ریاست کشمیر سے مسئلہ کشمیر تک


تقسیم برصغیر کے وقت برصغیر میں موجود تقریباً 500 سے زائد ریاستوں کو اپنا مستقبل، دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آنے والی ریاست پاکستان یا کہ بھارت جو ایک سیکولر ریاست ہونے کا مدعی تھا، کے ساتھ الحاق کرنے کا حق تفویض کیا گیا۔ اور یہ طے پایا کہ کسی بھی ریاست کی اکثریت اگر مسلم ہے تو وہ ریاست پاکستان کا حصہ بنے گی اور اگر اکثر شہری ہندو دھرم سے ہوئے تو ایسی ریاست کا مستقبل بھارت کے ساتھ ہو گا۔ لیکن پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ ایک مسلم اکثریتی ریاست کشمیر، مسئلہ کشمیر بن گئ؟

یہاں بات آگے بڑھنے سے قبل قاری کے لیے یہ جان لینا اہم ہے کہ اس تحریر کا کشمیر کے موجودہ حالات سے دور کا تعلق ہے۔ ہزاروں قتل، جبر کی لاکھوں داستانیں، آئے روز کرفیو کی صعوبتیں یا دیگر مظالم 1980۔ 90 کے ان سیاسی نظریات کا نتیجہ ہیں جن کی مدد سے کشمیر میں جہاد کے بیانیے کو فروغ دیا گیا اور کشمیر میں، پاکستان سے معاونت پانے والی جہادی تنظیموں نے کشمیری ہندو پنڈتوں کو ریاست سے نکلنے پر مجبور کیا اور پھر کسی کے لگائی جانے والی اس آگ نے کشمیر کے مسلمانوں کو ہی لپیٹ میں لے لیا، جس کا نتیجہ ہم آج کئی طرح کے اعداد و شمار میں دیکھتے ہیں۔ لیکن اس تحریر میں 1947 سے قبل کے سیاسی حالات کی پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کی وجوہات کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

کشمیر ایک مسلم اکثریتی آزاد اور خود مختار ریاست تھی۔ سامراجی دور میں بھی کشمیر کا اپنا آئین رہا اور برطانوی سامراج کا کشمیر کے سیاسی معاملات میں کوئی عمل دخل نا تھا تاہم کچھ صورتوں میں ایسا کشمیر میں سیاسی بدمزگی کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ 20 ویں صدی کے آغاز میں جب آزاد اور خود مختار ہندوستان کے بیانیے نے زور پکڑنا شروع کیا تو یہ سوال بھی ابھر کر سامنے آیا کہ آخر حکومت برطانیہ کے برصغیر سے لوٹ جانے کے بعد یہاں کی ریاستوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا؟

1935 میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت یہ بات واضح کر دی گئی کہ خود مختار ہندوستان کو ریاستوں کے معاملے میں کوئی اختیار نا ہو گا اور تمام ریاستیں اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کریں گی۔ بعد ازاں 12 جون 1946 کو ہندوستان میں برطانوی کیبنٹ مشن اور 1947 میں انڈین انڈیپینڈینس ایکٹ میں بھی اسی بات پر زور دیا گیا کہ ریاستوں کے معاملے میں برطانوی راج کو حاصل بالادستی اور سبقت کسی صورت تقسیم ہندوستان کے نتیجے میں قائم ہونے والے ممالک کے سپرد نہیں کی جائے گی۔ انڈین انڈیپینڈینس ایکٹ میں یہ بات بھی واضح کر دی گئی کہ ریاستوں کے پاس پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کے لیے 15 اگست 1947 تک کا وقت ہے، اگر کوئی ریاست الحاق نہیں کرتی تو وہ خود مختار ہو گی۔

یہاں دوسری طرف کشمیر کے سیاسی معاملات سمجھنا بھی اہم ہیں۔ شیخ فاروق عبداللہ نے 1932 میں کشمیر میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس کا قیام عمل میں لایا۔ شیخ عبداللہ جواہر لعل نہرو کے قریبی دوست تھے، لہذا کچھ ملاقاتوں کے بعد شیخ عبداللہ نے اپنے پارٹی کا نام آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس سے تبدیل کر کے آل جموں اینڈ کشمیر نیشل کانفرنس رکھ دیا۔ ساتھ ہی ساتھ شیخ عبداللہ کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ سے ناخوش بھی تھے اور ریاستوں کے الحاق کے مسئلے میں، کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کے حامی تھے۔

دوسری طرف مغربی کشمیر میں مسلمان، جو کہ زیادہ تعداد میں تھے، وہ ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی تھے اور مہاراجہ ہری سنگھ ریاست کے الحاق کے معاملے میں شدید پریشانی سے دوچار تھے۔ جہاں ایک طرف ایک مسلم شیخ عبداللہ کی سیاسی جماعت بھارت کے ساتھ الحاق کی حامی تھی تو دوسری جانب مسلمان پاکستان کے ساتھ کا کلمہ پڑھتے تھے۔

چنانچہ مہاراجہ نے 12 اگست 1947 کو ایک ٹیلی گرام کے ذریعے پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے یہ واضح کر دیا کہ کشمیر ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہی رہے گا۔ پاکستان نے مہاراجہ کے اس فیصلے کو قبول کیا مگر بھارت نے مذاکرات کی پیشکش کی، جو کہ 15 اگست ہونے کے ساتھ ختم ہو گئی اور انڈین انڈیپینڈینس ایکٹ کے تحت کشمیر ایک آزاد ریاست بن گئی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ کشمیر میں خانہ جنگی بھی بڑھتی گئی۔ شیخ عبداللہ کو تقریباً 1947 کے اوائل میں حکومت مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے قید کر دیا گیا اور دوسری جانب پونچھ اور اس سے ملحقہ علاقوں میں مذہبی بنیادوں پر قتل و غارتگری بھی شروع ہو گئی۔

18 جون 1947 کو جب نہرو شیخ عبداللہ، جو کہ قید تھے، سے ملنے گئے تو انھیں حراست میں لے لیا گیا اور بعد ازاں ماؤنٹ بیٹن کی سفارش پر رہا کیا گیا۔ تب کے کشمیری وزیر اعظم کاک اور ہری سنگھ خودمختار کشمیر کے بڑے حامی تھے۔ بعد ازاں جب گاندھی اگست 1947 کے آغاز میں کشمیر گئے تو وزیراعظم کاک کی برطرفی عمل میں آئی اور جنرل جنک سنگھ نئے وزیراعظم منتخب ہوئے۔

اس دوران بھارت نے ماؤنٹ بیٹن اور دیگر کئی ذرائع سے مہا راجہ ہری سنگھ پر یہ دباؤ ڈالا کہ وہ ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں مگر مہاراجہ خود مختار ریاست کے حامی رہے۔

15 اگست 1947 کو ریڈکلف ایوارڈ کو منظر عام پر لایا گیا، لیکن یہ تین جون 1947 سے ہی طے تھا اور یہی وجہ تھی کہ بھارت کشمیری مہاراجہ کے الحاق کے معاملے میں ’سٹینڈ سٹل‘ کے موقف کو قبول کرنے سے گریزاں تھا۔ اس کمیشن کے مطابق بھارت کی کشمیر تک براہ راست رسائی کو ممکن بنانے کے لیے مسلم اکثریتی علاقے گرداسپور کو بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ اس پر لیاقت علی خان نے لارڈ اسمے کو خط بھی لکھا مگر معاملہ جوں کا توں رہا۔

کشمیر میں ہونے والے خانہ جنگی سے ہزاروں مسلمانوں اور ہندوؤں کا قتل ہوا۔ کشمیری مسلمانوں کو درپیش ان مسائل کا علم جب پاکستان کے صوبہ سرحد کے قبائلی مسلمانوں کو ہوا تو وہ 22 اکتوبر 1947 کو ٹرکوں میں جہاد کے لیے کشمیر آنا شروع ہو گئے۔ متحد انڈیا کے آخری کمانڈر ان چیف فیلڈ مارشل آچنلیک کو جب اس بات کا علم تو خبر بھارت تک بھی پہنچائی گئی۔ اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کی ان قبائلی گروہوں کی حمایت بھی ایک مسئلہ بن کر سامنے آئی۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے 25 اکتوبر 1947 کو کشمیر کے نئے وزیراعظم مہاجن کو بھارت سے ان حالات کو قابو کرنے کے لیے تعاون کی درخواست کرنے بھیجا تو بھارت نے فوری الحاق کا مطالبہ کیا اور پھر 15 اگست سے 26 اکتوبر تک آزاد رہنے والی اس ریاست کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کر دیا گیا۔

27 اکتوبر کو بھارتی افواج کشمیر میں پہنچ گئیں۔ بعد ازاں پاکستان کا قبائلی گروہوں کی حمایت اور تعاون کا عمل، پاکستان کا کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کو تسلیم نا کرنے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ 1947 میں ہی پاکستان اور بھارت کی کشمیر کے معاملے کو لے کر پہلی جنگ ہوئی، اور پھر بھارت ریاست کشمیر کے مسئلہ کشمیر بن جانے والے اس متنازعہ علاقے کا معاملہ اقوام متحدہ میں لے گیا اور تب سے اب تک اس مسئلے کو لے کر ہزاروں قراردادیں پیش کی گئیں، کچھ منظور بھی ہوئیں مگر کشمیر کی جغرافیائی اہمیت، قدرتی وسائل کی فراوانی، سونا اگلتی زمیں، پانی سے مالامال دریاؤں اور دیگر کئی وجوہات نے جانبیں کی آنکھوں میں ہوس کی ایسی دھول جھونکی کہ ہر کوئی اس علاقے کا دعویدار بن گیا اور ریاست کشمیر مسئلہ کشمیر بنی ہی رہ گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).