عقیدوں کا تنوع اور الباکستانی روشن خیال


اس تحریر کو رضا اصلان کی GOD; A Human History of Religion کی تلخیص کہہ لیں، ، تعارف یا محض بعد از پڑھت تاثرات مگر اس کتاب میں سوچنے، سمجھنے اور ادراکی سمت کو تبدیل کرنے کے لئے بہت کچھ ہے۔

مجھے خدا کی موجودگی یا عدم موجودگی ثابت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں کہ دونوں صورتوں کو شواہد کی مدد سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ عقیدہ، ایک خاص فلسفہ زندگی کو اپنانا ہے، جو بھی اس کے برعکس کہے، چوکنے رہیے کہ وہ جلد یا بدیر آپ کو تبدیلی مذہب کی تبلیغ کرنے کو ہے۔ آپ منتخب کرتے ہیں کہ اس مادی قلم رو (Physical Realm) کے پار کچھ تو ہے۔ کچھ حقیقی سا، کچھ ایسا کہ جسے جانا جائے یا جاننے کی کوشش کی جائے۔ آپ کی پسند اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے۔

اگر میری طرح آپ بھی اول الذکر آپشن کو چنتے ہیں تو کچھ مزید سوالات کو اپنا منتظر پاتے ہیں۔ کیا آپ اس ماورائی احساس کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو پھر آپ کو ایسی زبان کی ضرورت پیش آتی ہے جو بنیادی طور پر ناقابل اظہار تجربے کو بیان کرنے سمجھنے اور ابلاغ میں مددگار ہو۔

یہی وہ مقام ہے جہاں مذہب ہماری مدد کو آتا ہے۔ ابتداء تاریخ سے صدیوں پھیلی ہوئی مذہبی تاریخ میں وہ عظیم برتر استعارہ جس کے باطن سے تمام تر مذہبی علامات اور تشبیہات پھوٹتی ہیں اور پھر وہی ان تمام رسومات و علامات کا محور ٹھہرتا ہے، وہ استعارہ جو اپنے جوہر میں خدا کا عکس، وہ انسان ہی ہے جی ہم انسان!

یہ تصور جسے میں انسان زدہ خدا (Humanised GOD) پکارتا ہوں، اسی اولین لمحے ہمارے شعور کا حصہ بنا جس لمحے ہمیں خدا کا خیال پہلی بار وارد ہوا۔ اسی نے ہمارے غایت کائنات اور مقصد حیات کے نظریات کی تشکیل کی۔

دیومالائی داستانوں اور رسومات، مندروں اور گرجا گھروں، محکمات اور منکرات کے اس پار، صدیوں سے انسانوں کی تقسیم کرتا آیا یہ مذہب زبان سے بڑھ کر ہے جو علامتوں اور استعاروں کا ایسا مجموعہ ہے جو اپنے ماننے والوں کو اپنے آپ سے اور اپنے ایسے اوروں سے بظاہر ناقابل وضاحت تجربہ سے باندھتا ہے جسے دوسروں لفظوں عقیدہ کہا جاتا ہے۔

اب اگر الہامی و غیر الہامی مذہبی روایات کو محض دیومالائی داستانیں قرار دے دیا جائے تو کائنات کی تخلیق کی عقلی دلیل نظر نہیں آتی۔ کائنات کی یہ بے معنویت ہماری زندگیوں کو کس قدر ہے مقصد اور لغو بنا دیتی ہے۔ اب پھر علم (سائنس فلسفہ) کی بجائے ہمیں مجبوراً مذہب کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے کہ ہماری زندگیوں کو وہ مقصد عطا کرے اور ہم زندگی کے ان سطحی معاملات کی کوئی ارفع توجیح پیدا کر لیں۔

جیسا کہ اب ہم جان چکے ہیں کہ کائنات کے نظام میں موجود توانائی فانی ہے۔ اس توانائی کو روح کہیں، یونانی اصطلاح سائیکی، عبرانیوں کی مانند نفش، اہل چین کی زبان میں چیئی، اہل ہند کی طرح براہما، فطرت بدھایا پرسوا، ذہن سے جڑی ایک کیفیت یا تمام کائنات کا جوہری وجود۔ تخیل میں اس روح کو بعد از موت خدا کے ساتھ ملائیں یا ایک بدن سے دوسرے بند میں حلول کرتی شے۔ اپنی ہستی کا حقیقی جزو قرار دیں یا کائناتی مادہ جس سے کل خلق کا خمیر اٹھا۔

