گوہرِ نایاب ہم سے بچھڑ گیا


کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں

کبھی کبھار زندگی میں دیر کی بہت ہی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے یہاں تک کہ اپنی عزیز ترین اور عظیم ترین ہستیوں کے کھو جانے کے دکھ کا بوجھ تا عمر دل پہ بھاری رہ جاتا ہے۔

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

ایک مشہور میڈیا گروپ کے مایہ ناز صحافی زین العابدین کے جہان فانی سے کوچ کرنے کی خبر اہل دانش پر کسی قیامت کی طرح ٹوٹی۔ وہ صحافی محض ایک صحافی ہی نہیں تھا، وہ ایک ایسا دانشور ذہن تھا جس کا جنم صدیوں میں بھی مشکل ہی سے ہوا کرتا ہے۔ غیر معمولی دانشورانہ صلاحیتوں کا حامل، کتابوں کا عاشق، اور بایؑیں بازو کا ناقابل شکست ہیرا آج ہم میں نہیں رہا۔ اس کا جانا نہ صرف بایؑیں بازو، صحافت، بلکہ انسانیت کا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے جس کا ازالہ وقت بھی نہیں کر سکتا۔

صحافت کے تمام پیچ و خم سے مکمل آگاہ، زندگی کے ہر شعبہ میں بلا کا علم رکھنے والا یہ گوہر نایاب جس کے پاس تاریخ، ادب، فلسفہ، معاشیات، عمرانیات، سیاسیات گویا ہر مکتبہؑ فکر کے الجھے ہویؑے تار جس خوبصورتی سے سلجھتے تھے، وہ گوہر نایاب میرا سگا بھایؑی بھی تھا۔

دانشوری کی دنیا کے اس چیتے کے بہت سے ذاتی پہلووؑں کے حوالے سے دنیا اب بھی نا آشنا ہے۔ انہوں نے ایک ایسی ہستی کی گود میں جنم لیا جو علم و آگہی کی دولت سے محروم، مشکل حالات میں پروان چڑھنے والی ہستی تھی۔ اپنی پہلی اولاد کی حیثیت سے ان سے بلا کی محبت کرنے والی، تعلیم سے محروم ماں کے لیؑے اپنی اس اولاد کو غیر معمولی سمجھنا ذرا مشکل کام تھا اور یہی وہ مشکل تھی کہ جس کی پاداش میں ایک نہ ختم ہونے والی تڑپ اس ماں کی سانسوں پہ آج تک بھاری ہے۔

زین ایک ایسے باپ کا بیٹا تھا جس نے بچپن سے ان کے کتاب سے محبت کے رجحان کو ابھارا اورجو بھی تحائف وہ اپنے بیٹے کو بچپن میں دے پایا ان میں صرف کتابیں ہی تھیں کہ جس کی بدولت کتاب سے محبت کا سفران کا بچپن سے ہی شروع ہو گیا۔ اپنے ہوش سنبھالنے سے لے کر ان کے ہم سے دور ہونے تک میں نے اپنے بھایؑی کو کتابوں میں جتا ہوا ہی پایا۔ وہ اکثر کہتے تھے ”آگہی عذاب ہوتی ہے“ ۔ شاید وہ بے طور لوگوں میں آگہی کے عذاب جھیلتے جھیلتے چل ہی بسے۔

ہم سب بہن بھایؑیوں کے بایؑیں بازو کی طرف غیر معمولی رجحانات نے انہیں ہماری دانشوارانہ تربیت پہ مجبورکیا۔ علم کے اس سمندر سے ہم چند قطرے ہی جمع کر پایؑے تھے کہ کچھ ذاتی چپقلش کی بنا پہ وہ اہل خانہ سے دور ہو گیؑے۔ یوں اس واقعے کو برسوں بیت گئے مگر شاید ہی کوئی دن ہو جب ان کا ذکر نہ ہو، کویؑی موقع ہو جب انہیں یاد نہ کیا گیا ہو، اور روابط قائم کرنے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ ایک روحانی باپ اور بہترین دوست کی حیثیت سے جو کچھ انہوں نے ہمیں دیا اس سے آج بھی ان کے اطراف کے بہت سے لوگ محروم ہیں۔

غم یہ نہیں کہ وہ اپنی زندگی میں کس سے کتنا خائف تھے، غم یہ ہے کہ ان کی موت کے بعد ان کے اطراف میں کسی نے ان کی آخری رسومات میں بھی ان کی تڑپتی ہوئی ماں تک کو ان کا چہرہ نہیں دکھایا۔ ان کے اہل خانہ کو اطلاع دینا تک بھی گوارا نہیں کیا۔ نہ جانے اپنے آخری ایام میں وہ کن تکالیف سے گزرے۔ غم یہ نہیں کہ آخری ایام میں ہم ان کے ساتھ نہیں تھے، غم یہ ہے کہ زندگی اور موت کے درمیان میں کون سا ہاتھ کس کا ثابت ہوتا جو انہیں زندگی کی طرف کھینچ سکتا۔ اپنوں سے برسوں سے روٹھا یہ انسان شاید کسی بے حد اپنے کی وجہ زندگی کی طرف لوٹ آتا تو شاید ایک عظیم ذہن، ایک ہیرا، ایک گوہر نایاب اس دنیا سے اس وقت نہ جاتا جب کہ دنیا کو اس کی اشد ضرورت تھی۔

اپنے بھائی کو واپس پانا تو ناممکن ہے مگر اس سے زیادہ افسوسناک یہ ہے کہ وہ میرا تو بھائی تھا مگر انسانوں کا محسن کا تھا۔ اس کی موت کے ساتھ وہ باب بند ہوگیؑے ہیں جن کا کھلا رہنا انسانوں کے لئے بہت ضروری تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).