روداد سفر حجاز



12 ذی الحج کو میرا بھائی شہزاد جو ریاض سے حج کرنے آیا ہوا تھا اور اس کا خیمہ اور مکتب ہمارے خیمے سے کافی دور تھا، وہ آ گیا کہ میں باجی کو ویل چئیر پر رمی کروا دیتا ہوں مگر میں نے محسوس کیا کہ اگر آہستہ آہستہ چلیں تو میں پیدل چل سکتی ہوں۔ ہم چاروں یعنی ہم دونوں بہنیں، ہمارا بھائی اور میرا بیٹا، آہستہ روی سے رمی کرنے گئے، شہزاد ہمیں اوپر والی منزل پر لے گیا۔ ہم با آسانی رمی کر کے واپس آ گئے مگر مسجد خیف میں آج بھی نہ جا سکے۔

لوگوں کی اکثریت 12 ذی الحج کو رمی کر کے منٰی سے مکہ روانہ ہو گئی، سڑکوں پر بہت رش اور ٹریفک کے بہت مسائل تھے۔ ہم نے منٰی میں ایک دن مزید رکنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سنت نبویﷺ بھی ہے۔ جب آپ ﷺ نے حج کیا تھا تو 12 ذی الحج کو آپ ﷺ نے اعلان کیا تھا کہ جو مکہ واپس جانا چاہتا ہے وہ چلا جائے اور جو میرے ساتھ رکنا چاہتا ہے وہ رک جائے۔ زیادہ لوگ تو چلے گئے مگر کچھ صحابہ کرام ؓ آ پ ﷺ کے ہمراہ رک گئے۔ ہم نے بھی سنت نبوی ﷺ کو زندہ کیا۔

ہمارے علاوہ بھی بہت سے لوگ رکے ہوئے تھے۔ ہمارے خیمے میں 12 خواتین اور 25 مرد حضرات تھے اور دوسرے خیموں میں بھی کافی لوگ تھے۔ منٰی میں ہماری یہ آخری رات تھی۔ جی بھر کے دعائیں مانگیں، نوافل ادا کیے ، صلوٰۃ التسبیح ادا کی۔ اشراق کی نماز کے بعد اللہ تعالٰی سے رو رو کر دعائیں مانگیں۔ اے باری تعالٰی ہمارا حج قبول فرما لے، جو غلطیاں کوتاہیاں اس دوران ہم سے ہوئی ہوں وہ معاف فرما دے۔ اے عرفات اور منٰی کی مٹی!

گواہ رہنا، اللہ کی یاد میں اور اس کے ڈر سے جو آنسو ہماری آنکھوں سے ٹپکے اور تجھ پر گرے ہیں تو قیامت کے دن ان کی گواہی دینا اور حشر کے دن جب ہمیں دوبارہ اٹھایا جائے گا، ہماری بخشش کا سامان بن جانا۔ اے مزدلفہ کی کنکریو! تم بھی گواہ رہنا کہ ہم نے جو رات جاگ کر اس سر زمین پر گزاری اور اپنے پروردگار کی یاد میں آنسو بہائے، ان کی گواہی قیامت کے دن دے دینا، ہماری شفاعت نبی ﷺ سے کروا دینا۔ اے منٰی کے پہاڑو!

تم بھی قیامت کے دن ہمارے گواہ بن جانا، خدا کے سامنے اس بات کی شہادت دیدینا کہ ہم جتنی راتیں یہاں قیام پذیر رہے، خدا کی یاد میں روتے اور اس کو پکارتے رہے۔ اے ہمارے معبود! ہم تجھ سے راضی ہیں، تو بھی ہم سے راضی ہو جا، ہمارا حج قبول فرما لے، ہمارے تمام گناہوں کو بخش دے۔ میرے اللہ تیرا وعدہ ہے کہ حاجی نو مولود بچے کی طرح گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ اے ہمارے مولا! ہمارے حج کو حج مبرور بنا دے، آمین۔