جیسے بھی بیان کیجیے جسم کے ساتھ روح کی موجودگی کا تصور عالمگیر ہے۔ یہ ہمارا عقیدہ اول ہے، عقیدہ خدا سے بھی مقدم۔ درحقیقت اسی عقیدہ سے خدا پر اعتقاد نے جنم پایا۔ بچوں کے ادراک پر کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ ان میں جبلی طور پر دوہرے وجود کا علم دماغ کے کسی نہاں خانے میں موجود ہوتا ہے کہ جسم اور روح ایک اکائی میں یکجا ہیں۔ ہم اپنے طبعی وجود سے بڑھ کر کچھ ہیں۔ سو اس طریق ہم سب پیدائشی اہل یقین ہیں۔

ہم اہل یقین، اہل عقیدہ ہی رہیں، یہ پھر ہمارا ذاتی انتخاب ہے کہ کوئی روح کی موجودگی کے اس آفاقی انسانی عقیدہ کو نفسیاتی کمزوری یا غیر متوازن، غیر منطقی استدلال کی پیداوار قرار دے یا پھر ذہن انسانی کا جزوی خلل یا ارتقاء کی ضرورت۔ درحقیقت کوئی بھی یہ ماننے میں آزاد ہے کہ بگ بینک، تقسیم زمان و مکان، مادے اور توانائی کا یہ نازک توازن اور دیگر ایسے لاتعداد مظاہر، عناصر کے اتفاقیہ تصادم کا نتیجہ ہیں؟

بنا کسی اہمیت، مقصد یا غایت تخلیق کی ابتداء خالصتاً انہی طبعی عوامل کی مرہون منت ہو سکتی ہے جو مادے اور توانائی کے تعاملات سے پیدا ہوئے۔ یہ کائنات کی تخلیق کی معتبر وضاحت ہو سکتی ہے۔ بہر کیف یہ اتنی ہی قابل اعتبار ہے، جتنا اس کو ثابت کرنا دشوار ہے۔ ابھی تک تو ناممکن ہے، دوسری طرف کسی ابدی زندہ جاوید ہستی، جس سے میری، آپ کی، اس کرہ ارض اور کائنات کی زندگی جڑی ہوئی، اس کو بھی شواہد سے ثابت کرنا ناممکن ہے۔

خدا کو مانیں یا نہ مانیں، خدا کو جیسا چاہیں تصور کر لیں، یقین کر لیں۔ دونوں صورتوں اپنے جد امجد آدم اور حوا سے ایک سبق حاصل کریں۔ شجر ممنوعہ کا ذائقہ چکھیں، خدا کو محض خوف مت بنائیں۔

You are GOD کے لفظی ترجمہ کی بجائے انگریزی میں اس کا ترجمہ ”آپ خود اپنے خدا ہیں“ زیادہ موزوں ہے۔
GOD: A Human History of Religion

لو صاحبو! اب سوچیے کہ اپنے اپنے عقیدہ کے مدار میں اسی خدا کو مرکز مان کر گھومتے ہوئے ہمیں ہمیشہ دوسرا عقیدہ نادرست کیوں نظر آتا۔ میرے لیے میرا عقیدہ جس قدر حقیقی ہے، ہر انسان کے لئے اتنا ہی اس کا بھی ہے، کیوں کہ ہر صورت عقائد شواہد اور ثبوت سے مبرا ہی ہوتے ہیں۔ اگر دیوتاؤں کی خاطر قربانی معیوب اور مضحکہ خیز محسوس ہوتی ہے تو وہ جو آپ سنت ابراہیمی کی ادائیگی کرتے ہیں، دوسرے مذاہب کے لوگوں کی اس بارے کیا رائے ہو گی؟ یہودی قدیمی لباس پہن کر دیوار گریہ کے سامنے اذکار دوہراتا عجیب محسوس ہو تو ایک نظر احرام لپیٹے سیاہ عمارت کے گرد چکر لگائے اور سجدہ کرتے حاجیوں پر بھی ڈالیے۔ نیزوں کو پکڑے منتر پڑھتے افریقی غیر حقیقی محسوس ہوں تو ذوالجناح کے جلوس میں ماتم کرتے اہل تشیع کو ذہن میں لائیے۔

اگر آپ ایک خاص عقیدہ کے پیروکار ہیں تو ہر دوسرے عقیدے، فرقے، مذہب کی تعظیم آپ پر واجب ٹھہرتی ہے۔ انکار اور تشکیک، سچائی کی تلاش کے راستے ہیں مگر الباکستانی روشن خیال انہی کو منزل سمجھ بیٹھے۔ روشن خیالی درحقیقت، حقیقت کی حقیقت کو جاننے کے لئے حقیقی معنوں دل و دماغ کو آلودہ کیے بغیر کھلا رکھنے کا نام ہے۔ مگر ہمارا یہ ملامتی طبقہ جو کہ اصل میں فلسفہ و سائنس کے بنیادی اصولوں سے بھی نا واقف ہے۔ ، ملائیت کے رد عمل میں ویسا ہی ایک فرقہ بن چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).