سینیٹ انتخابات، سو سنار کی ایک لوہار کی


وزیراعظم عمران خان نے حزب اختلاف کو مشروط استعفے کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ لوٹی ہوئی دولت واپس کردیں، تو وہ کل ہی مستعفی ہو جاؤں گا، گو ابھی تک حزب اختلاف پر کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا اور مقدمات زیر التوا ہیں۔ اس کے باوجود اب نوبت اس حال پر آ چکی ہے کہ سیاسی مخالفین کے املاک چن چن کر گرائے جا رہے ہیں، اس امر میں قطعاً اختلاف نہیں کہ قبضہ مافیا کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے ایسا بہت کم نظر آتا ہے کہ میرٹ پر قانونی کارروائیاں ہوں، اس کی سب سے بدترین مثال کراچی جیسے بین الاقوامی شہر میں بدنام زمانہ چائنا و رشین کٹنگ ہے، جو اب بھی قانون کی رٹ کو چیلنج کر رہی ہے، دوم: حکومت نے جتنی بھی املاک گرائیں، یہ بھی تو کسی سرکاری حکام کی موجودگی میں بنی، لیکن ان کے خلاف کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی سامنے نہیں آئی کہ گر یہ غیر قانونی املاک و قبضہ تھا، تو انہیں بنانے والوں میں سرکاری اہلکار و بیورو کریٹ کس طرح فرشتہ ثابت ہوئے۔

سینیٹ کے الیکشن کی منڈی لگنے کے بعد بولیاں طے کی جا رہی ہیں، وزیراعظم نے اپنے اراکین کو پچاس کروڑ روپے کے ترقیاتی کام کروانے کی یقین دہانی دے کر حزب اختلاف کو کہنے کا موقع فراہم کر دیا کہ سینیٹ انتخابات سے اراکین کی بولیاں لگانے کا آغاز خود حکومت نے کیا۔ اعلیٰ عدلیہ بھی نوٹس لے چکی۔ یہ بھی سیاسی اعلان ہی ہو سکتا ہے، کیونکہ ہر خاص و عام آگاہ ہے کہ حکومت کے پاس اتنا فنڈ نہیں کہ وہ کھربوں روپے اپنے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی کاموں کے لئے دیں، اسی طرح اتحادی جماعتوں کو نظر انداز اور حزب اختلاف کو سائیڈ میں کر دینا، ایک نئے پنڈورا بکس کو کھول سکتا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ میں صدارتی ریفرنس دائر اور حکومت پارلیمان میں سینیٹ انتخابات پر آئینی ترمیم عجلت میں لا رہی ہے، سیاسی پنڈتوں کے مطابق یہ بھی حکومت کی ایک چال ہے، (کیونکہ ان کے پاس ترمیم کے لئے عددی اکثریت ہی نہیں) تاہم تحریک انصاف کو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں زیادہ نشستیں ملی ہیں، جس کے تناظر میں سینیٹ میں واضح اکثریت کے امکانات موجود ہیں، تاہم سینیٹ تو ہے ہی ایک ایسی مارکیٹ، جہاں گھوڑوں کا کاروبار کھلے عام ہوتا ہے، ان حالات میں پی ٹی آئی کو جن تفکرات کا سامنا ہے، وہ بے جا نہی کیونکہ گزشتہ سینیٹ الیکشن میں اپنے 20 اراکین کے خلاف پارٹی سے غداری و کرپشن پر بڑا ”مثبت“ قدم اٹھایا تھا۔

لیکن کیا اب تحریک انصاف، وذرات اعظمیٰ میں ہونے کے بعد دوبارہ ایسا کرنے کا سوچے گی تو ذاتی رائے میں ایسا ہونا ناممکن سا نظر آتا ہے، کیونکہ وزیراعظم نے کسی ہارس ٹریڈنگ پر ایسی کوئی کارروائی کرنے کی کوشش بھی کی، تو خدشات ہیں کہ انہیں اپنی وزرات عظمیٰ و حکومت سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں، سیاسی پنڈتوں کی بھی یہی رائے ہے کہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف محض چند نشستوں پر ٹکی ہوئی ہے، فاروڈ بلاک کا بن جانا (پنجاب و خیبر پختونخوا میں ہم خیال گروپ)، اس قسم کا ایڈونچر خود تحریک انصاف کے لئے نقصان کا باعث بن سکتا ہے، شاید یہی پی ڈی ایم یہی حکمت عملی ہو کہ سو سنار، ایک لوہار کی۔ بصورت دیگر حزب اختلاف کو سینیٹ اکثریت میں ماضی کے تجربات سے بڑا نقصان پہنچا، پی پی پی اور نون لیگ کے درمیان اختلافات نے تیسری قوت کو موقع فراہم کیا اور سینیٹ میں واضح اکثریت کے باوجود نون لیگ کو شکست ہوئی، ورنہ اس وقت رضا ربانی سینیٹ کے چیئرمین ہوتے اور تحریک عدم اعتماد بھی کامیاب ہوجاتی۔

اسے سیاسی پنڈتوں کی قیاس آرائیاں سمجھ لیں کہ ایسا ہو جائے گا، ویسا ہو جائے گا، لیکن سیاست میں حرف آخر کچھ نہیں ہوتا، یہاں کسی بھی وقت، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ حکومت کی جانب سے حزب اختلاف کو اپنے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آ رہی، ہماری مملکت کو خارجہ و داخلی مسائل کا سامنا ہے، تقاضا تو یہی تھا کہ ایسی ہم آہنگی پیدا کی جائے تاکہ ان مسائل سے نمٹنے کی راہ نکالی جا سکے اور ملک حقیقی معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ اگر ان مسائل سے نمٹنے کے لئے حزب اختلاف و حکومت نے کندھے سے کندھا نہیں ملایا تو آنے والے وقت میں ان کی شدت میں اضافہ ہوگا اور پھر ان کے حل کرنے کی تمام کوششیں بے سود ہوتی چلی جائیں گی۔

کسی بھی ملک میں حکومت اور اپوزیشن جمہوری سیٹ اپ کا اہم ترین حصہ ہوتی ہے۔ حکومت ملک و قوم کے لئے منصوبہ بندی کرتی ہے اور حزب اختلاف اس امر کو یقینی بناتی ہے کی کوئی پالیسی یا منصوبہ ملکی اور قومی مفادات کے خلاف نہ بنے، وہ ایسی پایسیوں کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے، لیکن یہ امر طے ہے کہ کوئی حکومت سبھی پالیساں تن تنہا مرتب نہیں کرسکتی، اس لئے حزب اختلاف کو روکنے سے حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کوئی حکومت بظاہر خراب پالیسی بنانے کی کوشش نہیں کرتی، لیکن تجربے کے کمی اور کچھ عناصر کے فروعی مفادات منصوبہ بندیوں کو ناکام بنا دیتی ہیں۔ بدقسمتی سے حزب اختلاف، اپنی ترجیحات میں حکومت کو بناکام ثابت کرنے کے لئے تنقید برائے اصلاح نہیں بلکہ تنقید برائے تنقید پر زیادہ یقین رکھتی ہے۔ اصل میں ہونا تو یہی چاہیے کہ ان پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے جو ان کے خیال میں ملک و قوم کے مفاد میں نہ ہوں، او ر اس کے لئے بہترین پلیٹ فارم پارلیمان ہے، وزیراعظم، نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہفتے میں ایک دن اراکین اسمبلی کے سوالوں کے جواب خود دیا کریں گے، (ٹی وی پر بیٹھ کر عوام کا وقت ضائع کیا۔ پارلیمان کی وقعت کو کم کرنے میں دونوں فریقین کا کردار افسوس ناک ہے، بالخصوص حکمراں جماعت ابھی تک اپوزیشن بیک وقت کردار بھی ادا کرنے پر مصر ہے۔ قومی اسمبلی کے مظاہر نے قوم کو شرمندہ کیا۔

وزیراعظم عوام کے بجائے قوم کے نمائندوں سے تحمل و برداشت کے ساتھ پارلیمان کا پلیٹ فارم استعمال کریں، تو یقینی طور پر اس کے مثبت اثرات نمودار ہوسکتے ہیں، اگر سینیٹ انتخابات کے معاملے پر حکومت دیر سے سہی، لیکن حزب اختلاف کے ساتھ بات چیت پر رضامند ہو جائے تو کیا ہی اچھا ہو، کہ جہاں انتخابات کے حوالے سے بات ہو وہاں دیگر اختلافات طے کرنے پر بھی بات چیت کھلنے کا دروازہ کھل سکتا ہے، انتخابات میں شکست کو تسلیم کرنا اور فتح حاصل کرنے والی جماعتوں کے درمیان اختلافات پیدا ہونا ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کا مستقل حل تلاش کرے کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے، کیونکہ یہی ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).