زوال کا وقت نہیں ہوا تھا یعنی ظہر کے بعد ہم رمی کر سکتے تھے۔ ہم مسجد خیف پہنچے، مسجد اندر سے بھر چکی تھی اور سڑک پر بھی صفیں بن چکی تھیں، ہم بھی ان صفوں میں شامل ہو گئے۔ نماز کے بعد ہم مسجد کے اندر داخل ہوئے، تحیۃ المسجد کے نفل پڑھے، اور دعائیں مانگیں۔ تمام انبیا اکرام ؑ کا خیال بھی ذہن میں آیا اور ایک رعب دل پر چھا گیا، ان کے لئے بھی دعائیں مانگیں۔ اس کے بعد ہم جمرات کی طرف چل پڑے اور ٹاپ فلور پر جا کر رمی ادا کی۔

منٰی کی حدود سے باہر نکل کر ہم نے ایک ویگن لی، لیکن ڈرائیور نے ہمیں ایک کلو میٹر پیچھے ہی اتار دیا کیونکہ آگے پھر وہی ٹریفک کے مسائل تھے۔ ہم پیدل چل کر ہوٹل کے کمرے تک آئے۔ میرا بھائی ہم سے رخصت ہو گیا کیونکہ اس نے آج ہی طواف وداع ادا کر کے اپنے گروپ کے ہمراہ واپس ریاض روانہ ہونا تھا۔ کمرے میں آ کر ہم نے کھانا کھایا اور نماز پڑھ کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے حج کا فریضہ مکمل کرا دیا۔ نہا کر کپڑے تبدیل کیے اور سو کر تھکاوٹ دور کی۔ الحمد ا للہ۔

ذی ا لحج (3 دسمبر ) بروز جمعرات ہم نے نفلی عمرہ ادا کرنے کا ارادہ کیا۔ نماز فجر کے بعد ہم مسجد عائشہ جانے کے لئے بسوں کے اڈے پر پہنچے، منصور نے ٹکٹ بھی خرید لئے جو کہ فی کس 2 ریال تھے۔ رش اس قدر زیادہ تھا کہ خدا کی پناہ، لوگ بہت دھکم پیل کر رہے تھے اور بسوں کے دروازوں کے باہر تک لٹکے ہوئے تھے۔ ہم نے سوچا کہ نماز عشا کے بعد کوشش کی جائے۔ واقعی نماز عشا کے بعد ہمیں کامیابی ہوئی، حاجت کے نفل پڑھ کر اللہ سے آسانی کی دعا مانگی۔

مسجد عائشہ جاتے اور آتے ہوئے بس آرام سے مل گئی۔ وہاں سے عمرے کی نیت کر کے تلبیہ پڑھتے ہوئے ہم واپس حرم پہنچے اور عمرہ ادا کیا۔ آج ہم تینوں نے سارے مناسک اکٹھے ادا کیے ۔ مجھے تھکاوٹ ہونے محسوس ہونے لگی۔ میری بہن کا ارادہ حرم میں شب بیداری کا تھا، وہ اگلے دن جمعے کی نماز تک ٹھہرنا چاہتی تھی۔ رات کے تقریباً 2 بج چکے تھے۔ میں اور منصور کمرے میں واپس آ گئے۔ اگلے دن جب جمعے کی نماز کے لئے حرم پہنچے تو بے حد رش تھا۔

