ہمارے ننھے منے معصوم بچے ایک لازمی مضمون پڑھ کر عربی زبان کے عالم بنیں گے اور دوسرا لازمی مضمون پڑھ کر قرآن کے۔

اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم بظاہر تو صوبائی معاملہ قرار پا گیا ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ ملک، قوم اور امت کے وسیع تر مفاد میں صوبائی اسمبلیاں اپنے اختیارات بصد خوشی وفاق کو سونپ دیں گی۔ سکولوں میں یہ بچے قرآن کے ماہر بن جائیں گے۔ نیز جب وہ یونیورسٹی میں پہنچیں گے تو انہیں گویا مفت کے نمبر ملیں گے کیونکہ ادھر بھی قرآن کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جا رہا ہے۔ طلبا تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہوں گے کہ یونیورسٹی میں بھی تعلیم ایسی ہے گویا وہ پرائمری میں پڑھ رہے ہوں۔

انگریزی کو دیکھیں تو نہایت مشکل زبان ہے۔ پلے گروپ سے بچے کو انگریزی پڑھائی جاتی ہے اور ایم اے تک بھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود یہ دیکھا گیا ہے کہ تقریباً بیس برس انگریزی پڑھ کر بھی بچے سادہ سی انگریزی لکھنے بولنے اور سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ عربی میں یہ مشکل پیش نہیں آئے گی کیونکہ عربی نہایت آسان زبان ہے۔ سنا ہے کہ عربی میں اونٹ کے سو اور شیر کے بھی دو تین درجن نام ہیں جو اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے ناچتے گاتے جانور کی کیفیت دیکھ کر بولے جاتے ہیں۔ امید ہے کہ طلبہ یہ سب نام سیکھ سمجھ کر عربی کے بڑے ماہر بن جائیں گے۔

یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ عربی کون سی ہو گی، کلاسیکل عربی جو صرف قرآن حدیث سمجھنے کے کام آتی ہے یا پھر جدید عربی جو سیکھ کر بندہ عربوں سے بات چیت کر سکتا ہے اور ان سے ملازمت اور عطیات وغیرہ مانگ سکتا ہے۔ جاوید عباسی صاحب ایک ہی وار سے دین اور دنیا دونوں کا بھلا چاہتے ہیں۔ ایک ہی سانس میں کہتے ہیں کہ عربی سیکھ کر ہماری آخرت سدھرے گی اور عربستان میں نوکری بھی ملے گی۔ گویا اب دونوں طرح کی عربی پڑھائیں گے، یعنی تین لازمی مضامین ہوں گے، کلاسیکل عربی، جدید عربی اور قرآنی تعلیم۔

مشاہدے میں آیا ہے کہ مادری زبان عربی ہونے کے باوجود بھی موجودہ زمانے کے عرب مذہب سے کوسوں دور ہیں۔ اندیشہ ہے کہ دنیا کے علاوہ آخرت میں بھی ان کا معاملہ خراب ہو سکتا ہے۔ لیکن ہم عربی سیکھ کر یقیناً ان سے بہتر فہم دین پیدا کر لیں گے جن کی مادری زبان عربی ہے کیونکہ ہم دنیا کی تیسری ذہین ترین قوم ہیں۔ پہلی دو پتہ نہیں کون سی ہیں، کہیں ان میں سے ایک عرب نہ ہوں۔

ایک خبر یہ ہے کہ اگلے دس سے بیس سال میں تیل کا بولو رام ہونے جا رہا ہے۔ گاڑیاں تیل کی بجائے بجلی سے چلیں گی۔ تو پھر عربستان میں صرف ایسی ناکارہ ریت کی معیشت ہی بچے گی جو کنکریٹ بھی نہیں بنا سکتی۔ ادھر نوکریاں ختم ہونا شروع ہو چکی ہیں اور معیشتیں سکڑ رہی ہیں۔

مغربی ممالک کا سرمایہ محض عربی سے محبت کی وجہ سے ہی عربستان میں لگا ہوا ہے۔ بیس برس بعد ہمارے گلی کوچوں میں عربی عام بولی جا رہی ہو گی اور عربستان کے موجودہ رجحان کو دیکھتے ہوئے ادھر انگریزی کا چلن ہو گا، تو گورے جوق در جوق اشرفیوں کی تھیلیاں اٹھا کر عربستان سے ہمارے پاس آئیں گے۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ ایسا اگلے تین چار برس میں ہی ہو جائے، کیونکہ ادھر معیشت سکڑنے اور غیر ملکیوں کو نوکریوں سے فارغ کرنے کی وجہ سے عربی جاننے والے بہت سے محنت کش اس دوران پاکستان پہنچ چکے ہوں گے۔

بہرحال ایک پریشانی ہے۔ اگر جاوید صاحب درست کہہ رہے ہیں کہ عربی سیکھے بغیر آخرت نہیں سدھرے گی، تو ہماری سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین اور ان کی آل اولاد کی آخرت کا معاملہ خراب ہی لگتا ہے۔ ان میں سے غالب ترین اکثریت کو عربی نہیں آتی۔ کہیں منکر نکیر کے سوال کا فصیح عربی میں جواب نہ دینے کی وجہ سے ان کی آخرت مزید نہ بگڑ جائے۔ سوال ہو گا کہ تم نے کتنے برس گناہ کی زندگی بسر کی، اور معصیت کو معصومیت سمجھ کر جواب دے دیا جائے گا کہ ساری زندگی اسی حال میں گزری ہے۔

پتہ نہیں کیوں ہمیں یہ یاد پڑ رہا تھا کہ آخرت کے سنورنے بگڑنے کا تعلق زبان سے نہیں اعمال سے ہوتا ہے۔ ایک کتاب میں آخرت سنوارنے کا یہ نسخہ اردو میں پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا، جاوید عباسی صاحب بھی پڑھ لیں تو مفید ہو گا۔
”عصر کی قسم، کہ انسان نقصان میں ہے، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے“

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar