مدرسوں میں بچوں پر تشدد


اس ہفتے ہمارے دوستوں کے whatsup گروپ میں ایک دوست نے ایک ویڈیو اپلوڈ کی، جس میں بڑے ہال میں بچے سیپارے پڑھ رہے ہیں اور نوجوان مولوی صاحب تین بچوں کو تھپڑوں سے تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ میرے لیے پوری ویڈیو انتہائی تکلیف دہ تھی اور اس سے پہلے بھی ایسی ویڈیو مختلف فورمز پر آتی رہتی ہیں اور میرے مشاہدے میں عموماً اس کے بعد لوگوں کے تبصروں میں زور اس بات پر ہوتا ہے کہ ایسی ویڈیوز کے ذریعے ہمارے مذہب اور مذہبی اساتذہ کے بارے میں منفی تاثر پیدا اور اجاگر کیا جاتا ہے، اپنا اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا جاتا ہے، کچھ دیر بعد بات کا رخ کسی اور طرف مڑ جاتا ہے۔

آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا، جہاں کچھ دوستوں نے اپنے دلی دکھ کا اظہار کیا وہیں کچھ دوستوں نے اس ویڈیو کو اسلام کو بدنام کرنے کا ذریعہ قرار دے دیا۔ اسی طرح جب کسی مشہور فرد کی ذاتی زندگی کے بارے میں کوئی الزامات سامنے آتے ہیں، یہاں الزامات سے مراد وہ کام/حرکات ہیں جو کہ رائج الوقت قانون کو پائمال کرتے نظر آتے ہوں تو اس شخصیت کے حامی اور مخالف قانونی راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دینے کے بجائے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں اور انفرادی جوابدہی کے مسلمہ اصولوں کو بھول جاتے ہیں۔

میں سوچ رہا تھا کہ اوپر بیان کردہ ویڈیو کی مثال لی جائے تو کیا یہ ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے عمومی متشدد رویوں کی عکاسی نہیں کرتی؟ کیا اس میں ہونے والے تشدد پر اس استاد کو جوابدہ نہ ٹھہرایا جائے جس نے ایک طرف تو بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور دوسری طرف مذہب کے بارے میں غلط تاثر پیدا کیا۔ علاوہ ازیں یہی بچے آنے والی کل کے شہری ہوں گے، ان کا مذہب کے بارے میں اس کچی عمر میں بننے والا تاثر مستقبل کی سوسائٹی کی ساخت متعین کرے گا۔

بات سے بات چل نکلی ہے تو اگر یہ کہوں کہ ویڈیو میں دکھایا جانے والا تدریسی طریقہ ہر مسجد/مدرسے میں نہ سہی مگر زیادہ تر میں مدت دراز سے رائج ہے تو کچھ اتنا غلط بھی نہ ہوگا۔ اور مسجد اور مدرسہ ہی کیوں ہمارے سکولوں میں بھی ابھی تک اس طریقہ تعلیم کو اتنا غلط نہیں سمجھا جاتا۔ علاوہ ازیں روایتی گھرانوں میں تربیت کے نام پرو کبھی کبھار تھپڑ، مکے وغیرہ کے استعمال کو غیر معیوب نہیں سمجھا جاتا بلکہ ہماری روایات میں تو بچوں کی تربیت اور ڈسپلن میں اس حکمت عملی کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن اس کے اثرات بالخصوص انفرادی سطح پر اور پھر ان تجربات سے گزرنے والے افراد پر مشتمل سوسائٹی کیسی ہو گی، اس کا اندازہ لگانے کے لیے ہمیں کسی آئن سٹائن جیسے سائنسدان کی ضرورت نہیں۔

کیا ہمیں اپنے رویے پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں ہے؟ ہم انفرادی سطح پر کیے جانے والے غلط کام کو مذہب پر حملہ کیوں قرار دیتے ہیں؟ کیا ایسا تو نہیں کہ با اثر افراد اپنی غلط کاریوں کی انفرادی جوابدہی سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو مذہب، سیاست یا کسی اور با اثر ادارے کے پیچھے چھپنا چاہتے ہیں اور عموماً اس میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ اس طرح آہستہ آہستہ سوسائٹی میں جہاں انفرادی جوابدہی کی ذمہ داری صرف کمزور اور بے وسائل طبقوں تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہے وہیں اظہار راے کا بنیادی حق بھی آہستہ آہستہ سکڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح ہم ایک ایسے بھنور یا دلدل میں پھنس جاتے ہیں جہاں بظاہر تمام تر کوشش کے باوجود سوسائٹی اچھے نتائج پیدا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ پاکستانی سوسائٹی اس وقت ایسے ہی منظر کی نقشہ کشی کرتی نظر آتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).