بہن کو فون کیا تو اس نے کہا کہ مجھے ڈھونڈنے میں اپنا وقت ضائع مت کریں بلکہ اپنے لئے جگہ تلاش کریں۔ ہم نے پہلے طواف کیا، اس کے بعد منصور تو مطاف میں ہی بیٹھ گیا مگر مجھے عورتوں کی صفوں میں جانا تھا۔ خاص ا لنسا برآمدے تو سب بھر چکے تھے، باہر والے صحن میں بڑی مشکل سے جگہ ملی، میں نے غنیمت جانا، دھوپ بہت تیز تھی مگر میں نے صلوٰۃ التسبیح اور نوافل پڑھ لئے۔ اتنے میں جمعہ کی اذان ہو گئی۔ نماز سے فارغ ہو کر میں نے بہن اور بیٹے کو فون کیا، طے یہ پایا کہ ہم ایک دوسرے کا انتظار نہ کریں بلکہ اپنے طور پر رستہ بناتے ہوئے کمرے میں پہنچ جائیں۔ کمرے میں پہنچ کر فرج میں رکھا ہوا کھانا گرم کر کے کھایا اور آرام کیا۔ مزید دو دن اسی روٹین کے مطابق گزرے۔ ہم حرم میں جا کر زیادہ سے زیادہ طواف کرتے۔ لوگ طواف وداع بھی کر رہے ہوتے تھے کیونکہ واپسی کی پروازیں بھی شروع ہو چکی تھیں۔

زیارت کے لئے روانہ ہوئے۔ مگر ہمیں مایوسی ہوئی کہ تمام مقامات کی زیارت بسوں میں بیٹھے بیٹھے دور سے ہی کرا دی گئی۔ مکہ کی مشہور مساجد، منٰی، عرفات اور مزدلفہ کے میدان قریب سے گزرتے ہوئے دکھائے گئے۔ جبل نور اور جبل ثور پر 5 بھی، 5 منٹ رک کر نیچے سے ہی نظر ڈالنے کا موقع ملا۔ مجھے تو غار حرا اور غار ثور کے اندر جا کر دیکھنے کا بہت شوق تھا، مگر اتنے کم وقت میں یہ ممکن نہ تھا۔ البتہ میدان عرفات میں جبل رحمت پر تقریباً آدھا گھنٹہ دیا گیا۔

ہم ہمت کر کے اوپر چڑھ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت آدمؑ اور اماں حوا کی جنت میں کی گئی غلطی کی پاداش میں جب انہیں جنت سے نکال کر دنیا میں بھیج دیا گیا تھا تو وہ ایک دوسرے سے جدا بھی ہو گئے تھے۔ پھر انہیں اللہ کے حکم سے توبہ کے کلمات گئے، ربنا ظلمنا انفسنا۔ جب ان کی توبہ قبول ہو گئی تو ان کو دنیا میں جبل رحمت پر دوبارہ ملا دیا گیا۔ اور یوں نسل انسانی کا سلسلہ دنیا میں شروع ہوا۔ جبل رحمت پر اس مقام کی نشاندہی کے طور پر ایک ستون بنا دیا گیا ہے۔

لوگ پاگلوں کی طرح اس ستون کے ساتھ لپٹنا اور اسے چومنا شروع کر دیتے ہیں، حالانکہ اس سے منع کیا جاتا ہے۔ آخر میں ہمیں حدود حرم سے باہر جعرانہ کے مقام پر مسجد جعرانہ لے جایا گیا جو میقات ہے۔ وہاں سے عمرے کی نیت کی گئی، احرام پہنے گئے اور بسوں میں بیٹھ کر سیدھے حرم پہنچے تو ظہر کی اذان شروع ہو گئی۔ ظہر کی نماز با جماعت پڑھنے کے بعد سب نے اپنے اپنے طور پر عمرہ ادا کیا۔ عمرہ مکمل ہونے پر مروہ پہاڑی پر نفل ادا کیے اورعصر کی نماز بھی ادا کی۔

غار حرا اور غار ثور کو اندر سے جا کر دیکھنے کی تشنگی ابھی باقی تھی، ہم نے سوچا کہ یہ کام انفرادی طور پر کرنا چاہیے۔ ہم نے ایک مقامی لڑکے طارق سے مدد طلب کی۔ طارق بنیادی طور پر ایک پاکستانی لڑکا تھا اور دمام میں کسی پرائیویٹ کمپنی میں مکینک کے طور پر ملازم تھا۔ اس نے اپنے والدین کو حج کے لئے بلایا اور ان کی مدد کے لئے خود بھی ساتھ حج اداکیا۔ وہ راستوں سے بھی واقف تھا اور یہ کہ ٹیکسی کہاں سے، کتنے میں لینی ہے، وہ ہمارے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہو گیا۔

ہم 9 دسمبر بروز بدھ صبح تقریباً ساڑھے سات بجے اپنی رہائش گاہ سے نکلے، کچھ دور پیدل چلنے کے بعد طارق نے ایک ٹیکسی 15 ریال میں لی۔ ہم نے پہلے جبل نور جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ غار حرا کی چڑھائی زیادہ مشکل ہے۔ تقریباً 20 منٹ میں ہم جبل نور پہنچ گئے۔ رش کافی زیادہ تھا اس لئے ٹیکسی ڈرائیور نے تھوڑا سا پیچھے ہی اتار دیا۔ ہم پیدل چل پڑے اور اپنے اپنے بیگ میں کچھ زاد راہ، خاص طور پر پانی کی بوتلیں رکھ لیں۔

ٹیکسی ڈرائیور جو کہ بنگالی تھا اس نے بھی پانی ساتھ لے جانے کی خاص تاکید کی۔ شروع کی چڑھائی میں بہت زیادہ ڈھلوان تھی، وہاں چڑھتے ہوئے زیادہ دقت پیش آئی، اس کے بعد سیڑھیاں شروع ہو گئیں۔ جو لوگ واپس جا رہے تھے وہ ہمارا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ ہم لوگ مستقل مزاجی سے، اللہ اکبر پڑھتے، کبھی رکتے اور کبھی چلتے ہوئے، کبھی پانی کے گھونٹ بھرتے ہوئے پہاڑ پر چڑھتے رہے۔ جب ہماری سانس پھولنے لگتی تو کچھ دیر کے لئے بیٹھ جاتے۔

با ر بار سر اٹھا کر اوپر دیکھتے کہ ابھی کتنا سفر باقی ہے۔ جبل نور کی بلندی 2000 فٹ ہے۔ جب ہم پہاڑی کے سب سے اونچے مقام پر پہنچے تو معلوم ہؤ ا کہ غار حرا کے لئے ابھی اور سفر کرنا پڑے گا۔ یعنی دوسری جانب اترائی میں جا کر کچھ دور نیچے غار حرا واقع ہے۔ اگلا راستے زیادہ تنگ اور دشوار تھا۔ رش بھی بہت تھا۔ پہلے تو دل گھبرایا، پھر اللہ سے مدد طلب کی۔ وہاں ایک فوٹو گرافر تھا، اس نے مشورہ دیا کہ آپ لوگ کچھ دیر انتظار کر لیں۔

ظہر کے وقت رش ختم ہو جائے گا۔ ہم نے دیکھا کہ اوپر تو ایک میلے کا سماں تھا۔ کھانے پینے کی مختلف چیزوں کے سٹال لگے تھے۔ لوگ فوٹو گرافر سے مختلف پوز بنا کر تصویریں کھینچوارہے تھے۔ ایک اونٹ بھی وہاں بیٹھا تھا ( معلوم نہیں اس کو وہاں کیسے پہنچایا گیا تھا، مجھے شک پڑا کہ ضرور کوئی دوسرا راستہ ہو گا) لوگ اونٹ پر بیٹھ کر بھی تصویریں کھینچوا رہے تھے۔ بہت حیرت ہوئی کہ لوگ یہ سب کچھ کرنے کے لئے اتنی مشکل چڑھائی چڑھ کر اس بلندی پرآئے ہیں۔

کافی انتظار کے بعد رش کم ہونے لگا، اس دوران ہم نے کچھ نفل پڑھ لئے اور ظہر کی نماز بھی ادا کر لی۔ پھر ہم لائن میں لگ گئے۔ غار حرا کی طرف جانے والا راستہ بہت تنگ تھا، بمشکل ایک انسان ہی ایک وقت میں گزر سکتا تھا۔ لوگ دھکم پیل اور شور کر رہے تھے۔ اس موقع پر عقیدت اور احترام کے جو جذبات ہونے چاہیے تھے وہ کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ ہر کوئی اس کوشش میں تھا کہ میں پہلے اندر پہنچ جاؤں۔ میرا دل تیز دھڑک رہا تھا کہ میں تھوڑی ہی دیر میں اس غار کے اندر داخل ہونے والی ہوں جس میں اللہ کے نبی ﷺ بیٹھا کرتے تھے اور حضرت جبرائل ؑ ان کے پاس وہاں آیا کرتے تھے۔

میں چشم تصور سے ماضی میں جھانکنا چاہتی تھی اور ان محسوسات کو اپنے اوپر طاری کرنا چاہتی تھی مگر لوگوں کا طوفان بد تمیزی سب کچھ گڈ مڈ کر رہا تھا۔ حکومت سعودیہ کی جانب سے وہاں یہ لکھ کر لگایا گیا تھا کہ رسول اللہﷺ وہاں پر نفل نہیں پڑھتے تھے بلکہ صرف بیٹھ کر غور و فکر کرتے تھے، اس لئے تمام مسلمان بھائی اندر جا کر نفل پڑھنا نہ شروع کر دیں بلکہ زیارت کر کے باہر آ جائیں اور دوسروں کو بھی موقع دیں۔ مگر لوگ اس ہدایت پر بالکل عمل نہیں کر رہے تھے۔

وہ اندر جا کر نفل بھی پڑھ رہے تھے اور دیواروں سے لپٹ جاتے تو ہٹنے کا نام ہی نہ لیتے، باہر والے شور کرتے کہ جلدی نکلو مگر وہ نہ سنتے۔ میری زبان پر درود شریف تھا، میری بہن میرے پیچھے تھی اور بیٹا کہیں زیادہ پیچھے رہ گیا تھا۔ میری باری آئی تو درود پاک پڑھتے ہوئے میں نے غار حرا کی زیارت کی۔ بہت تنگ سا غار ہے جس میں کھڑے ہونا ممکن ہی نہیں۔ بمشکل دو افرادکے بیٹھنے کی جگہ ہو گی اور اگر کھڑے ہونا چاہیں تو جھک کر کھڑے ہو سکیں گے۔

میں جھک کر اندر داخل ہوئی اور دیوار کے ساتھ پڑے پتھر پر بیٹھ گئی اور تصور کیا کہ شاید یہی وہ پتھر ہے جس پر اللہ کے محبوب ﷺ آ کر بیٹھا کرتے تھے۔ اور حضرت خدیجہؓ بھی کبھی کبھی آپ ﷺ کو کھانے پینے کا سامان پہنچانے آ جایا کرتی تھیں، شاید وہ بھی آپ ﷺ کے پاس اس پتھر پر بیٹھتی تھیں۔ میری آنکھیں نم ہو گئیں، چند سیکنڈ یہ تصورات ذہن میں لئے درود و سلام ان پر بھیجتی رہی، جو دعائیں یاد آئیں، مانگ لیں اور یہ سوچ کر باہر نکل آئی کہ اور لوگوں کو بھی موقع دیا جائے۔

جب ہم سب فارغ ہو گئے تو اس کے بعد واپسی کا مرحلہ اور بھی زیادہ مشکل تھا۔ کیونکہ اصل راستہ تو آنے والوں نے بند کر رکھا تھا، اس لئے ہمیں پتھروں کے اوپر سے پھلانگ کر پچھلی جانب سے اترنا پڑا، اس میں کچھ لوگوں نے ہماری مدد کی۔ ہم پہلے چڑھائی پر گئے اور وہاں سے دوبارہ اترائی شروع ہو گئی۔ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہ اس نے ہمیں بخیر و عافیت اس مقام پر پہنچایا اور زیارت کرائی، ہم آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگے۔ جب ہم جبل نور سے نیچے اترے تو ظہر کی اذان ہو رہی تھی، ایک قریبی مسجد میں نماز ادا کی، باہر سڑک پر آئے اور ایک پاکستانی ہوٹل سے کھانا کھایا۔ اور پھر جبل ثور کی جانب سفر کا ارادہ کیا۔

کہ اس پہاڑ پر چڑھنے کا سفر تقریباً 3 میل ہے۔ ہم نے اللہ کا نام لے کر چڑھنا شروع کر دیا۔ یہاں رش نہیں تھا مگر اب دھوپ تیز ہو چکی تھی اور ہوا بھی نہیں چل رہی تھی اس لئے چڑھنے میں دقت ہو رہی تھی۔ جبل نور کی چڑھائی کے دوران ہوا بھی چل رہی تھی اور سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے پتھر سہارا لینے کے لئے بھی تھے۔ جب ہم نے تقریباً آدھا سفر طے کر لیا تو میری کمر کی ہڈی اور کولہے کے جوڑوں میں درد ہونے لگا۔ یہ تکلیف تو پرانی تھی مگر میں نے جوش جذبات میں اس کی پرواہ نہ کی۔

میری تکلیف کو دیکھتے ہوئے منصور کہنے لگا کہ واپس چلے جاتے ہیں مگر میں نہ مانی اور کہا کہ اپنی رفتار کم کر دو۔ میرے ساتھ آہستہ آہستہ چلتے رہو۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، مجھے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد بٹھا دیتا، اس دوران میری بہن اور طارق کافی آگے جا چکے تھے، کبھی کبھی وہ رک کر ہمارا انتظار کر لیتے۔ اس دوران اوپر سے نیچے آنے والا ایک مردانہ گروپ ہمارے قریب سے گزرا۔ ایک آدمی کے ہاتھ میں چھڑی تھی، پہاڑ کے دامن میں یہ چھڑیاں 5، 5 ریال کی بک رہی تھیں۔

ہم نے اس سے وہ چھڑی خرید لی اور اس نے پوری قیمت وصول کر لی۔ اس چھڑی کی مدد سے چڑھنے کے باوجود مجھے دقت ہو رہی تھی مگر میں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ بالآخر جب ہم جبل ثور کی آخری بلندی پر پہنچے تو عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا۔ ایک گروپ جو پہلے سے وہاں پہنچا ہوا تھا انہوں نے جماعت کروائی۔ نماز اور شکرانے کے نفل ادا کرنے کے بعد ہم گھوم کے غار کے اندر جانے کا راستہ معلوم کیا۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ایک بڑے پتھر کو کاٹ کر دوسری جانب غار سے باہر نکلنے کا راستہ بنا دیا گیا ہے۔

اور اس پر دو تین سیڑھیاں بھی بنی ہوئی تھیں۔ غار کے اندر جانے کا راستہ چھوٹا سا ہے جھک کر اندر جانا پڑتا ہے جب اللہ کے نب ﷺ ی اور حضرت ابو بکؓر یہاں پناہ لینے آئے تھے تو اس غار کے باہر ایک خود رو جھاڑی تھی جس پر ایک فاختہ نے اللہ کے حکم سے گھونسلہ بنا دیا تھا اور اس میں انڈے بھی دے دیے تھے، اس کے علاوہ مکڑی نے غار کے دھانے پر جالا بھی بن دیا تھا۔ مگر اب یہ سب نہیں تھا۔ راستہ تنگ ہونے کی وجہ سے لوگ لائن بنا کر کھڑے تھے مگر اندر کچھ پاکستانی بھائی لیٹ کر آرام فرما رہے تھے، بڑی حیرت ہوئی کہ یہ مقام ان کے آرام فرمانے کا ہے؟ لوگوں کے شور مچانے پر وہ لوگ ہٹے تو ہمیں اندر جانے کا موقع ملا۔ ( جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).